نیو لبرل ازم


فلمی تجزیہ کار ہندی فلم ́ہم آپ کے ہیں کون’ میں سرمایہ دارانہ معاشی نظریات کو سینما کا کامیاب تجربہ قرار دیتے ہیں۔ یہ فلم 1994ء میں بنی تھی اس وقت تک سوویت یونین کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ دنیا بائے پولر سے یونی پولر نظام کے پنجے میں مقید ہو کر رہ گئی۔ پہلے سرمایہ دار اور محنت کش طبقات کے مفادات نہ صرف ایک دوسرے سے متصادم دکھائے جاتے تھے بلکہ دونوں فریق کے مابین کشمکش کا کلائمیکس محنت کی سربلندی کا مظہر ہوا کرتا تھا یہاں تک کہ تمام تر قباحتیں جنہیں انسانیت کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکا سمجھا جاتا تھا سے دور رہنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اب سرمایہ دارانہ ترقی کا محل مزدور کی تنزلی و تحقیر کی بنیاد پر تعمیر کیا جاتا ہے اس لیے ́ہم آپ کے ہیں کون` کی کہانی سے محنت کش کو مرکز سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا۔

سیاست کا میدان بھی فلم کی طرح ایک کہانی کا پلاٹ ہے کہ تمام کردار کہانی کے آس پاس طواف کرتے ملیں گے۔ تاریخ عالم میں کئی بادشاہ جہانگیر کے روپ میں عوام الناس پر حکومت کرتے ملیں گے اور بادشاہ سلامت پر پس پردہ حکومت کوئی نور جہاں کرتی ملے گی۔ کچھ دن پہلے جیو نیوز کے معروف صحافی حامد میر کی تقریر وائرل ہو گئی تھی جس میں جنرل رانی کا تذکرہ گوش گزار ہوا۔

بہ ہر حال حکومت کے زیر سایہ تمام کردار یکطرفہ سرمایہ دار کے نمائندے اور ان کے مفادات کے رکھوالے رہے ہیں۔ انحراف کرنے یا من مانی کرنے کی صورت میں سولین صاحب اقتدار کو عبرتناک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ اس لیے مفاد عامہ کے بڑے بڑے صنعتی ادارے مفلوج بنا دیے گئے ہیں۔ نہ فیتہ چلے گا نہ روزگار ملے گا ا ا الا خیر صلا۔

فلم میں کرداروں کے محض نام بدلتے ہیں۔ اسکرپٹ وہی استحصالی گردش ایام کی طرح مستعمل رہتا ہے۔ مکانیت سے عالمگیریت تک اختیارات چند ملٹائے نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں وہ حکومتیں بناتے ہیں اور گراتے بھی ہیں انہیں شور بڑا پسند ہے۔ ریسلنگ کے اکھاڑے میں کوئی کھلاڑی ہے کوئی ریفری کوئی سٹے باز ہے کوئی تماشائی مگر سارے کے سارے مفادات کی لڑائی اور میسر (Easy Mony) کی کمائی میں مگن ہیں۔

سرمایہ دارانہ ترقی میں ایندھن کا کام انتشار فراہم کرتا ہے۔ جمہوریت کے نام میں دولت جیسے بھی اور جتنی بھی سمیٹ سکتے ہیں آزادی ہے۔ کم عرصے میں سائکل سوار آج لینڈ کروزر میں گھوم رہے ہیں۔ چنانچہ کرپشن کمزور جمہوریت کی دین ہے۔ باقی چینی اسکینڈل ایوب کے دور کا ہو کہ عمرانی دور کا کھیل بنام منافعہ سرمایہ دار ہی کھیلتے ہیں۔ بس باتیں وہ کریں جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ نیو لبرل ازم کا منشور یہ ہے۔ سو نیولبرل معاشی نظام سے فائدہ سمیٹنے والے کردار جو بھی زباں بولتے ہوں سب سرمایہ داروں کے لیے کام کرتے ہیں نہ کہ کسانوں اور مزدوروں کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments