بیلٹ اینڈ روڈ کے ثمرات


حالیہ برسوں میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کو عالمی سطح پر رابطہ سازی اور اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ کے اعتبار سے نمایاں ترین منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک اس منصوبے سے جڑتے چلے جا رہے ہیں اور چین کی ترقی سے استفادے کے خواہاں ہیں۔ اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائی جائے تو بیلٹ اینڈ روڈ کی اقتصادی و تجارتی اہمیت مزید عیاں ہوتی ہے۔ ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے جاری اشاریوں کے مطابق رواں سال جنوری سے جولائی تک چین کی ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ سے وابستہ ممالک کے لیے درآمدات اور برآمدات کی مجموعی مالیت 6.3 ٹریلین یوآن تک جا پہنچی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 25.5 فیصد زائد ہے۔

اس نمایاں پیش رفت کی وجہ یہی ہے کہ چینی قیادت چاہتی ہے کہ عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ کی اعلیٰ معیار کی مشترکہ تعمیر کو فروغ دیا جائے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ تعاون نے عالمی مواصلات اور تبادلے کو فروغ دیا ہے، اور اس نے موجودہ وبا کے تحت عالمی معیشت کی بحالی کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ انیشییٹو کے پیش کیے جانے کے بعد گزشتہ 8 سالوں میں دنیا بھر کے ممالک کو اس منصوبے سے وسیع مواقع اور ثمرات حاصل ہوئے ہیں۔ تاحال چین کے ساتھ ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ تعاون دستاویز پر دستخط کرنے والے شراکت دار ممالک کی تعداد 140 تک پہنچ چکی ہے۔ چین اور ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ شراکت داروں کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 9.2 ٹریلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اور متعلقہ ممالک میں چینی کمپنیوں کی مجموعی براہ راست سرمایہ کاری 130 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ دنیا کا وسیع ترین بین الاقوامی تعاون کا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔

پاکستان کے تناظر میں بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک اہم منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے لیے اقتصادی و سماجی ترقی اور لوگوں کے معیار زندگی میں نمایاں بہتری لا رہا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کا روزگار کے نئے مواقعوں کی فراہمی، مقامی لوگوں کے سماجی و معاشی فوائد کے فروغ اور انسداد غربت میں نمایاں کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سی پیک منصوبوں پر کام کی رفتار تیزی سے جاری ہے اور سی پیک منصوبہ پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل کے بعد دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جس نے ملک میں توانائی اور مواصلاتی بنیادی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلی لائی ہے۔

سی پیک کے دوسرے مرحلے کے ثمرات پہلے مرحلے کی نسبت کہیں زیادہ ہوں گے۔ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی و تبادلے اور خصوصی اقتصادی زونز کے قیام سے پاکستان میں ایک نئے صنعتی دور کا آغاز ہو گا۔ سی پیک کے تحت فعال ہونے والی پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ کو قومی معاشی ترقی اور علاقائی روابط اور تجارت کو بڑھانے کے لیے بہترین روڈ انفراسٹرکچر کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت چین اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کا دائرہ مزید وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اقتصادی ترقی کے لیے چین کے تجربے سے سیکھ رہا ہے۔

موجودہ وبائی صورتحال میں وبا سے نمٹنے میں تعاون اور تجارت و سرمایہ کاری میں اضافہ ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ کا کلیدی موضوع بن چکا ہے۔ ماہرین کے نزدیک میکانزم، ماڈلز اور تصورات کی بہتری کے ساتھ ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ ترقی اور عالمی اتفاق رائے کو فروغ دینے میں وسیع کردار ادا کرے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ رواں سال جون تک، چین نے 140 ممالک اور 32 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ کی مشترکہ تعمیر کے لیے تعاون کی 206 دستاویزات پر دستخط کیے ہیں، جن میں باہمی رابطہ سازی، سرمایہ کاری، تجارت، مالیات، ٹیکنالوجی، سماج، ثقافت، عوامی زندگی اور دیگر شعبے شامل ہیں۔

دی بیلٹ اینڈ روڈ کے ترقیاتی طریقہ کار، ترقیاتی ماڈل اور ترقیاتی تصور کی بہتری سے چین اور متعلقہ ممالک کے درمیان روابط، تعاون اور تبادلے مزید ہموار ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال چین۔ یورپ مال بردار ریلوے بھی ہے جہاں چین کے شہر شیان سے یورپ جانے والی مال بردار ریل گاڑیوں کی مجموعی تعداد دس ہزار کا سنگ میل عبور کر چکی ہے۔ 2013 میں چین۔ یورپ مال بردار ٹرین سروس کے آغاز کے بعد سے، شیان سے 15 روٹس کھولے گئے ہیں، جو شیان کو 44 ممالک اور علاقوں سے جوڑتے ہیں۔

چین۔ یورپ مال بردار ٹرین سروس کی مسلسل ترقی کے ساتھ، شیان کے ذریعے نقل و حمل والی مصنوعات کا دائرہ نو اقسام تک پھیل چکا ہے، جن میں ٹیکسٹائل مصنوعات، مشینری، الیکٹرانک مصنوعات، آٹو موبائل اور آٹو پارٹس شامل ہیں۔ اسی روٹ کے ذریعے یورپ تک انسداد وبا کا سامان بھی انتہائی نازک مرحلے میں پہنچایا گیا جس سے کئی یورپی ممالک میں وبا کی روک تھام و کنٹرول میں نمایاں مدد ملی۔

حقائق کے تناظر میں چین بیلٹ اینڈ روڈ سمیت دیگر اقدامات کے ذریعے اپنے دروازے دنیا کے لیے مزید کھول رہا ہے اور نئے امکانات سامنے لا رہا ہے۔ اس ضمن میں بی آر آئی ایک ایسی گاڑی کی مانند ہے، جو چینی سرمایہ کاری کو پاکستان سمیت دوسرے تمام خطوں میں لے کر جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments