کملیشور کی کہانی: گرمیوں کے دن


مترجم: اگرسین نارنگ
زبان : ہندی

چنگی کا دفتر خوب سجایا بنایا جا چکا ہے۔ اس کے پھاٹک پر قوس قزح کی وضع کے سائن بورڈ آویزاں ہیں۔ سید علی پینٹر نے بڑے مشاق ہاتھوں سے انہیں بنایا ہے۔ دیکھتے دیکھتے شہر میں ایسی بہت سی دکانیں ہو گئی ہیں جن پر سائن بورڈ لٹک گئے ہیں۔ اب سائن بورڈ لگانا اپنی عزت و وقعت کا بڑھانا ہے۔ بہت دن پہلے جب دینا ناتھ حلوائی کی دکان پر پہلا سائن بورڈ لگا تھا تو وہاں دودھ پینے والوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ پھر جیسے ایک سیلاب سا آ گیا اور نئے نئے طریقے اور بیل بوٹے ایجاد کیے گئے۔ ”اوم“ یا ”جے ہند“ سے شروع کر کے ”ایک بار ضرور آزمائش کیجیے“ یا ”ملاوٹ ثابت کرنے والوں کو سو روپیہ نقد انعام“ کے محاوروں اور نعروں پر عبارت ختم ہونے لگی۔

چنگی دفتر کا نام تین زبانوں میں لکھا ہے۔ چیئرمین صاحب بڑے عقل مند ہیں، ان کی سوجھ بوجھ کا ڈنکا بجتا ہے، اس لیے ہر سائن بورڈ ہندی، اردو اور انگریزی میں لکھا جاتا ہے۔ دور دور سے لیڈر تقریر کرنے یہاں آتے ہیں، ملکی اور غیرملکی سیاح، تاج محل دیکھ کر مغرب کی طرف جاتے ہوئے یہاں سے گزرتے ہیں، ان پر بہت اثر پڑتا ہے۔ اور رہی موسم کی بات۔ میلے تماشے کے دنوں میں حلوائیوں، جولائی اگست میں کتاب کاغذ والوں، بیاہ شادی کے دنوں میں کپڑے والوں اور خراب موسم میں وید حکیموں کے سائن بورڈوں پر نیا رنگ روغن کرایا جاتا ہے۔ خالص دیسی گھی والے سب سے اچھے، جو چھپروں کے نیچے دیوار پر کھریا مٹی یا ہرمچی سے لکھ کر کام چلا لیتے ہیں۔

”اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔“ اہمیت بتاتے ہوئے ویدجی نے کہا، ”بغیر پوسٹر چپکائے سینما والوں کا بھی کام نہیں چلتا۔ بڑے بڑے شہروں میں جائیے، مٹی کا تیل بیچنے والے کی دکان پر“ سائن بوٹ ”مل جائے گا۔ بڑی ضروری چیز ہے۔ بال بچوں کے نام بھی سائن بوٹ ہیں، نہیں تو نام رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اب تو سکھدیو بابو بھی سائن بوٹ لٹکا کر کمپوڈر سے ڈاکٹر بن گئے ہیں اور بیگ لے کر چلتے ہیں!“

قریب بیٹھے رام چرن نے ڈاکٹر صاحب کے ایک نئے کارنامے کی خبر دی، ”اجی کل انہوں نے بدھئی والا اکہ گھوڑا خرید لیا ہے۔“

”ہانکے گا کون؟“ ٹین کی کرسی پر چلہ کشی کے انداز میں بیٹھے پنڈت جی نے پوچھا۔

”یہ سب جیب کترنے کے طریقے ہیں۔“ وید جی کا دھیان اکے کی طرف زیادہ تھا، ”مریض سے کرایہ وصول کریں گے، سائیس کو بخشش دلائیں گے، بڑے شہروں کے ڈاکٹروں کی طرح۔ اس سے پیشے کی بدنامی ہوتی ہے۔ بھائی پوچھو، مریض کا علاج کرنا ہے کہ رعب دکھانا ہے؟ انگریزی آلہ لگا کر وہ مریض کی آدھی جان تو پہلے ہی خشک کر ڈالتے ہیں۔ آیور ویدی کے لیے نبض دیکھنا تو دور۔ دور سے ہی چہرہ دیکھ کر روگ بتا دیتا ہے۔ اب اکہ گھوڑا اس میں کیا کرے گا؟ تھوڑے دن بعد دیکھنا، ان کا سائیس کمپوڈر ہو جائے گا۔“ کہتے کہتے ویدجی بڑی گھسی ہوئی ہنسی ہنس پڑے۔

پھر بولے، ”کون کیا کہے بھائی! ڈاکٹری تو تماشا بن گئی ہے۔ وکیل مختار کے لڑکے ڈاکٹر ہونے لگے! جب کہ خون اور سنسکار سے بات بنتی ہے۔ ہاتھ میں جس آتا ہے۔ اجی وید کا بیٹا وید ہوتا ہے۔ آدھی ودیا تو اسے لڑکپن میں ہی جڑی بوٹیاں کوٹتے پیستے آجاتی ہے۔ تولہ، ماشہ، رتی کا ایسا اندازہ ہوجاتا ہے کہ اوشدھی اشدھ ہو ہی نہیں سکتی۔ اجی اوشدھی کا چمتکار اس کے بنانے کے طریقے میں ہے۔ دھنونتری۔“ ویدجی اس سے آگے کچھ کہنے ہی جا رہے تھے کہ ایک شخص کو اپنی دکان کی جانب آتا دیکھ کر چپ ہو گئے اور وہاں بیٹھے لوگوں کی طرف کچھ اس انداز سے دیکھنے لگے کہ جیسے وہ گپ لڑانے والے فالتو لوگ نہ ہوں بلکہ ان کے مریض ہوں۔

اس شخص کے دکان پر چڑھتے ہی ویدجی نے سب کچھ بھانپ لیا۔ انہوں نے پژمردگی سے اس شخص کی طرف دیکھا اور بے نیاز ہو گئے لیکن دنیاوی دکھاوا بھی کچھ ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کل یہی آدمی بیمار پڑ جائے یا اس کے گھر میں کسی کو روگ گھیر لے، اس لیے حسن سلوک اور پیشے کی عظمت کو بھی قائم رکھنا چاہیے۔ خود کو سنبھالتے ہوئے انہوں نے کہا، ”کہو بھئی، راضی خوشی؟“ اس آدمی نے جواب دیتے ہوئے، شیرے کا ایک کنستر ویدجی کے سامنے دھر دیا، ”یہ ٹھاکر صاحب نے بھجوایا ہے۔ منڈی سے لوٹتے ہوئے لیتے جائیں گے۔ ایک ڈیڑھ بجے کے قریب۔“

”اس وقت دکان بند رہے گی۔“ ویدجی نے فضول کام سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے کہا، ”وید حکیم کی دکانیں دن بھر نہیں کھلی رہتیں۔ بیوپاری تھوڑے ہی ہیں بھائی!“ لیکن پھر کسی اور دن، کسی اور موقعے کی امید نے جیسے ان سے زبردستی کہلوایا، ”خیر، انہیں دقت نہیں ہوگی۔ ہم نہیں ہوں گے تو بغل والی دکان سے کنستر اٹھا لیں۔ میں رکھواتا جاؤں گا۔“

اس شخص کے جاتے ہی ویدجی بولے، ”شراب بندی سے کیا ہوتا ہے؟ جب سے ہوئی ہے تب سے کچی شراب کی بھٹیاں گھر گھر چالو ہو گئی ہیں۔ شیرہ گھی کے بھاؤ بکنے لگا ہے۔ اور ان ڈاکٹروں کو کیا کہیے۔ ان کی دکانیں ایسا ٹھیکہ بن گئی ہیں جو ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ لائسنس ملتا ہے دوا کی طرح استعمال کرنے کے لیے، لیکن کھلے عام جنجر بکتا ہے۔ کہیں کچھ نہیں ہوتا۔ ہم بھنگ افیم کی ایک پڑیا چاہیں تو تفصیل دینی پڑتی ہے۔“

”ذمہ داری کی بات ہے۔“ پنڈت جی نے کہا۔

”اب ذمہ دار وید ہی رہ گئے ہیں۔ سب کی رجسٹری ہو چکی بھائی! ایرے غیرے اور ٹٹ پونجیے جتنے گھس آئے تھے، ان کی صفائی ہو گئی۔ اب جن کے پاس رجسٹری ہوگی وہی ویدک کر سکتا ہے۔ چورن بنانے والے وید بن بیٹھے تھے۔ سب کا بوریا بستر گول ہو گیا۔ لکھنؤ میں سرکاری جانچ پڑتال کے بعد پروانہ ملا ہے۔“

ویدجی کی بات میں دلچسپی نہ لیتے ہوئے پنڈت جی چلے گئے۔ ویدجی نے دکان کے اندر کی طرف قدم بڑھائے اور اوشدھالیہ کا بورڈ لکھ رہے چندر سے بولے، ”سفیدہ گاڑھا ہے بابو، تارپین ملا لو!“ اور وہ ایک بوتل اٹھا لائے جس پر ”اشوکارشٹ“ (قوت باہ بڑھانے کی دوا) کا لیبل تھا۔

اسی طرح نہ جانے کن کن دواؤں کی بوتلوں میں کن کن اجزا کی روح بھری تھی۔ سامنے الماری میں بڑی بڑی بوتلیں تھیں جن پر طرح طرح کے معجونوں اور کشتوں کے لیبل چسپاں تھے اور شیشیوں کی اس قطار کے پیچھے روزمرہ کی ضرورت کا دیگر سامان تھا۔ سامنے میز پر بھی سفید شیشیوں کی ایک قطار تھی جن میں سے کچھ میں مزیدار چورن، لون بھاسکر وغیرہ بھرے تھے۔ دیگر شیشیوں میں جو کچھ تھا اسے محض ویدجی ہی جانتے تھے۔

تارپین کا تیل ملا کر چندر لکھنے لگا، ”پروفیسر کویراج نتیا نند تیواری۔“ اوپر کی سطر، ”شری دھنونتری اوشدھالیہ“ خود ویدجی اپنے ہاتھ سے لکھ چکے تھے۔ سفیدے کے وہ حروف ایسے لگ رہے تھے جیسے روئی کے پھاہے چپکا دیے گئے ہوں۔ اوپر جگہ خالی دیکھ کر ویدجی بولے، ”بابو، اوپر جے ہند لکھ دینا۔ اور یہ جو جگہ بچ رہی ہے اس میں ایک طرف وراکشا سو کی بوتل اور دوسری طرف کھرل کی تصویر بنانا۔ آرٹ ہمارے پاس مڈل تک تھا لیکن یہ تو ہاتھ سدھنے کی بات ہے۔“

چندر کچھ اوب رہا تھا۔ خوامخواہ پکڑا گیا! خوش خط ہونے کا یہ انعام اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ بولا، ”ویدجی، کسی پینٹر سے بنواتے۔ اچھا خاصا لکھ دیتا۔ اب وہ بات نہیں آئے گی۔“ پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے برش نیچے رکھ دیا۔

”پانچ روپے مانگتا تھا بابو۔ دو لائنوں کے پانچ روپے! اب اپنی محنت کے ساتھ یہ سائن بوٹ دس بارہ آنے کا پڑا۔ یہ رنگ ایک مریض دے گیا۔ بجلی کمپنی کا پینٹر بدہضمی سے پریشان تھا، دو خوراکیں بنا کر دے دیں اور پیسے نہیں لیے۔ سو وہ دو تین رنگ اور تھوڑی سی وارنش دے گیا۔ دو بکسے رنگے گئے۔ یہ بوٹ بن گیا اور ایک آدھ کرسی رنگ جائے گی۔ بس تم اتنا اور لکھ دو، لال رنگ کا شیڈ ہم دیتے رہیں گے۔ حاشیہ ترنگا کھلے گا؟“ ویدجی نے پوچھا اور خود ہی تائید بھی کردی۔

چندر گرمی سے پریشان تھا۔ جیسے جیسے دوپہر نزدیک آتی جا رہی تھی، سڑک پر دھول اور لو کا زور بڑھتا جا رہا تھا۔ لحاظ کے مارے چندر منع نہیں کر پایا۔ ویدجی نے پنکھے سے اپنی پیٹھ کھجاتے ہوئے پٹواریوں کے بڑے بڑے رجسٹر نکال کر پھیلانے شروع کر دیے۔ سورج کی تپش سے بچنے کے لیے دکان کا ایک پٹ بند کر کے ویدجی خالی رجسٹروں میں نقلیں کرنے لگے۔ چندر نے اپنی گلو خلاصی کرانے کے لیے پوچھا، ”یہ سب کیا ہے ویدجی؟“

وید جی کا منھ اتر گیا۔ بولے، ”خالی بیٹھنے سے اچھا ہے کچھ کام کیا جائے۔ نئے پٹواریوں کو کام دھام آتا نہیں، روز قانون گویا نائب صاحب سے جھاڑیں پڑتی ہیں۔ جھک مار کر ان لوگوں کو یہ کام اجرت پر کرانا پڑتا ہے۔ اب پرانے گھاگ پٹواری کہاں رہے جن کے پیٹ میں دیہی قانون بستا تھا۔ روٹیاں چھن گئیں بیچاروں کی۔ لیکن سچ پوچھو تو اب بھی سارا کام پرانے پٹواری ہی کر رہے ہیں۔ نئے پٹواریوں کی تو ساری تنخواہ اس کی اجرت میں ہی نکل جاتی ہے۔ اب پیٹ ان کا بھی ہے۔ تیا پانچا کر کے کسانوں سے نکال لاتے ہیں۔ لائیں نہیں تو کھائیں کیا؟ دو تین پٹواری اپنے بھی جاننے والے ہیں، انہیں سے کبھی کبھار ہلکا بھاری کام مل جاتا ہے۔ نقل کا کام، بس رجسٹر بھرنے ہوتے ہیں۔“

باہر سڑک ویران ہوتی جا رہی تھی۔ دفتر کے بابو لوگ جا چکے تھے۔ سامنے چنگی میں خس کے پردوں پر چھڑکاؤ شروع ہو گیا تھا۔ دور پیپل کے کھڑکھڑاتے پتوں کا شور لو کے ساتھ آ رہا تھا۔ تبھی ایک شخص نے پٹ کے پیچھے سے اندر جھانک کر دیکھا۔ ویدجی کی بات جو شاید لمحہ دو لمحہ بعد درد سے بوجھل ہوجاتی، وہیں رک گئی۔ ان کی نگاہ نے اس شخص کو پرکھا اور وہ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ فوراً بولے، ”ایک بوٹ آگرے سے بنوایا ہے، جب تک نہیں آتا اسی سے کام چلے گا۔ فرصت کہاں ملتی ہے جو اس سب میں سر کھپائیں۔“ اور ایک دم مصروف بنتے ہوئے انہوں نے اس شخص سے سوال کیا، ”کہو بھائی، کیا بات ہے؟“

”ڈاکدری سرٹیفیکٹ۔ کو سماں ٹیشن پر کھلاسی ہیں گے سائب۔“ اس آدمی نے جواب دیا جو ریلوے کی نیلی رو دی میں ملبوس تھا۔

ویدجی اس کی ضرورت کا پورا اندازہ کرتے ہوئے بولے، ”ہاں، کس تاریخ سے کب تک کا چاہیے؟“
”پندرہ دن پہلے آئے تھے سائب، سات دن کا اور چاہیے۔“

کچھ حساب جوڑ کر ویدجی بولے، ”دیکھو بھائی، سرٹیفیکٹ پکا دے دیں گے، سرکار کا رجسٹر نمبر دیں گے، روپے چار لیں گے۔“ پھر ویدجی نے چار روپے پر اس کے بدک جانے کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہا، ”اگر پچھلا نہ لو تو دو روپے سے کام چل جائے گا۔“

خلاصی مایوس ہو گیا لیکن اس سے کہیں زیادہ مایوسی ویدجی کے پسینے سے شرابور چہرے پر پھیل گئی۔ خلاصی بڑی بے اعتنائی سے بولا، ”سوبرن سنگھ نے آپ کے پاس بھیجا تھا۔“ اس کے کہنے کا ڈھنگ ایسا تھا جیسے یہ کام اس کا نہ ہو بلکہ سوبرن سنگھ کا ہو لیکن وید جی کے ہاتھ نبض آ گئی تھی۔ بولے، ”وہ تو ہم پہلے ہی سمجھ گئے تھے۔ بغیر جان پہچان کے ہم دیتے بھی نہیں، عزت کا سوال ہے۔ ہمیں کیا معلوم تم کہاں رہے، کیا کرتے رہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ وشواس پر جوکھم اٹھائیں گے۔ پندرہ دن پہلے سے تمہارا نام رجسٹر پر چڑھائیں گے، تب کہیں کام بنے گا۔ یہ گھر کی کھیتی نہیں ہے!“ کہتے کہتے انہوں نے چندر کی طرف امداد کے لیے دیکھا۔ چندر نے ساتھ دیا، ”اب انہیں کیا پتا کہ تم بیمار رہے کہ ڈاکا ڈالتے رہے۔ سرکاری معاملہ ہے۔“

”پانچ سے کم میں دنیا جہان کا کوئی ڈاکٹر بھی نہیں دے سکتا۔“ اور ویدجی نے سامنے کھلا پڑا پٹواری والا رجسٹر ایک طرف کھسکاتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا، ”ارے دم مارنے کی فرصت نہیں ہے۔ یہ دیکھو، دیکھتے ہو نام؟ مریضوں کو چھوڑ کر، سرکار کو دکھانے کے لیے یہ تفصیل وار رجسٹر بنانے پڑتے ہیں۔ ایک ایک روگی کا نام، مرض، آمدنی۔ انہیں میں تمہارا نام چڑھانا پڑے گا۔ اب بتاؤ کہ مریضوں کو دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ دوچار روپے کے لیے سرٹیفیکٹ دے کر اس سرکاری جھنجھٹ میں پھنسنا؟“ ویدجی نے تحصیل والا رجسٹر ایک دم بند کر کے اپنے سامنے سے ہٹادیا اور محض فیض پہچانے کے لیے رضامندانہ انداز سے بیٹھ کر اپنے قلم سے کان کریدنے لگے۔

ریلوے کا خلاصی ایک منٹ تک بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور وید جی کو سر جھکائے اپنے کام میں مشغول دیکھ کر دکان سے نیچے اتر گیا۔ ویدجی نے جھٹ اپنی غلطی محسوس کی کہ انہوں نے بات غلط جگہ سے توڑ دی اور ایسی توڑی کہ ٹوٹ ہی گئی۔ یکلخت کچھ اور سمجھ میں نہ آیا تو خلاصی کو پکارنے کے انداز سے بولے، ”ارے سنو، ٹھاکر سوبرن سنگھ سے ہماری جے رام جی کی کہہ دینا۔ ان کے بال بچے تو راضی خوشی ہیں؟“

”ہاں، سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔“ خلاصی نے رک کر وہیں سے کہا۔

پھر ویدجی درحقیقت خلاصی کو سناتے ہوئے، چندر سے بولے، ”دس گاؤں شہر چھوڑ کر ٹھاکر سوبرن سنگھ علاج کے لیے ہمارے پاس آتے ہیں۔ بھائی، ان کے لیے ہم بھی ہمیشہ حاضر رہتے ہیں۔“

چندر نے بورڈ پر آخری حرف مکمل کرتے ہوئے پوچھا، ”چلا گیا؟“

”لوٹ پھر کے آئے گا!“ ویدجی نے جیسے خود کو دلاسا دیا لیکن اس کی ناگزیر واپسی پر یقین رکھتے ہوئے بولے، ”گاؤں کے وید اور وکیل ایک ہی ہوتے ہیں۔ سوبرن سنگھ نے اگر ہمارا نام اسے بتایا ہے تو ضرور واپس آئے گا۔ گاؤں والوں کی مٹھی ذرا دیر میں کھلتی ہے۔ کہیں بیٹھ کر سوچے گا، تب آئے گا۔“

”کہیں اور سے لے لیا تو؟“ چندر نے کہا تو وید جی نے بات کاٹ دی، ”نہیں نہیں بابو!“ پھر وید جی نے بورڈ کی طرف دیکھا اور تحسین آمیز لہجے میں بولے، ”واہ بھئی چندر بابو! سائن بوٹ جچ گیا۔ کام چلے گا! یہ پانچ روپے پینٹر کو دے کر بعد میں مریضوں سے وصول کرنا پڑتے۔ اکہ گھوڑا اور یہ خرچہ۔ بات ایک ہی ہے۔ چاہے ناک سامنے سے پکڑلو، چاہے گھماکر۔ سید علی کے ہاتھ کا لکھا بوٹ مریضوں کو اچھا تو نہیں کر دیتا۔ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے۔“ پھر ویدجی دھیرے سے ہنس پڑے۔ پتا نہیں وہ اپنی بات پر ہنسے تھے یا دوسروں پر۔

عین اس وقت ایک اور شخص داخل ہوا۔ ایسا لگا کہ خلاصی لوٹ آیا ہے لیکن وہ یرقان کا مریض تھا۔ اسے دیکھتے ہی ویدجی کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا۔ وہ اندر گئے۔ ایک تعویذ لاتے ہوئے بولے، ”اب اس کا اثر دیکھو! بیس پچیس روز میں اس کا چمتکار دکھائی دے گا۔“ یرقان زدہ کے بازو پر تعویذ باندھ کر اور اس کے کچھ آنے پیسے جیب میں ڈال کر ویدجی سنجیدہ بن کر بیٹھ گئے۔ مریض چلا گیا تو بولے، ”یہ ودیا بھی ہمارے پتاجی کے پاس تھی۔ ان کی لکھی پستکیں پڑی ہیں۔ بہت سوچتا ہوں، انہیں پھر سے نقل کرلوں۔ بڑے تجربے کی باتیں ہیں۔ وشواس کی بات ہے بابو۔ ایک چٹکی دھول سے آدمی صحت یاب ہو سکتا ہے۔ ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک بھلا کیا ہے؟ ایک چٹکی شکر، جس پر وشواس جم جائے، بس!“

چندر نے چلتے ہوئے کہا، ”اب تو اوشدھالیہ بند کرنے کا وقت ہو گیا۔ کھانا کھانے نہیں جائیے گا؟“

”تم چلو، ہم دس پانچ منٹ بعد آئیں گے۔“ وید جی نے تحصیل والا کام اپنے آگے پھر کھول لیا۔ دکان کا دروازہ ادھ کھلا کر کے بیٹھ گئے۔ باہر دھوپ کی طرف دیکھ کر آنکھیں چندھیائی جاتی تھیں۔ ملحقہ دکان دار بچن لال نے اپنی دکان بند کر کے، اپنے گھر جاتے ہوئے ویدجی کی دکان کھلی دیکھی تو پوچھا، ”آپ کھانا کھانے نہیں گئے؟“

”ہاں، ایسے ہی ایک ضروری کام ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے۔“ وید جی نے جواب دیا اور زمین پر چٹائی بچھائی، کاغذ رجسٹر میز پر سے اٹھا کر نیچے پھیلا لیے۔ لیکن گرمی تو گرمی۔ پسینہ تھمتا ہی نہ تھا۔ رہ رہ کر پنکھا جھلتے، پھر نقل کرنے بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر دلجمعی سے کام کیا لیکن ہمت چھوٹ گئی۔ اٹھ کر دھول سے اٹی پرانی شیشیوں کی جھاڑ پونچھ میں لگ گئے۔ انہیں قطار میں کھڑا کیا۔ لیکن گرمی کی دوپہر، وقت تھما ہوا لگتا تھا۔

ویدجی نے ایک بار دروازے میں سے منھ نکال کر ایک نظر سڑک پر ڈالی۔ وہاں انہیں اکا دکا آدمی نظر آئے۔ بہرحال آتے جاتے لوگوں کی موجودگی سے انہیں بڑا سہارا ملا۔ وہ دکان کے اندر آ گئے، سائن بورڈ کا تار سیدھا کیا اور پھر اسے دکان کے باہر لٹکا دیا۔ ”دھنونتری اوشدھالیہ“ کا بورڈ دکان کی گردن میں تعویذ کی طرح جھول گیا۔

کچھ وقت اور گزر گیا۔ آخر وید جی نے ہمت کی۔ ایک لوٹا پانی پیا اور اپنی دھوتی رانوں تک چڑھا کر بڑی مستعدی سے کام میں جٹ گئے۔ باہر ذرا آہٹ ہوئی۔ انہوں نے فکر مندی سے ادھر دیکھا۔

”آج آرام کرنے نہیں گئے ویدجی؟“ گھر جاتے ہوئے بازار کے ایک دکاندار نے پوچھا۔

”بس جانے کی سوچ رہا ہوں۔ کچھ کام رہ گیا تھا، سوچا کرتا چلوں۔“ اور وہ دیوار کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے۔ کرتا اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ اکہری چھت کی دکان آگ کی طرح تپ رہی تھی۔ ویدجی کی آنکھیں نیند سے بہت بوجھل ہو رہی تھیں۔ ایک جھپکی سی آئی۔ کچھ پل بیت گئے۔ نہیں رہا گیا تو رجسٹروں کا تکیہ بنا کر انہوں نے کمر سیدھی کی۔ لیکن نیند آئی اور آتی چلی گئی، نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔

اچانک ایک آہٹ نے چونکا دیا۔ آنکھیں کھولتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ بچن لال دوپہر گزار کر واپس آ گیا تھا۔

”ارے، آج آپ ابھی تک گئے ہی نہیں؟“
ویدجی زور زور سے پنکھا جھلنے لگے۔ بچن لال نے دکان سے اترتے ہوئے پوچھا، ”کسی کا انتظار ہے کیا؟“

”ہاں، ایک مریض آنے کو کہہ گیا تھا۔ لیکن ابھی تک آیا۔“ ویدجی نے بچن لال کو جاتے دیکھا تو اپنی بات ادھوری ہی چھوڑ کر چپ ہو گئے اور پسینہ پونچھنے لگے۔

ریختہ ڈاٹ آرگ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ریختہ ڈاٹ آرگ

ہم سب کے لیے ریختہ ڈاٹ آرگ کی جانب سے ارسال کردہ خاص تحریریں۔ دیسی ادب کی چاشنی، اردو اور ہندی ادب کا انتخاب۔

rekhta has 6 posts and counting.See all posts by rekhta

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments