سول بالا دستی: مزاحمت یا مفاہمت


آئینی لحاظ سے پاکستان ایک جمہوری ملک جانا جاتا ہے۔ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی مفکرین ملک میں جمہوریت کے استحکام کی اہمیت اور افادیت کے رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہاں جمہوریت بہت سارے رکاوٹوں سے دوچار چلی آ رہی ہے۔ کبھی مارشل لاء سے اکھاڑا گیا تو کبھی اس کو بالواسطہ پابند رکھا گیا۔ یوں تو عام طور پر حکومت سازی آئینی طریقے سے عمل میں آتی ہے مگر اس سارے عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور کردار ایک غیر علانیہ حقیقت ہے۔

اس کی آشیر باد کے بغیر کسی جماعت کا اقتدار میں انا ایک خواب سا تصور کیا جاتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس کو ایک خاص دائرہ کار میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر منتخب وزیر اعظم سول بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو اس کو مختلف حربوں سے دائرے میں رکھا جاتا ہے اگر کوئی پھر بھی آئین میں حاصل اپنے اختیار کے مطابق سول بالادستی جتانے پر مصر ہوتا ہے۔ تو پھر اس کی قبل از وقت رخصتی کرائی جاتی ہے۔ 1988 سے 2017 تک سارے منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ یہی کیا گیا۔

ملکی سیاست اور حکومت سازی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اگر ایک طرف ایک تسلیم شدہ ناگوار حقیقت ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس سے چھٹکارا پانے کی سوچ بھی بعض سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسند رہنماؤں میں موجود رہی ہے۔ بلکہ ابتدا سے ملک کے بعض سیاسی جماعتوں اور اہل قلم نے اس حوالے سے نہ صرف آواز اٹھائی ہے بلکہ عملی جدوجہد کے دوران قربانیاں بھی دی ہیں۔ جن کے بعض ثمرات بھی ملے ہیں۔ وہ یوں کہ اسی جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت آج جمہوریت کو ماضی کی طرح مارشل لاء لگا کر لپٹنے کے خدشات بھی کم ہو گئے ہیں۔ تاہم حقیقی جمہوریت اور سول بالادستی کی منزل ابھی نہیں آئی ہے۔

اس منزل تک پہنچنے کے لیے جس جدوجہد کی ضروری ہے۔ وہ صرف چھوٹے صوبوں سے متعلق جماعتوں یا محدود اثر رکھنے والے سیاست دانوں کی کاوشوں سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا ہے۔ دوسرے کئی عوامل کے ساتھ اس کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ اس سوچ اور جدوجہد کے مراکز بنیادی طور پر چھوٹے صوبے رہے ہیں۔ ان کو پنجاب کی طرف سے خاطر خواہ حمایت نہیں ملی اور پنجاب کے بغیر اس کا حصول بے حد مشکل۔ ہے۔ اسی بنا نامور تجربہ کار سیاست دان

ولی خان مرحوم کہا کرتا تھا کہ ”اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آخری اور فیصلہ کن لڑائی پنجاب سے لڑی جائے گی“

ولی خان کی یہ بات صحیح یوں ہے کہ پنجاب نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بلکہ دوسرے مختلف حوالوں سے ایم ترین صوبہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ غلط نہیں ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ”پاور ٹاؤن“ پنجاب ہے۔ چھوٹے صوبوں سے متعلق عوام کی آواز یا جدوجہد اسٹیبلشمنٹ پر کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوتی ہے۔ پنجاب سے عوامی سطح کی موثر تحریک اٹھ جائے تو یہ نتیجہ خیز اور فیصلہ کن ہو سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تو اس پر مبنی بیانیے کو پیشتر جمہوری (سیاسی اور صحافتی) حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی

اگر چہ کچھ حلقوں کو اس بیانیے کے محرکات یا مقاصد کے بارے بوجوہ تحفظات بھی رہیں تاہم ”ووٹ کو عزت دو“ (سول بالا دستی ) کے بیانیہ سے کوئی حقیقی جمہوریت پسند اصولاً اختلاف نہیں کر سکتا ہے۔

جمہوریت نام ہی عوام کی حکومت کا ہے۔ اس میں فیصلوں کا حق اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہوتا ہے ریاست کے ادارے منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ان کو پارلیمنٹ اور حکومت کے منظور کردہ قوانین، پالیسیوں اور احکامات کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔

بعض حلقوں کے تحفظات کے باوجود نواز شریف کے موقف اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مریم نواز شریف کی بعض جارحانہ تقریروں سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی اور صحافتی حلقوں کے یہاں یہ توقع پیدا ہو گئی کہ شاید اسٹیبلشمنٹ سے فیصلہ کن لڑائی کی شروعات ہو گئیں۔ ابتدائی جوش و خروش کے بعد مسئلہ مگر یہ رہا کہ اس بیانیے کے حوالے سے نون لیگ کا مختلف طرز عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کی قیادت خود یکسو نہیں ہے۔ جس سے نہ صرف بیانیے کے ہمدرد حلقے بلکہ نون لیگ کے نظریاتی کارکن اور ووٹرز کو بھی کنفیوژن کا سامنا ہے۔ بیانیہ کے حوالے سے نون لیگ کے اس کنفیوژن کی وجوہات کیا ہیں۔ سیاسی ماہرین کے تجزیوں کی روشنی میں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1۔ حکمت عملی۔ 2۔ لیگ کے اندر عدم اتفاق اور اندرونی خاندانی کشمکش۔

1۔ حکمت عملی کو وجہ قرار دینے والوں کا موقف ہے کہ نواز شریف کے بیانیے کا بنیادی مقصد اسٹیبلشمنٹ ہر دباو ڈال کر اس سے کچھ ریلیف یا عمران خان کے الفاظ میں این آر او کا حصول ہے۔ ان کے مطابق طے شدہ حکمت عملی کے تحت نواز شریف یا مریم نواز بیانیے کے حق میں سخت بیانات یا تقریریں کر دیتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ اور اسی دوران شہباز شریف اپنے مفاہمت کے بیانیے کو لے کر اس توقع کے ساتھ متحرک ہوجاتا ہے کہ شاید مبینہ دباو کے باعث مقتدرہ مطلوب ڈیل کے لیے لچک دکھا دے۔ مگر جب مناسب نتیجہ نہیں مل پا رہا ہو تو وہ خاموش اور نواز شریف اور مریم نواز پھر بیانات کے ذریعے مزاحمتی بیانیے کی راگ الاپنے لگتے ہیں۔

2۔ اس کے برعکس ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ حصول ریلیف کے لیے کسی حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ وہ اس پر واقعی دل سے یقین رکھتا ہے۔ مگر اس کا مسئلہ نون لیگ کے اندر عدم اتفاق آور اندرونی خاندانی کشمکش ہے۔ شہباز شریف اور نون لیگ میں اس کے ہم خیال رہنما بوجوہ مزاحمت کے بجائے مفاہمت کے حق میں ہیں اور مزاحمتی بیانیہ کے لیے تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کارکنوں کو متحرک اور لیڈ کرنے سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔

ایسی صورت حال میں نون لیگ کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی۔ یہ تو آنے والے حالات بتائیں گے۔ تاہم ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ اگر لیگ شہباز شریف اور اس کے ساتھیوں کے مفاہمت کے بیانیے کو اپنا لیتی ہے تو اس بحث سے قطع نظر کہ اس کا بیانیہ موثر ہو سکتا ہے یا نہیں تاہم بالفرض اگر یہ کامیاب ہوا تو ممکن ہے کہ اگلے انتحابات میں اس کو اقتدار میں حصہ مل جائے۔ اقتدار ملنے کے فوائد میں ایک تو یہ ہو سکتا ہے۔ کہ۔ شریف خاندان اور لیگ کے بعض رہنماؤں کے لیے ریلیف یا با الفاظ دیگر این آر او مل جائے۔ دوسرا یہ کہ نون لیگ سے بعض اہم رہنماؤں ( الیکٹیبلز ) کے نکلنے کا خدشہ نہیں رہے گا۔ تیسرا یہ کہ صوبہ پنجاب میں نون لیگ کے ووٹ بینک کو استحکام ملے گا اور چوتھا شاید شہباز شریف کی وزیر اعظم بنے کی آرزو پوری ہو جائے۔

تاہم متذکرہ فوائد چونکہ بلا قیمت نہیں مل سکتے ہیں ظاہر ہے کہ لیگ کو چند شرائط اور وعدوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ دوسری باتوں کے علاوہ نون لیگ کو نواز شریف کا بیانیہ ترک کرنا ہوگا۔ جس سے نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی ساکھ بر قرار نہیں رہ سکتی۔ اور یہ ان دونوں بالخصوص مریم نواز کے سیاسی مستقبل کو سخت خطرے میں ڈال دے گا۔ شاید یہ صورت حال ان دونوں کو منظور نہ ہو۔

ایسے میں اہم سوال یہ بنتا ہے کہ نواز شریف کے پاس بہتر راستہ کیا ہو سکتا ہے؟

اس حوالے سے بعض غیرجانبدار سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف صاحب واقعی اپنے بیانیے پر دل سے یقین رکھتا ہے۔ واقعی اس پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ واقعی اس کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے اور تاریخ کے درست سمت میں رہنے کی واقعی ٹھان لی ہے۔ تو اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے لیے ضروری تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ تقاضے کیا ہیں؟

ایک جمہوریت پسند لیڈر کی بنیادی طاقت عوام ہوتے ہیں۔ انتحابات ہوں یا سیاسی تحریک اس کی کامیابی کا اصل دار و مدار عوامی حمایت پر ہوتی ہے۔ اس لیے عوامی طاقت کو مناسب انداز مین بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ نون لیگ پنجاب میں نہ صرف زبردست ووٹ بینک بلکہ نظریاتی کارکن بھی رکھتی ہے۔ نون لیگ کو انتخابی سیاست کا بھی خاصا تجربہ ہے اور انتخابی معرکہ میں اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہوگی۔ لیکن نون لیگ کے یہاں مزاحمتی تحریک چلانے کا بوجوہ تجربہ اور روایت نہیں ہے۔ جبکہ اس نوعیت کی تحریک کے حوالے سے ایک نکتہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس کا مدعا پوری تفصیل اور دلائل کے ساتھ واضح ہونا چاہیے۔ دوسرا کارکنوں کی فکری تربیت اور ان کو منظم کرنے اور موثر انداز میں متحرک کرنا پڑتا ہے جس کا دار و مدار پارٹی کی بہتر تنظیم اور قیادت پر ہوتا ہے۔

پھر ایک اور اہم تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قیادت محض زبانی نہیں بلکہ ولولے۔ استقامت اور قربانی کے جذبے کا عملی مظاہرہ کرے۔ جذباتی تقریروں اور بیانات سے وقتی ہلچل تو مچائی جا سکتی ہے مگر دیر پا مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اگرچہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پنجاب اور خصوصاً نون لیگ مزاحمتی تحریکوں کے مزاج اور کلچر نہیں رکھتے مگر یہ متعصبانہ رائے ہے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد مختلف موقعوں پر اہل پنجاب نے مختلف نوعیت کی مزاحمتی تحریکوں میں بھر پور کر دار ادا کیا۔ ہے ( تازہ مثال پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ کی تحریک ہے ) شرط مگر یہ ہے کہ

مقصد اعلی اور متعلقہ قیادت مخلص اور الولعزم اور نڈر ہو۔ تو پھر اہل پنجاب اپنا مزاحمتی روپ بھی دیکھا سکتے ہیں۔

نواز شریف جیسا بھی ہے تاہم اس کے حق میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ نون لیگ کے کارکنوں اور ووٹرز کے ہاں بوجوہ مقبول لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے لیگ کے دوسرے رہنماؤں کے مقابلے اولین اہمیت اس کو ہی کو دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بعید از امکان نہیں کہ لیگی کارکن مزاحمتی تحریک کا زیادہ تجربہ نہ رکھنے کے باوجود اس کی آواز پر لبیک کہہ کر ایک نئی روایت قائم کر لے۔ مگر شرط یہ ہے کہ نواز شریف پاکستان واپس لوٹ آئے

بیانیہ کی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ملک میں اس کی ذاتی موجودگی ( خواہ جیل کی صورت کیوں نہ ہو ) لیگ کے کارکنوں کے لیے حوصلے، ولولے اور استقامت کا سرچشمہ بن سکتا ہے۔ اگر وہ ہر قسم کی مشکلات ( بیماری، قید و بند اور مقدمات ) کا سامنا کرتے ہوئے اس پیغام کے ساتھ وطن واپس آ جائے کہ وہ سول بالا دستی کے بیانیہ کے لیے آخری دم تک بغیر کسی سمجھوتے کے لڑے گا۔ تو نہ صرف لیگ کے نظریاتی کارکن تردد سے چھٹکارا پائیں گے بلکہ پارٹی کے اندر مختلف طرز فکر و عمل رکھنے والوں بھی بے اثر ہو کر پارٹی لائن کی پیروی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے یوں وہ اپنی پارٹی کی تاریخ میں ایک نئی روایت کو قائم کر کے ایک منفرد مقام بھی حاصل کر سکتا ہے۔

کیا نواز شریف ایسا کرنے پر تیار ہو جائے گا۔ ؟ یہ ایسا سوال جس کا جواب آسان نہیں۔ تاہم اگر وہ ایسا کرنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پاتا ہے اور وطن آ کر مشکلات جھیلنے سے گریز کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بیانات یا مریم نواز کی وقتاً فوقتاً تقریروں کے زور سے لیگ کے کارکن اور ووٹرز ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کے لیے سرگرم یا سر بکف ہوں گے تو پھر یہ یا تو خام خیالی ہے یا پھر بیانیہ کے محرکات اور مقاصد کچھ اور ہیں

پشتو کے مشہور حریت پسند جنگجو جہاں دیدہ شاعر خوشحال خان نے کہا ہے۔
چے پہ زان میڑانئے نہ وی۔ میڑانتوب نہ کی لشکر۔
(ترجمہ) ۔ اگر کوئی ( لیڈر) خود بہادری نہیں دکھاتا تو لشکر بھی بہادری نہیں دکھاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments