اٹھو چلو اور وطن سنبھالو


وطن ایک ایسا لفظ ہے جس کے ہجے ملائے تو ایک مضبوط لڑی بنتی ہے۔ وطن ایک متبرک مقام ہوتا ہے اور اس متبرک مقام سے محبت ہمارا اولین فریضہ ہے۔ بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے جو حضرت انسان میں ہی نہیں بلکہ حیوانات میں بھی ملتا ہے۔ چرند پرند درند سب ہی اپنے مسکن سے ایک خاص قسم کا انس رکھتے ہیں اور اس خاص قسم کے انس کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ صرف جذبات اور نعرے لگانے سے اپنے وطن کی محبت کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ ہمارے گفتار و کردار میں بھی اس کا عکس نظر آنا چاہیے۔

اور ہمیں اپنے ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے۔ محبت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا خاص خیال رکھا جائے اپنے وطن کو دشمن قوتوں سے دور رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ کیوں کہ جس کے دل میں وطن کے تحفظ کا خیال نہ ہو ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے ۔ یہ انس یہ محبت ہم سے اتحاد کا تقاضا کرتی ہے افکار و خیالات کی یکجہتی چاہتی ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا:

؎جہاں تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

ہم سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان کی تشکیل میں عظیم لوگوں کی قربانیوں کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ جو ہم تو شاید کبھی بھول جائیں مگر یہ مٹی جو ان شہیدوں کے خون کے قطرے قطرے سے زرخیز ہوئی ہے کبھی نہیں بھولے گی۔ آج کی نسل کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمیں آزادی تحفے میں نہیں ملی تھی اس لیے ہم نے بے مثال قربانیاں دی ہیں انہیں آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑا۔ اس دریا میں انہوں نے اپنا تن من دھن سب گنوا دیا یہ ان کی شہادتوں کا سلسلہ ہے کہ ہم ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔

یہ محبت یہ خون اس نئی نسل سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ دین اسلام اور اس وطن کو مستحکم رکھنے کے لئے قدم بڑھائیں۔ ہمیں ان شہداء کی ارواح کو خراج تحسین پیش کرنا ہے اور ہمیں ان کی قربانیوں کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہمارا جو مقصد ہے جو نظریہ ہے ہم اس پر قائم رہتے ہوئے اپنے ملک کے تحفظ کے لئے قدم اٹھائیں۔ اور اس کی سربلندی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں

پاکستان کا قیام ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ہمیں اس خداداد نعمت کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ اب ہم پر یہ منحصر ہے کہ ہم کیسے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے نعمت کی قدر نہیں کرو گے تو چھین لی جائے گی۔ ہمیں اپنے وطن کی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کے لیے اٹھنا ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں اور ہاتھ کمر میں ڈال کر رقص کرنا ہوگا۔ سماجی سیاسی اور تہذیبی سطح پر پھیلے ہوئے اندھیروں کو کاٹنا ہوگا۔ اس سب کے لئے ہمیں اپنی نوجوان نسل میں امید عزم اور جستجو کو پیدا کرنا ہوگا تا کہ ہم آئندہ حالات کی سنگینیوں کا مقابلہ کر سکیں۔

یہ وطن ہماری چھت ہے۔ اور چھت ہمیشہ پناہ ہوتی ہے۔ اپنی پناہ کو بچانے کے لیے ہمارے اندر خود احتسابی کا ہونا بھی اشد ضروری ہے تاکہ ہم اپنا جائزہ لے سکیں کہ ہم نے اب تک اپنے وطن عزیز کے لیے کیا کیا ہے اور اس کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس پہلو کو بھی دیکھیں کہ آئندہ ہم اپنے وطن کے تحفظ، عوامی بہبود اور خدمت انسانی کے لئے کیا اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔

اب ہم نے اس ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے۔ معاشرے سے بد عنوانی اور کرپشن جیسے عناصر کو قلع قمع کرنا ہوگا اور ان عناصر کی سرکوبی کے لیے مضبوط اقدامات کرنے ہیں جو ہمارے وطن کی ناموس پر حرف لائیں اور زوال کا باعث بنیں۔

ایسے تمام عناصر کو کیفر کردار تک لانا ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اپنے فرائض پورے کر کے بھرپور قومی کردار ادا کرنا ہو گا۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے وطن کو تا قیامت سلامت رکھے اور اسے ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار کرے۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کھڑے جوانوں کو سلامت رکھے اور ہمارے وطن کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments