سازش اور غداری کی پناہ گاہیں


مسلم دنیا کی وہ تاریخ جو ہمیں پڑھائی گئی ہے اس کے ہر دوسرے پنے پر اور کچھ ملے نہ ملے کسی نا کسی سازش کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ ایسی سازش جس کے بارے میں ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ اگر نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔

سقوط غرناطہ نہ ہوتا، تاتاری بغداد پر قابض نہ ہوتے، سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کو شکست نہ ہوتی، مغلوں کے اقتدار کا خاتمہ نہ ہوتا، خلافت اپنے اختتام کو نہ پہنچتی، اسرائیل نہ بنتا، مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا، مشرق وسطی میں مستقل خونریزی نہ ہوتی اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملہ بھی نہ ہوتا۔

گویا ”وہ سازش نہ ہوتی تو ایسا ہوتا۔ یہ سازش نہ ہوتی تو ویسا ہوتا“ ۔

یہ سازش کہتے کس کو ہیں۔ ریختہ لغت کے مطابق سازش ایک فارسی لفظ ہے اور اس کے معانی خفیہ تدبیر یا کارروائی کے ہیں۔ کسی برے یا ناجائز مقصد کے لیے دو یا دو سے زیادہ میں افراد میں اتحاد و تعاون کو بھی سازش کہا جاتا ہے۔

سازش کی اس تعریف کے مطابق چند افراد مل کر خفیہ تدبیر اور ناجائز کارروائیوں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہونے کے کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ”افراد“ کسی بھی سازش کا بنیادی جزو ہوتے ہیں۔ لغوی طور پر ایسے افراد کے لیے غدار کا لفظ مخصوص ہے۔ اور سازش کے بعد یہی وہ دوسرا لفظ ہے جو مسلمانوں کی تاریخی کتب میں تواتر سے ملتا ہے۔

”اپنوں کی غداریوں کے باعث سازشیں کامیاب ہوتی گئیں اور مسلم سلطنت پارہ پارہ ہو گئی آہ“ ۔

”عین موقع پر غدار اپنی چال چل گئے وگرنہ نواب صاحب کو کبھی شکست نہ ہوتی“ ۔ ”ہر طرف غدار چھا گئے۔ ظل الہیی اپنے محل تک محدود ہو کر رہ گئے اور پھر مملکت خداداد عیسائیوں /یہودیوں /صیہونیوں /ہندووں /سوتیلے بھائیوں وغیرہ وغیرہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ ہائے چشم فلک کو یہ نظارہ بھی دیکھنا تھا“ ۔

ہمارے ذہنوں میں گھول گھول کر انڈیلے جانے والے اس فلسفے کے مطابق غدار مسلم دنیا کے زوال کا سبب بنے۔ بیان تو یقیناً دوسرے پہلو بھی کیے جاتے ہیں لیکن جتنا زور سازش اور غداری پر دیا جاتا ہے اس سے طالب علم کے ذہن پر بس یہی پہلو حاوی ہو کر رہ جاتا ہے۔

اب یہاں ایک نکتہ ہے جو ”غداری کے باعث زوال“ کی تھیوری کو نہیں مانتا۔ اس نکتے کے مطابق زوال پہلے آتا ہے اور غدار بعد میں پیدا ہوتے ہیں۔ ترقی کرتے محفوظ خطے اور پھلتی پھولتی تہذیب سے وابستہ رہنے میں ہر کسی کا فائدہ ہوتا ہے۔ جبکہ ڈھلان پر لڑھکتی غیر ذمہ دار ریاستیں خود اپنے باشندوں کا اعتماد کھو دیتی ہیں۔ اور ایسے میں پیدا ہوتے ہیں غدار۔

غداری بغاوت ہوتی ہے۔ اپنے وطن اور اپنی تہذیب سے بغاوت۔ بے وفائی اور دھوکے کی بدترین مثال۔ غدار مفاد پرست ہوتا ہے۔ وہ اپنے تئیں کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ انگریزی کہاوت کے مطابق جب بحری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے اسے چھوڑتے ہیں۔ محب وطن اور مخلص لوگوں کا ذکر کیا کرنا۔ وہ تو آخری دم اور زمین کے چھن جانے کے بعد بھی اپنے وطن سے وفادار رہتے ہیں۔ لیکن بات ہو رہی ہے غداروں کی۔ بحری جہاز کو سب سے پہلے چھوڑنے والے چوہوں کی۔ اس محاورے کے مطابق چوہوں کے رخ بدلنے سے کشتی نہیں ڈولتی بلکہ کشتی ڈولنے کے بعد چوہے اپنا رخ بدلتے ہیں۔

اور یہی کچھ اسلامی سفینے کے ساتھ ہوا۔ مسلمان سلطنتیں خود کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کرسکیں۔ تعلیم کو پس پشت ڈالا، تحقیق سے دامن چھڑایا، ریاست کے سب سے اہم جزو ”عوام“ کو بری طرح نظر انداز کیا، اقتدار کی منتقلی کے پرامن اور سیاسی انداز نہ اپنائے اور پھر دفاع کے جدید ہنر بھی نہ سیکھے۔ اور جب مقابلے میں دوسری اقوام نے جدید علوم و فنون سے طاقت پکڑی، مفادات ٹکرائے اور تصادم کی نوبت آئی تو رفتہ رفتہ ان کا پلہ بھاری پڑنے لگا۔

اس دوران مسلم ریاستوں پر غلبہ پانے کے لیے دشمنوں نے جہاں براہ راست جنگیں کیں وہیں غداروں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ اور کیوں نہ کرتے۔ آخر دشمن تھے وہ۔ انہوں نے دشمنی ہی تو کرنی تھی۔ سازشیں بھی کرنی تھیں اور غدار بھی ڈھونڈنے تھے۔ اور اپنے ہی بوجھ سے لڑکھڑاتی مسلم ریاستوں میں یہ جنس ڈھونڈنے میں انہیں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ڈگمگاتی ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگانے کے لیے تیار چوہے عرشے پر ہی مل جایا کرتے ہیں۔

بہرحال یوں دنیا میں مسلمانوں کا اثر و رسوخ آسمان کی بلندیوں سے اتر کر رفتہ رفتہ خاک میں ملتا گیا۔ لیکن بلندی سے پستی کے اس سفر میں غداروں کا کردار مرکزی نہیں ثانوی تھا۔ اصل وجہ نہیں صرف ایک نتیجہ تھا۔ جدید دور کے تقاضوں سے روگردانی کرنے کا نتیجہ، حقائق سے نظریں چرانے کا نتیجہ، عیش و عشرت، اندرونی انتشار، بے امنی اور ریاستی فرائض سے غفلت کا بدترین نتیجہ۔

لہذا آج بھی اگر ”سازش“ اور ”غدار“ ہمارے حواس پر چھائے رہتے ہیں تو پھر ان کو بے اثر کرنے کے لیے ہمیں خود کو مضبوط بنانا ہوگا۔ عوامی فلاح اور سوشل کانٹریکٹ کے بنیادی اصولوں پر کاربند ہونا پڑے گا۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ انہیں سدھارنا ہوگا۔ ذمہ داری لینی ہوگی۔ پست سوچ سے نکلنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غداروں سے پہلے خود اپنی حرکتوں کا جائزہ لینا ہوگا۔

یہ سب کر لیا تو یقین مانیں ہمارے خلاف کوئی بھی سازش اور کوئی بھی غدار کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments