افغانستان میں بگڑتی صورتحال کے باوجود ترکی کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنے پر بضد، اردوغان اور طالبان آمنے سامنے


اردوغان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان

افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد طالبان تیزی سے مضبوط ہو رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ترکی کابل ایئر پورٹ کے انتظام و انصرام اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری لینا چاہتا ہے۔

ترکی کے وزیر دفاع حلوصی اقار نے بدھ کے روز کہا کہ کابل ہوائی اڈے کو کھلا رکھنا فائدہ مند ہے اور آنے والے دنوں میں کچھ فیصلے کیے جائیں گے۔

ترکی کے وزیر دفاع نے جمعرات کو کہا کہ ترکی کابل ایئر پورٹ کے آپریشن کے حوالے سے بات چیت کر رہا ہے۔ جمعرات کو ترکی کے وزیر دفاع نے یہ بات اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے میں کہی۔

ترک وزیر دفاع نے کہا کہ اگر کابل ایئرپورٹ بند ہو گیا تو افغانستان میں کوئی سفارتی مشن کام نہیں کر سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ کابل ایئرپورٹ کھلا رہے۔ آنے والے دنوں میں اس کے بارے میں کچھ فیصلے ہوں گے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان میں بے قابو صورتحال کے باوجود ترکی کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھالنا چاہتا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے امریکی صدر جو بائیڈن کو نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کابل ائیرپورٹ پر اپنے فوجی بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی۔

روئٹرز کو ایک ترک عہدیدار نے بتایا: ‘کابل کے ایئرپورٹ کو ترک سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں لینے کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ ہم افغانستان کے موجودہ حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔’

بدھ کو ‘سی این این ترک’ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ترک صدر رجب طیب اردوغان نے کہا: ‘افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے پیش نظر ہم طالبان سے بات کر سکتے ہیں۔ ہماری متعلقہ ایجنسیاں طالبان سے ملاقات پر کام کر رہی ہیں۔ میں بھی طالبان کے کسی ایک رہنما سے مل سکتا ہوں۔’

دوسری جانب طالبان نے ترکی کو دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ کابل ایئرپورٹ پر اپنی فوج نہ بھیجے۔

عمران خان

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان

عمران خان ترکی اور طالبان کو ساتھ لانے میں مصروف ہیں

بدھ کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ترک وزیر دفاع سے ملاقات کے بعد غیر ملکی میڈیا کو بتایا کہ طالبان اور ترکی کے درمیان مذاکرات کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔

عمران خان نے کہا تھا کہ ‘ترکی اور طالبان آمنے سامنے بات کریں تو بہتر ہوگا۔ دونوں ان وجوہات پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں کہ کابل ایئرپورٹ کا محفوظ ہونا کیوں ضروری ہے۔ اسی لیے ہم طالبان سے بات کر رہے ہیں تاکہ وہ ترکی کے ساتھ آمنے سامنے گفتگو کر سکیں۔

عمران خان نے کہا: ‘افغان حکومت کے ذہن میں پاکستان کے بارے میں بہت زیادہ بدگمانیاں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس طالبان کو قائل کرنے کے لیے کوئی جادو کی چھڑی ہے۔ اب طالبان کو رضامند کرنا زیادہ مشکل ہو گیا ہے کیونکہ طالبان کو لگتا ہے کہ انھوں نے امریکہ کو شکست دے دی ہے۔’

عمران خان نے مزید کہا: ‘افغانستان کے عوام جو بھی حکومت بنائیں گے وہ پاکستان کے لیے قابل قبول ہوگی۔ سب کی شرکت والی حکومت بہترین ہو گی۔ لیکن اگر طالبان زبردستی فوجی بغاوت کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں خانہ جنگی ہو گی اور یہ پاکستان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہو گا۔ پاکستان کو افغانستان میں سکیورٹی کے حوالے سے بہت سے خدشات ہیں۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔’

https://twitter.com/PakinTurkey/status/1425425072324497411

عمران خان نے افغانستان میں چین کے کردار کے متعلق کہا کہ چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور افغانستان کا پڑوسی بھی ہے اس لیے افغان امن عمل میں چین کا اہم کردار ہے۔

عمران خان نے کہا: ‘پاکستان میں 30 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ویسے بھی ہماری معیشت اب راستے پر آرہی ہے۔ ایسے میں ہم مزید مہاجرین نہیں چاہتے۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے شروع میں جب طالبان رہنما پاکستان آئے تو ہم نے سیاسی حل کے لیے کہا لیکن انھوں نے صدر اشرف غنی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

کابل ایئرپورٹ

کابل ایئرپورٹ

ترکی کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول کیوں سنبھالنا چاہتا ہے؟

افغانستان کے ایوان صدر سمیت تمام سفارت خانوں کے قریب واقع کابل کا ایئرپورٹ عسکری حکمت عملی کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ یہ ایئرپورٹ افغانستان کو دنیا سے جوڑنے کا کام کرتا ہے۔ کابل ایئرپورٹ اس جنگ زدہ ملک تک پہنچنے اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے ایک محفوظ راستہ فراہم کرتا ہے۔

ترک نیوز ویب سائٹ روزنامہ صباح کے مطابق اگر حساس صورتحال پیدا ہوتی ہے تو غیر ملکی سفارتکاروں کے محفوظ انخلا کے لیے یہ ایئرپورٹ واحد آپشن ہے۔

طالبان جنگجوؤں کے اس ایئرپورٹ پر قبضے ساتھ ہی افغانستان ایک حد تک باقی دنیا سے کٹ کر رہ جائے گا۔

کہا جا رہا ہے کہ اردوغان کی اس اچانک پیشکش کی وجہ سے ترکی کو گذشتہ ماہ جون میں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی بہتر ہم آہنگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اس پیشکش کے پس پشت صدر اردوغان کے دو مقاصد بیان کیے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ترکی آخر افغانستان میں کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ طالبان سے کیسے نمٹے گا؟

’طالبان کی واپسی‘ انڈیا، ایران اور ترکی کے مفادات پر کیسے اثر انداز ہوسکتی ہے؟

طالبان کا افغانستان میں ترک فوجیوں کی موجودگی میں توسیع کے اعلان پر انتباہ، طالبان کی پیش قدمی کی اطلاعات

پہلا مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو تازہ دم کرنا اور دوسرا انسانی امداد کا راستہ کھلا رکھ کر پناہ گزینوں کے بحران سے بچنا۔

جرمن فاؤنڈیشن فریڈرک ایبرٹ سٹیفٹنگ کی افغانستان میں ڈائریکٹر میگڈالینا کریچ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ‘افغانستان کے استحکام سے ترکی کے مفادات وابستہ ہیں۔’

تاہم ترک حکام اس مشن کے ذریعے سفارتی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دے کر افغانستان میں تشدد کو کم کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک ترک سفارتی ذریعے نے کہا ہے کہ ‘ہمارا مقصد یہ ہے کہ افغانستان کا بیرونی دنیا سے رابطہ نہ ختم ہو اور یہ الگ تھلگ نہ پڑ جائے۔’

اقوام متحدہ نے رواں ماہ بتایا ہے کہ تقریبا 18 ملین افراد یعنی آدھی افغان آبادی کو مدد کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نصف آبادی شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ تاہم امریکی حکومت اب بھی اس غیر مستحکم خطے میں ترکی کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتی ہے۔

کابل ایئرپورٹ

طالبان رضامند نہیں

طالبان نے اس معاملے میں ترکی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کے فیصلے کے بہت سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

امریکی نیوز گروپ بلوم برگ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گذشتہ ہفتے ترکی کو بتایا کہ یہ اقدام ‘غلط مشورے، ہماری خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور ہمارے قومی مفادات کے خلاف ہے۔’

جبکہ دوسری جانب افغان حکومت نے کہا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کرنا افغان سکیورٹی اہلکاروں کا کام ہے، لیکن اگر انھیں کسی دوست ملک سے مدد ملتی ہے تو وہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سالیوان نے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ترک صدر رجب طیب اردوغان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد ترکی واپس آئے گا۔ اور وہ کابل ایئر پورٹ کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرے گا۔

افغان صدر اشرف غنی اور ترکی کے صدر اردوغان

افغان صدر اشرف غنی اور ترکی کے صدر اردوغان

اردوغان اور طالبان آمنے سامنے

طالبان نے ترکی کی جانب سے کابل ایئرپورٹ کو چلانے کی پیشکش کو ‘قابل نفرت’ قرار دیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ‘ہم اپنے ملک میں کسی بھی غیر ملکی فوج کی موجودگی کو کسی بھی شکل میں قبضہ سمجھتے ہیں۔’

اسی دوران ترکی کے صدر نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا رویہ درست نہیں ہے۔

اردوغان نے کہا کہ ‘ہمارے خیال میں طالبان کا رویہ ایسا نہیں ہے جس طرح ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ساتھ برتاؤ ہونا چاہیے۔’

انھوں نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ جلد سے جلد دنیا کو دکھائیں کہ افغانستان میں امن بحال ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ‘طالبان کو اپنے ہی بھائیوں کی سرزمین پر قبضہ ترک کردینا چاہیے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp