کرکٹ کی دنیا کے عظیم بلے باز سرڈان بریڈ مین کا وہ صفر جو ان کی سنچریوں سے زیادہ مشہور ہے

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


ڈان بریڈمین

14 اگست 1948 کو انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایشیز سیریز کا پانچواں اور آخری ٹیسٹ اوول کرکٹ گراؤنڈ میں شروع ہوا تو انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ انگریز شائقین نے شاید سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کی ٹیم محض 52 رنز پر ڈھیر ہو جائے گی لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت ناک منظر اُن کا ابھی منتظر تھا۔

آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز شروع کی تو شائقین بے صبری سے سر ڈان بریڈمین کی کریز پر آمد کا انتظار کر رہے تھے۔

کرکٹ کی تاریخ کے ’عظیم ترین بیٹسمین‘ کہلانے والے سر ڈان بریڈمین نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اوول ٹیسٹ ان کے کریئر کا الوداعی ٹیسٹ ہو گا لہذا ہر کوئی ان سے اس ٹیسٹ میں یادگار کارکردگی کی توقع کر رہا تھا جس کے لیے وہ شہرت رکھتے تھے۔

شائقین کا انتظار طویل ہوتا گیا کیونکہ اوپنر سڈ بارنس اور آرتھر مورس نے پہلی وکٹ کی شراکت میں 117 رنز کا اضافہ کر دیا۔ بالآخر لیگ سپن گگلی بولر ایرک ہولیز نے سڈ بارنس کی وکٹ حاصل کی تو سب کی نگاہیں ڈریسنگ روم کی طرف جم گئیں جہاں سے نکلنے والے اگلے بیٹسمین کوئی اور نہیں بلکہ سر ڈان بریڈمین تھے۔

تالیوں کے زبردست شور میں بریڈمین جب کریز پر پہنچے تو انگلینڈ کے کپتان نارمن یارڈلے نے اپنی کیپ کو سر سے اوپر کرتے ہوئے اپنے حریف کپتان کا استقبال کیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے تھری چیئرز کا نعرہ بلند کیا۔

سرڈان بریڈمین نے ایرک ہولیز کی پہلی گیند جو لیگ بریک تھی سلی مڈ آف پر کھڑے ایلن واٹکنز کی طرف کھیلی لیکن اگلی ہی گیند پر وہ بولڈ ہو گئے۔

سرڈان بریڈمین کے لیے اس ٹیسٹ میچ میں دوبارہ بیٹنگ کی ایک ہی صورت تھی کہ انگلینڈ کی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں بڑا سکور کرتی لیکن وہ 188رنز پر آؤٹ ہو کر یہ ٹیسٹ اننگز اور 149 رنز سے ہار گئی۔

یوں پہلی اننگز کے اس صفر کے ساتھ ہی سرڈان بریڈمین کے ٹیسٹ کریئر کا اختتام بھی ہو گیا۔

بیٹنگ اوسط 100 نہ ہو سکی

ڈان بریڈمین

سر ڈان بریڈمین اپنے ٹیسٹ کریئر میں محض دو بار صفر پر آؤٹ ہوئے لیکن اس صفر نے کچھ ایسا کر دکھایا کہ وہ ایک منفرد بیٹنگ اوسط تک پہنچنے سے قاصر رہ گئے۔

جب وہ اپنی اس آخری اننگز میں بیٹنگ کے لیے آئے تھے تو انھوں نے ٹیسٹ میچوں میں 6996 رنز بنا رکھے تھے۔ اگر وہ چار رنز اور بنا لیتے تو نہ صرف ان کے سات ہزار رنز مکمل ہو جاتے بلکہ ان کے ٹیسٹ کریئر کی بیٹنگ اوسط 100 ہو جاتی، لیکن صفر پر آؤٹ ہونے کی وجہ سے یہ بیٹنگ اوسط 99.94 رہ گئی۔

ایرک ہولیز نے گگلی سنبھال کر رکھی تھی

بریڈ مین جس گیند پر آؤٹ ہوئے وہ گگلی تھی۔ اوول ٹیسٹ سے قبل آسٹریلیا اور وارک شائر کاؤنٹی کے میچ میں ایرک ہولیز نے آسٹریلیا کی پہلی اننگز میں آٹھ وکٹیں حاصل کی تھیں جس میں ڈان بریڈمین کو بھی بولڈ کیا تھا۔

ایرک ہولیز نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھوں نے اُس میچ میں صرف لیگ سپن گیندیں کرائی تھیں اور ایک بھی گگلی نہیں کی تھی کیونکہ وہ سرڈان بریڈمین کے خلاف اپنے اس مؤثر ہتھیار کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایرک ہولیز نے اوول ٹیسٹ سے قبل وارک شائر کے کپتان ٹام ڈولی کو یہ بات بتائی تھی کہ وہ ٹیسٹ میچ میں بریڈمین کو جو دوسری گیند کریں گے وہ گگلی ہو گی اور کمال کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس پر انھیں آؤٹ بھی کر دیا۔

صفر پر آؤٹ ہونے پر کون خوش تھا؟

جب سر ڈان بریڈ مین اپنی آخری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے تو اوول گراؤنڈ میں سکوت طاری ہو گیا تھا لیکن پریس باکس میں موجود دو آسٹریلوی سابق ٹیسٹ کرکٹرز بہت خوش دکھائی دیتے تھے۔

یہ دونوں کرکٹرز جیک فنگلٹن اور بل او ریلی تھے جنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت کا شعبہ اختیار کر لیا تھا۔

جب بریڈمین صفر پر آؤٹ ہوئے تو یہ دونوں خوشی سے چلا اٹھے۔ اس موقع پر پریس باکس میں موجود مشہور انگریز رائٹر ای ڈبلیو سوانٹن یہ سمجھے کہ ان دونوں کو دورہ پڑ گیا ہے۔

جیک فنگلٹن اور بل او ریلی وہ کرکٹرز تھے جن کے اپنے کریئر میں سر ڈان بریڈ مین سے شدید اختلافات رہے یہاں تک کہ جب تک جیک فنگلٹن زندہ رہے، سر ڈان بریڈمین سے ان کی بات چیت بھی بند رہی۔

سر ڈان بریڈ مین آسٹریلوی سپنر بل او ریلی کو بہترین بولر قرار دیتے تھے لیکن میدان سے باہر دونوں کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ بل او ریلی کے خیال میں بریڈمین ’ٹیم مین‘ نہیں تھے۔ بریڈ مین نے اس کا جواب یہ دیا تھا ’یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے یہ میری ڈیوٹی ہے کہ میں ہر روز میچ کے بعد بار میں جاؤں اور بیئر پینے کا مقابلہ کروں۔‘

جیک فنگلٹن سے بریڈمین کے اختلافات کی وجہ یہ تھی کہ باڈی لائن سیریز کے دوران ڈریسنگ روم کی باتیں میڈیا تک پہنچانے کا الزام بریڈمین نے فنگلٹن پر عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کرکٹ کا جادوگر جس کی بڑی بڑی آنکھیں دیکھ کر بیٹسمین ’خوفزدہ‘ ہو جاتے تھے

وسیم اکرم: کالج کی ٹیم کا بارہواں کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا فاسٹ بولر کیسے بنا؟

دروغے والا کا ارسلان ’ٹیکن کا پاکستانی بادشاہ‘

دونوں کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ سڈنی میں ایک میچ کے دوران بریڈمین کو معلوم ہوا کہ فنگلٹن کے بیٹ پر ایک پادری نے مقدس پانی کا چھڑکاؤ کیا ہے۔ جب فٹگلٹن آؤٹ ہو کر واپس آ رہے تھے تو ان کی جگہ بیٹنگ کے لیے جاتے ہوئے بریڈمین نے ان پر فقرہ کسا تھا ’اب تم دیکھنا خشک بیٹ کیا کر دکھاتا ہے۔ اُس اننگز میں بریڈمین نے سنچری بنائی تھی۔‘

آنکھوں میں آنسو کی وجہ سے آؤٹ

ڈان بریڈمین

بریڈ مین کی اس آخری اننگز کے بعد یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ ان کے آؤٹ ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت وہ بہت جذباتی تھے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے لہذا وہ گیند کو صحیح طور پر نہ دیکھ سکے۔

اوول ٹیسٹ میں ان کی آخری اننگز کے دوران سلپ میں فیلڈنگ کرنے والے جیک کریپ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ زندگی بھر ان کی آنکھوں میں آنسو کسی نے نہیں دیکھے۔ خود بریڈمین نے اس بات کی تردید کی تھی۔

نیل ہاروے کیا واقعی قصور وار؟

بریڈمین کی آخری اننگز کو 73 سال بیت چکے ہیں لیکن آسٹریلوی ٹیسٹ کرکٹر نیل ہاروے اب بھی خود کو قصور وار سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے سرڈان بریڈمین کی بیٹنگ اوسط 100 نہ ہو سکی۔

اوول ٹیسٹ سے قبل ہونے والے ہیڈنگلے ٹیسٹ میں بریڈمین 173رنز پر کھیل رہے تھے جب نیل ہاروے کریز پر آئے اور انھوں نے چوکا لگا کر آسٹریلیا کو کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔

نیل ہاروے کہتے ہیں ’اگر میں چوکا نہ لگاتا اور وننگ باؤنڈری لگانے کا موقع سرڈان بریڈمین کو دیتا تو وہ 100 کی اوسط کا کارنامہ انجام دے سکتے تھے۔‘

ہاروے 1948 کی مشہور زمانہ آسٹریلوی ٹیم کے آخری حیات کرکٹر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ خود کو اس بات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے بریڈمین 100 کی اوسط تک نہ پہنچ سکے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسے پتہ تھا کہ وہ اپنی آخری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہو جائیں گے۔ اس زمانے میں اعداد و شمار کو مرتب کرنے اور ریکارڈ رکھنے کا کوئی طریقہ بھی نہ تھا۔

نیل ہاروے کی خود کو مورد الزام ٹھہرانے کی بات سے اس لیے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ہیڈنگلے ٹیسٹ کے اختتام پر سرڈان بریڈمین کی بیٹنگ اوسط 101.39 ہو گئی تھی اور اوول ٹیسٹ میں اسے 100 پر برقرار رکھنے کے لیے محض ایک چوکا درکار تھا۔

کسی کوچنگ کے بغیر عظیم بیٹسمین

ڈان بریڈمین

ایڈیلیڈ کرکٹ گراؤنڈ کے ریوربینک سٹینڈ کے ایک ہال میں سرڈان بریڈمین کے استعمال کی ذاتی اشیا دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں جنھیں ’بریڈمین کلیکشن‘ کا نام دیا گیا ہے۔

سب سے دلچسپ وہ تحریر ہے جو دیوار پر آویزاں ہے دراصل یہ سرڈان بریڈمین کا مشہور مقولہ ہے: ’مجھے کسی نے کوچ نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے یہ بتایا کہ بیٹ کس طرح پکڑنا ہے۔‘

سوال یہ ہے کہ کسی کوچنگ کے بغیر سرڈان بریڈمین کرکٹ کی تاریخ کے سب سے معتبر اور عظیم ترین بیٹسمین کیسے کہلائے؟

اس کا جواب بھی اسی ہال میں رکھے ہوئے اس واٹر ٹینک کو دیکھ کر مل جاتا ہے جس پر نوجوان بریڈمین گھنٹوں گالف کی گیند کو ہٹ کرتے تھے لیکن اس کے لیے وہ کرکٹ بیٹ نہیں بلکہ سٹمپ استعمال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ واٹر ٹینک سے ٹکرا کر گیند مختلف زاویوں سے واپس آتی تو انھیں اپنے ریفلیکسز اور فٹ ورک بہتر کرنے میں مدد ملتی تھی۔

سر ڈان بریڈمین نے بچپن سے ہی ایسے نظارے دکھا دیے تھے جو ان کے بڑا کرکٹر بننے کا واضح اشارہ دیتے تھے۔

انھوں نے جس بولر کا پہلی بار سامنا کیا وہ ان کی والدہ ایمیلی بریڈمین تھیں۔ بریڈمین سکول سے آتے ہی بیٹ سنبھالتے اور اپنی والدہ کو آواز لگاتے جو سب کام کاج چھوڑ کر انھیں گھر کے پچھلے صحن میں بولنگ کرانے لگ جاتیں۔

اپنی ذات میں مگن

سرڈان بریڈمین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لوگوں سے ملنے کے معاملے میں ساری زندگی محتاط رہے۔

وہ اپنے ساتھی کرکٹرز سے بھی دور رہتے تھے۔ ان کے مخالفین نے ان کی اس عادت کو بہت اچھالا کہ وہ انھیں چھوڑ کر بزنس میٹنگز میں شرکت کرنے چلے جاتے تھے۔

سنہ 1930 میں انگلینڈ کے خلاف ہیڈنگلے ٹیسٹ میں ان کی ٹرپل سنچری سے خوش کر صابن بنانے والے ایک کاروباری شخص آرتھر وائٹ لا نے جب انھیں ایک ہزار پاؤنڈ کا انعام دیا تو بریڈمین نے اپنے ساتھی کرکٹرز کو ڈرنک تک کا نہیں پوچھا جس کا بریڈمین نے جواب بھی دیا ’کیا میں لیڈز کی سڑکوں پر پریڈ کرتا۔‘

مزید پڑھیے

میلکم مارشل: وہ فاسٹ بولر جو ’صرف دو گیندوں میں بلے باز کی کمزوری جان لیتے‘

بلے بازوں کو آپریشن تھیٹر پہنچا دینے والے بے رحم ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز

باب وولمر دلی کے پولیس چیف سے ہنسی کرونیئے کے بارے میں کیا جاننا چاہتے تھے؟

بریڈمین کے انگلینڈ کے کپتان والی ہیمنڈ سے بھی تعلقات اچھے نہیں رہے۔ ایشیز سییرز کے دوران وہ صرف ٹاس کے موقع پر بات کرتے تھے۔

سنہ 1948 میں انگلینڈ کے دورے پر جاتے ہوئے آسٹریلوی ٹیم کا بحری جہاز بمبئی کی بندرگاہ پر رُکا۔ جب بھارتی کرکٹر وجے مرچنٹ کو یہ پتہ چلا تو وہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ جہاز پر پہنچ گئے اور سرڈان بریڈمین سے درخواست کی کہ وہ جہاز سے باہر آئیں تاکہ ان کے ساتھی کرکٹرز ان سے ملاقات کر سکیں لیکن بریڈمین نے انکار کر دیا۔

انھوں نے جہاز سے باہر قدم نہیں نکالا البتہ دیگر آسٹریلوی کرکٹرز بمبئی کے برابورن سٹیڈیم تک ہو آئے۔

68 سال کی عمر میں جیف تھامسن کا سامنا

سنہ 1978 میں آسٹریلیا اور انڈیا کے درمیان ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے آرام والے دن سرڈان بریڈمین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دور کے تیز ترین فاسٹ بولر جیف تھامسن کی بولنگ کا سامنا کریں گے۔

جیف تھامسن کہتے ہیں ’میں نے اگرچہ لیگ سپن بولنگ کی تھی لیکن 68 سالہ بریڈمین نے پیڈ، گارڈ اور گلووز پہنے بغیر خوب بیٹنگ کی اور آن ڈرائیو کھیلے، ساتھ ہی مجھ پرفقرہ بھی کسا ’تمہیں اندازہ ہو جانا چاہیے تھا کہ میرے لیے مڈ آن پر فیلڈر کا ہونا ضروری تھا۔‘

آج ہوتے تو کتنی بیٹنگ اوسط ہوتی

سچن تندولکر اور شین وارن نے سرڈان بریڈمین سے ان کی 90ویں سالگرہ پر ملاقات کی تھی۔ سچن کہتے ہیں ’میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اگر اس دور میں کھیل رہے ہوتے تو آپ کی بیٹنگ اوسط کتنی ہوتی؟‘

بریڈمین نے جواب دیا 70۔

’میں نے پوچھا 70 کیوں؟ آپ کی اصل اوسط 99.94 کیوں نہیں؟‘

بریڈمین نے برجستہ جواب دیا ’90 سالہ شخص کے لیے 70 کی اوسط بھی بُری نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp