کیا قومی اقتصادی غلامی کی بنیاد جناح صاحب نے رکھی؟


تاریخ پاکستان کی عمارت کا ڈھانچہ دو قومی نظریہ اور تقسیم ہند کی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ ملک کی خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی اور سیاسی حکمت عملی انھی دو ستونوں کے گرد گھومتی ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاسی تصورات کے تحت عالمی نقشہ پر پاکستان وجود پذیر ہوا۔ اقتصادی طور پر پسماندہ خطے میں پاکستان کی سرحدیں کھینچی گئیں۔ پاکستان کے بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر قائد اعظم محمد علی جناح چند سال مزید زندہ رہتے تو قومی اقتصادیات کی ترقی کی مضبوط بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہو جاتے اور آج پاکستان اقتصادی طور پر عالمی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں پر کھڑا نہیں ہوتا۔

جناح صاحب کے زیادہ دیر تک زندہ نہ رہنے کی اس رائے یا دلیل کو ہمیں تاریخی حقائق کی بنیاد پر پرکھنا ہوگا، ہمیں آل انڈیا مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائیوں کو دیکھنا ہوگا۔ یوم آزادی کے دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ تاریخ کے حقائق کی تلاش کو جاری رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے۔

آل انڈیا مسلم لیگ نے پہلی بار سن 1941 ء میں مدراس لیگ سیشن میں پلاننگ کمیٹی کا تصور پیش کیا۔ اجلاس میں تقریر کے دوران، محمد علی جناح نے مسلمانوں کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے لیے پانچ سالہ منصوبہ کی ضرورت پر سوال اٹھایا۔ چنانچہ محمود آباد کے راجہ کی نگرانی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں چوہدری خلیق الزمان، حسن اصفہانی، آئی آئی چندریگر، ڈاکٹر ایس این اے جعفری، ڈاکٹر ضیا الدین احمد، حسین امام اور سیٹھ عبد اللہ ہارون بہ طور ممبر شامل ہوئے، اس کمیٹی کا پہلا اجلاس اکتوبر 1941 ء میں ہوا، جناح صاحب بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے، یہ کمیٹی پہلے اجلاس میں اختلاف رائے میں شدت ہونے کی بناء پر پہلے اجلاس کے بعد ہی تحلیل ہو گئی۔ اس کے بعد ، مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آئندہ دو سال تک مسلمانوں کی ترقی کے لیے اقتصادی منصوبہ بندی کے معاملے کو نہیں اٹھایا گیا۔

ایک بار پھر، مسلم لیگ کراچی سیشن دسمبر 1943 ء میں اے۔ ایچ لاری نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ بندی کے لئے کمیٹی تجویز کی اور جناح صاحب کو اس کمیٹی کے ممبران نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا۔ قرار داد میں پاکستان کے لئے ریاستی صنعتی نظام، مفت بنیادی تعلیم، لینڈ ریفارمز، کرایہ داری، مزدوروں اور زراعت کی ترقی، قرضوں پر قابو پانے کی منصوبہ بندی پر زور دیا گیا۔ اس کے بعد تین ستمبر 1944 ء کو یعنی 9 مہینوں بعد پلاننگ کمیٹی تشکیل ہوئی۔

بمبئی میں چاول کے کاروبار سے وابستہ سیٹھ ہاشم پریم جی، سیٹھ محمد علی حبیب (حبیب بینک کے مالک) کو، جناح صاحب نے ذاتی تعلق داری کی بناء پر کمیٹی میں شامل کیا، نظام آف حیدر آباد کے سرکاری ملازم علی نواز جنگ سے کمیٹی کی چیئرمین شپ پر رضا مندی حاصل کرنے کے بعد ، باضابطہ طور پر اقتصادی منصوبہ بندی کمیٹی کا اعلان کیا گیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر عبد الحلیم کو کمیٹی کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔

جناح صاحب نے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر ایم ایل قریشی کو جوائنٹ سیکرٹری مقرر کیا۔ ایم ایل قریشی پاکستان بننے کے بعد پلاننگ کمیشن آف پاکستان میں چیف اکانومسٹ تعینات ہوئے تھے۔ اس کمیٹی میں بنگال سے مسلم لیگ کے وزیر خواجہ شہاب الدین، فرنٹیئر کے وزیر خزانہ عبد الرب نشتر، جاگیردار میر غلام علی تالپور، ریاست رام پور کے وزیر اعلیٰ سید بشیر حسین زیدی کو شامل کیا گیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے لودھی حیدر، علی گڑھ سے انور اقبال، ڈاکٹر ولی محمد، پروفیسر محمد الیاس برنی، الہٰ آباد کے انجینئرنگ کمپنی کے مالک خان بہادر غضنفر اللہ، رفیع بٹ بھی کمیٹی میں شامل کیے گئے۔

یہ قدرے حیرت کی بات تھی جناح صاحب نے پنجابی تاجروں کو اس کمیٹی میں شامل نہیں کیا حالاں کہ مستقبل میں پنجاب کو یقیناً مرکزی حیثیت حاصل ہونا تھی تاہم اقتصادی منصوبہ بندی کمیٹی میں اس صوبے کو نمائندگی ہی نہیں دی گئی۔ جبکہ کلکتہ کے میمن صنعت کار خاندان آدم جی کو ایک سب کمیٹی میں نمائندگی دی گئی۔ درحقیقت جن علاقوں پر محیط پاکستان بننا تھا یہاں کے صنعت کار اور سرمایہ دار مسلم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذریعے سے اپنے مستقبل کے ذاتی معاشی مفادات کا تحفظ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ان میں یوسف ہارون، جی الانہ، سید مراتب علی شاہ (سید بابر علی کے والد) نمایاں ہیں، ذاتی اقتصادی مفادات کے مقابلے پر بظاہر انھیں قومی سطح پر پیدائش دولت سے خاص دلچسپی نہیں تھی۔

جناح صاحب نے تین اگست 1944 ء میں پلاننگ کمیٹی کا اعلان کر دیا، اس کا صدر دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا اور دہلی کے اینگلو عریبک کالج ہال میں افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ پلاننگ کمیٹی کے چیئرمین علی نواز جنگ نے صدارتی خطبہ میں کمیٹی کے تین اہداف مقرر کرتے ہوئے کہا؛ اول، سب سے پہلے روزگار اور خوراک کی فراہمی کے مسائل کے سدباب کیا جائے گا جو نظام تعلیم کے باعث پیدا ہوئے جس سے ایسے افراد تیار ہو رہے ہیں جو کسب معاش کے لئے عملی صلاحیت نہیں رکھتے، دوم، صنعتی منصوبہ بندی میں کاٹیج صنعت کے مفادات کا تحفظ کرنا، اور ضرورت سے زیادہ اہداف مقرر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے منصوبہ کا دورانیہ بارہ سے پندرہ برس کے درمیان مقرر ہوگا۔ پانچ بڑے شعبہ جات جن میں زراعت، صنعت، ٹرانسپورٹ، تجارت اور مالیات کے تحت پندرہ ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

افتتاحی اجلاس میں ہی کاٹیج انڈسٹری، مینوفیکچرنگ اینڈ انجینئرنگ انڈسٹری، پبلک ہیلتھ، ٹریڈ اینڈ فنانس کے شعبوں کی منصوبہ بندیوں کے لیے الگ الگ سب کمیٹیوں کی تشکیل کا فیصلہ ہوا۔ سب کمیٹیوں کو چار مہینوں میں اپنی سفارشات جمع کرانے کا ہدف دیا گیا اور منصوبہ بندی کا دورانیہ پندرہ برس مقرر ہوا۔ ہر کمیٹی کو از خود ممبران کی شمولیت کا اختیار دیا گیا، اسی اختیار کے تحت جامعہ ملیہ دہلی سے ڈاکٹر ذاکر حسین کو ٹریڈ اینڈ کامرس کمیٹی کا ممبر بنایا گیا۔

پلاننگ کمیٹی کا دوسرا اجلاس بھی پانچ نومبر کو دہلی میں ہی منعقد ہوا، اقتصادی منصوبہ بندی کا دو والیم پر مبنی ابتدائی مسودہ جناح صاحب کو پیش کیا گیا۔ 20 سال پر محیط اقتصادی منصوبہ بندی کے لئے 15750 کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔ پلاننگ اینڈ ایڈمنسٹریشن کے لئے 500 کروڑ روپے، زراعت اور مویشیوں کے لئے 4400 کروڑ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کے لئے 1600 کروڑ روپے، ایجوکیشن کے لئے 1250 کروڑ، ہاؤسنگ کے لئے 300 کروڑ، دفاع کے لئے 1400 کروڑ روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔

مسودہ میں یہ توقع ظاہر کی گئی مذکورہ سرمایہ کاری سے قومی آمدن میں اضافہ کی شرح میں چھ فیصد اضافہ ہوگا اور 1965 ء تک یہ آمدن 10253 کروڑ تک بڑھ جائے گی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اگر منصوبہ فی الفور نافذ ہوا تو بیس برس بعد فی کس آمدن میں 67 فیصد تک اضافہ ہوگا اور 390 ملین نفوس پر مشتمل آبادی کے لیے یہ تخمینہ لگایا گیا۔

جناح صاحب نے اس اجلاس میں شرکاء سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا: ایک نکتہ جسے میں آپ سے ذہن میں رکھنے کی درخواست کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہمارا مقصد امیر کو امیر بنانا اور چند افراد کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز نہیں ہے، ہمیں عوام کے درمیان عمومی معیار زندگی کو بلند کرنا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ آپ کی کمیٹی اس اہم سوال پر توجہ دے گی، جناح صاحب کی موجودگی اور تقریر کے باوجود یہ اجلاس مایوس کن رہا، مسودہ پر طویل بحثیں بھی بے نتیجہ ثابت ہوئیں۔

یہ کیسے ممکن تھا کہ پلاننگ کمیٹی کے تحت تشکیل پانے والی ذیلی کمیٹیوں میں سرمایہ داروں کو نمائندگی دی جائے اور پھر جناح صاحب یہ امید کریں کہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ قومی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو۔

اب یہ سوال اہم تھا کہ اقتصادی منصوبہ بندی کو نافذ کرنے کے لیے دولت کہاں سے آئے گی؟ مسلم لیگ نے یہ تجویز دی تھی کہ منصوبہ کے لیے غیر ملکی قرضے حاصل کیے جائیں اور رقم کا بڑا حصہ ٹیکسوں کے نفاذ سے آمدن کی صورت میں ملے گا اور آمدن پر ٹیکس 14 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز کی گئی۔ منصوبہ کی تجاویز زمینی حقائق اور منطق کے خلاف تھیں۔ ہم یہ گمان نہیں کر سکتے کہ جناح صاحب اور مسلم لیگ زمینی حقائق سے غافل تھی کہ پاکستان کا جغرافیائی نقشہ اقتصادی طور پر پسماندہ اور جاگیردارانہ سماج پر مبنی تھا، جناح صاحب بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان میں شامل کیے جانے والے علاقے معاشی اور صنعتی طور پر پسماندہ ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان برطانوی ہند کے زرعی خطہ پر مشتمل تھا۔

جب قرار داد لاہور کے ذریعے سے جس خطہ میں الگ ریاست کا مطالبہ ہوا یہاں 9 کاٹن فیکٹریاں، 10 شوگر ملز، 3 سیمنٹ فیکٹریاں اور صرف دو شیشہ فیکٹریاں تھیں جبکہ باقی ماندہ ہندستان میں 380 کاٹن فیکٹریاں، 108 پٹ سن کی صنعتیں، 156 شوگر ملز، 18 آئرن اینڈ سٹیل ملز، 16 سیمنٹ فیکٹریاں، 16 پیپر ملز اور 77 شیشہ فیکٹریاں تھیں۔ ہندستان میں برطانیہ کی براہ راست دو صدیوں کے اقتدار کے باوجود یہ خطہ صنعتی و معاشی لحاظ سے پسماندگی سے دو چار تھا اور اس پسماندہ خطہ میں الگ ریاست بننے کے بعد آج بھی ہم صنعتی پسماندگی کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ نے پاکستان کے علاقوں کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ لیگ کے پاس ایسی مہارت بھی دستیاب نہیں تھی۔ جناح صاحب کم از کم خود معاشی معاملات کی طرف توجہ دینے، صنعتی خدشات کو ذاتی طور پر دور کرنے اور پاکستان زون کو صنعتی بنانے کے لئے اسکیمیں منظور کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔

تقسیم ہند کے بعد گورنر جنرل محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تحت ہونے والی اقتصادی منصوبہ بندی کو نظر انداز کیا۔ جناح صاحب نے وزارت فنانس کا قلمدان بیوروکریٹ ملک غلام محمد کو سونپ دیا اور پھر اس کے بعد ہندستان کے وائسرائے کونسل کے مشیر اقتصادی امور آرچی بالڈ رولینڈ کو اپنا مشیر تعینات کر دیا اور ملک غلام محمد کو ان کے ماتحت کر دیا۔ برٹش راج میں برطانوی مفادات کے لیے کام کرنے والے آرچی بالڈ رولینڈ کو اب نوزائیدہ ریاست کی اقتصادی منصوبہ بندی کا ٹاسک سونپ دیا گیا۔ جناح صاحب نے برطانوی ماہر سر وکٹر الفرڈ چارلس ٹرنر کو فنانس سیکرٹری آف پاکستان اور بورڈ آف ریونیو کا چیئرمین تعینات کر دیا، الفریڈ چارلس نے ہی پاکستان کی سول سروس کا نیا ڈھانچہ تیار کیا تھا جس پر حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔

پاکستان میں ڈویلپمنٹ آف آرگنائزیشن اور میتھڈ آف ورکس پر ورکنگ پیپر تیار کرنے کے لیے برٹش گورنمنٹ ٹریژری کے عہدیدار کے۔ ایس جیفریز کو ٹاسک سونپا گیا۔ جناح صاحب کے ان فیصلوں سے پاکستان کی اقتصادی منصوبہ بندی کے لیے برطانوی اور امریکی ماہرین کی ریاستی معاملات میں داخل کرنے کی بنیاد پڑ گئی یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اصلاحاتی منصوبوں کے لیے 1953 ء میں امریکی پروفیسر رولینڈ ایگر اور پھر 1955 ء میں امریکی ماہر برنارڈ گلائیڈیگس کو پاکستان پلاننگ بورڈ میں تعینات کیا گیا۔

ریاست پاکستان قائم ہونے کے بعد سے ہی امریکی و برطانوی ماہرین کے ذریعے سے قومی امور میں غیر ملکی دخل اندازی کی ابتداء ہوئی، آل انڈیا مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کے تحت تیار ہونے والے منصوبوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا اور مسلم لیگ کی مرکزی لیڈر شپ نے اقتصادی منصوبہ بندی پر غیر سنجیدہ رویہ اپنایا اور قرار داد لاہور کی منظوری کے سات برس بعد بھی کوئی ٹھوس منصوبہ مرتب نہ کر سکی اور قیام پاکستان کے بعد ہماری اقتصادیات کو اس خطے کو غلامی میں دھکیلنے والوں کی گود میں ڈال دیا گیا۔

آج ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کاش جناح صاحب یا لیگ کی مرکزی قیادت زیادہ عرصہ زندہ رہتی تو پاکستان میں اقتصادی انقلاب برپا ہوجاتا اور ہم عالمی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں سے آزاد ہوتے، آج 74 برس بعد بھی تاریخی حقائق کے خلاف یہ جھوٹ اعتماد کے ساتھ بولا جاتا ہے تاکہ اسی گمان میں ہماری نوجوان نسل مبتلا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments