کے ٹو بیس کیمپ تک دو موٹر سائیکل سواروں کے سفر پر ماہرین ماحولیات اور ایڈونچر ٹورازم سے وابستہ افراد کو تشویش کیوں؟

محمد زبیر خان - صحافی


’کے ٹو کے بیس کیمپ یا سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کی حدود میں موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، مشنیوں کی اجازت دینا یا ان کو لے کر جانا پاگل پن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے ہم خود ہی اپنے پاؤں پر کھلاڑی مار کر قدرت کے انمول تحفے کو تباہی سے دوچار کر دیں گے۔‘

یہ کہنا ہے گلگت بلتستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹر کے صدر اکرام محمد بیگ کا، جنھوں نے پابندی کے باوجود نجی اور حکومتی اداروں کی سپانسر شپ سے دو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کے کے ٹو بیس کیمپ کے ٹریک پر موٹر سائیکل پر سفر کرنے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن علی اصغر کے مطابق دو نوجوان موٹر سائیکل سوار سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ جہاں پر کسی بھی قسم کی مشین، گاڑی، موٹر سائیکل لے کر جانے پر پابندی عائد ہے۔

محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کے مطابق ’محکمے نے کسی بھی موٹر سائیکل سواروں کو سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کے علاقے میں جانے یا کے ٹو کے بیس کیمپ تک جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ چند دن قبل ہمیں دو نوجوانوں نے موٹر سائیکل پر کے ٹو بیس کیمپ تک جانے کا پرمٹ طلب کیا تھا جس پر انھیں انکار کر دیا گیا تھا۔‘

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان کے مطابق موٹر سائیکلوں سواروں کے سنٹرل قراقرم نیشنل پارک میں داخلے کی اطلاعات پر نوٹس لے لیا گیا تھا۔ واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے کہ موٹر سائیکل سوار کیسے بغیر پرمٹ کے سنٹرل قراقرم نیشنل پارک میں داخلے ہوئے۔

یہ ایڈونچر کیا تھا؟

ایک نجی کمپنی گوبی پینٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عمر آصف ملک نے لاہور میں منعقدہ ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ وہ کے ٹو کے بیس کیمپ کی طرف ایڈونچر لے کر جا رہے ہیں۔ جس میں دو موٹر سائیکل سوار عمر خان روکڑی اور ضیغم چوہان موٹر سائیکل پر کے ٹو بیس کیمپ پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

پریس کانفرنس میں عمر آصف ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو گا کہ کوئی موٹر سائیکل سوار بیس کیمپ تک جائیں گے یا اس کی کوشش کریں گے۔

پریس کانفرنس چھ جولائی کو منعقد کی گئی تھی جس کے بعد عمر خان روکڑی اور ضیغم چوہان نے سوشل میڈیا پر اپنی مہم جوئی کے حوالے سے باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا تھا۔

مقامی لوگوں کے مطابق دو روز قبل سکردو سے سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کے ٹریک پر انھوں نے سفر شروع کیا تھا۔

مشینوں اور موٹر سائیکلوں پر پابندی کیوں؟

گلگت بلتستان فارسٹ وائلڈ اینڈ انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے خصوصی طور پر اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے گذشتہ ماہ سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کی حدود میں موٹر سائیکلوں اور ہر قسم کی گاڑیوں کے داخلے پر ایک بار پھر پابندی عائد کی تھی۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی ایڈونچر دوسروں پر برے اثرات مرتب کرنے کے علاوہ سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کے قدرتی ماحول پر انتہائی برے اثرات ڈالے گا۔

’علاقے میں موجود بالتورو گلیئیشر کے ٹریکنگ کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تمام سیاحوں کے لیے سنٹرل قراقرم نیشنل پارک کی حدود میں داخلے کے لیے گلگت بلتستان فارسٹ وائلڈ اینڈ انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ سیاحت سے پرمٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے پانچ ’ممنوعہ‘ پہاڑ

جب سمندر، پہاڑ اور صحرا ایک جگہ ہوں!

نیپال کی ’مقدس کنواری‘ چوٹی جو شاید ہمیشہ ناقابل تسخیر رہے گی

کے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟

اکرام محمد بیگ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں موجود آٹھ ہزار سے بلند پانچ چوٹیاں اس علاقے کے اردگرد ہیں۔ یہ تمام علاقہ پوری دنیا میں ایڈونچر ٹوررازم کے لیے مشہور اور آئیڈیل ہے۔ اس علاقے میں ابھی تک آلودگی نہیں پہنچی ہے۔ اس کا قدرتی ماحول برقرار ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس علاقے میں قدرت کا حسین ترین تحفہ اور ہمارے پانی کی ضرورتیں پوری کرنے والا بالتورو گلئیشیر موجود ہے۔ ان علاقوں میں اگر موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور مشینوں کو داخلے کی اجازت دی گئی تو یہ علاقے آلودگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان کا قدرتی حسن برقرار نہیں رہے گا۔‘

اکرام محمد بیگ کا مزید کہنا تھا کہ ’آج تک ایڈونچر ٹورارزم کی صنعت سے وابستہ افراد، سرکاری محکمے اس علاقے کا خصوصی خیال رکھتے رہے ہیں۔ اس علاقے میں محکمے کچرا تک پھینکنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ ٹور آپریٹ اور اس علاقے میں آنے والے مہم جو خود بھی اس بارے میں انتہائی حساس ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں اگر اس علاقے میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل جائیں گی تو اس کے دھوئیں اور گرمی سے بالتورو گلیئیشر اور دیگر گلیئیشرکے علاوہ اس علاقے کو نقصان پہنچے گا۔ موٹر سائیکل، گاڑیوں اور مشنیوں کو دیکھ کر پوری دنیا سے مہم جو اس علاقے میں آنا بند کردیں گے۔‘

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے ظفر اقبال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’یہ سننا ہی انتہائی ناخوشگوار ہے کہ کے ٹو کے بیس کیمپ تک موٹر سائیکل سوار جائیں گے۔ کے ٹو، آٹھ ہزار میٹر کے بلند دیگر پہاڑ، ہمارے گلیئشیر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے لیے نہیں بلکہ ایڈونچر ٹور ازم بالخصوص اپنے بل بوتے پر مہم جوئی کے لیے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کے ٹو اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں اگر آلودگی اور ماحولیات کو تباہ کرنا ہے تو پھر مشینوِں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو اجازت دے دیں۔ اگر کوئی موٹر سائیکل سوار پہلی مرتبہ کے ٹو کے بیس کیمپ میں پہنچ بھی گے تو یہ کوئی اچھا ریکارڈ تصور نہیں ہو گا بلکہ اس سے دنیا پر انتہائی منفی تاثر ابھرے گا۔‘

اکرام محمد بیگ، ٹور آپریٹرز ایسوسی ایشن اور ماہرین ماحولیات نے مطالبہ کیا ہے کہ موٹر سائیکل سوار جو کہ اس وقت کے ٹو بیس کیمپ کی طرف رواں دواں ہیں ان کو واپس لایا جائے اور آئندہ کسی بھی موٹر سائیکل سواروں کو ایسی اجازت نہ دی جائے۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان کے مطابق اس واقعہ پر قانونی کاروائی کی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ آئندہ محفوظ علاقے میں موٹر سائیکل، گاڑیاں اور مشینیں داخل نہ ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp