انصاف اور وطن عزیز پاکستان



یہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہے۔ ایک عورت ایک بچے کو اپنے گود میں لئے آتی ہے۔ وە عورت خلیفہ دوم سے یہ شکایت لگاتی ہے کہ یہ بچہ آپ کے بیٹے کی امانت ہے۔ فوراً فرمان جاری ہوتا ہے کہ میرے بیٹے کو حاضر کیا جائے۔

اب دنیا یہ تماشا دیکھتی ہے کہ بائیس لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے خلیفہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے پر حد قائم کر رہا ہے۔

اب خلیفہ کے سامنے اس کے اپنے بیٹے پر کوڑے برس رہے ہیں۔ جس وقت جب کوڑے پورے ہونے لگتے ہیں، اس دوران خلیفہ کا بیٹا نزع کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ اس وقت خلیفہ دوڑ کر اپنے بیٹے کو گود میں لیتا ہے۔

وہ اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ اے میرے بیٹے، جب تو حضور اکرم ﷺ کے سامنے پہنچ جاؤ تو حضور ﷺ سے یہ کہنا کہ اے اللہ کے رسول! عمر رضہ اللہ عنہ نے انصاف قائم کرنے میں اپنے بیٹے کو بھی معاف نہیں کیا۔

جس معاشرے میں انصاف قائم ہوجاتا ہے، وہاں پر حقدار کو ان کا حق ملتا ہے۔

جس معاشرے میں انصاف قائم ہوجاتا ہے، وہاں پر کوئی کسی پر ظلم نہیں کر سکتا۔ ظالم کو اپنے ظلم کے انجام کا پتہ ہوتا ہے۔ انصاف ہی تو ہے جس کے نفاذ سے ہم مثالی امن دیکھ سکتے ہے۔

انصاف اگر ہوگا تو وہاں پر مظلوم اپنے آپ کو بے آسرا نہیں تصور کرے گا۔

اسلام میں انصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری امت اسی وقت تک سر سبز رہے گی جت تک یہ تین خصلتیں اس میں باقی رہیں گی۔ ایک یہ کہ جب وہ بات کرے تو سچ بولیں

دوسرے یہ کہ جب وہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں تو انصاف کو

ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ تیسرے یہ کہ جب ان سے رحم کی درخواست کی جائے تو وہ کمزوروں پر رحم کریں۔ اسلامی معاشرے میں جب اسلام کے انصاف پر مبنی قوانین نافذ ہوتے ہیں، وہاں پر قاضی کے سامنے ایک خلیفہ اور ایک مشرک دونوں ایک جیسے انداز میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

وہاں پر قاضی اس مشرک کے حق میں فیصلہ سناتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور قول ہے کہ ایک سلطنت کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔

وطن عزیز پاکستان کو جو مسائل درپیش ہے، ان کا اصل وجہ انصاف کی فقدان ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے انصاف کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ ایک امیر کو پاکستان کے لوگوں کی اربوں روپوں کے چرانے اور باہر ملک بھجوانے پر زیادہ سے زیادہ یہ سزا دی جاتی ہے کہ اس کو ایک عہدے سے فارغ کر کے دوسرے عہدے پر لگایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک غریب کو غلطی سے بتی توڑنے پر بھی بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے۔

اب ہمارے ہاں ایسے جرائم منظرعام پر آرہے ہیں جن کی بابت چند عشرے قبل تک سوچنا بھی محال تھا۔ اس سے زیادہ پستی اور گھناؤنی حرکت کیا ہوگی کہ باپ اپنے ساتھیوں کو معصوم بیٹی پر ظلم کرنے کی دعوت دیتا پایا گیا۔ تعجب خیز امر یہ کہ گھناؤنے جرائم میں ملوث مجرم ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے اور بے حس دکھائی دیتے ہیں۔

کمزور قانونی نظام نے ان سے غلط اور درست، خیر اور شر کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی۔ آج بنیادی سوال یہ ہے کہ عام پاکستانی کو فوری انصاف کیونکر مہیا کیا جائے؟ انصاف نہ ملنے سے پاکستانی معاشرے میں انتشار اور بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا قانونی نظام مضبوط و مستحکم بنانا اشد ضروری ہے تاکہ عام آدمی کو فوری انصاف مل سکے۔ فی الوقت تو پاکستان میں دوہرا قانونی نظام مروج ہے۔

طاقتور، دولت مند اور با اثر پاکستانی جرم کر کے بھی رہا ہوجاتا ہے جبکہ غریب پاکستانی جرم نہ کرنے پر بھی جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہے۔ یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔

آخر میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب تک پاکستان میں انصاف کی واقعی عملداری نہیں ہوتی، تب تک ملک بدامنی اور شر و فساد کا شکار ہوتا رہے گا۔ اس لیے ارباب اقتدار کو چاہیے کہ انصاف کی عملداری کو قائم کیا جائے۔ حقدار کو ان کا حق ملے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments