بیٹیوں کے والدین کو کیا کرنا چاہیے؟



آج کا مضمون لکھنے کی تحریک دینے کے لیے جمشید اقبال صاحب کا شکریہ۔ ان کا بیٹیوں کے باپ ہونے کے لحاظ سے پریشان کن پیغام مندرجہ ذیل ہے۔

”صبح سویرے یہ خبر پڑھنے کو ملی وہ نازیہ حسن جنہیں امین سیانی ’سنسار چہیتی گائیکا‘ کہتے تھے، موت کا شکار ہونے سے قبل خاوند کے تشدد کا شکار بنی اور یہی اس کی جوان موت کی وجہ تھی۔ اس سے قطع نظر کہ زوہیب حسن سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ، بیٹیوں کے والدین پریشان ہیں، بعض اوقات مجھے اور میری مسز کو پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ اپنی طرف سے ان کی تعلیم کے علاوہ بھرپور تربیت کی جا رہی ہے۔ زندگی گزارنے کی مہارتیں اور تنازعات کا حل سکھایا جا رہا ہے۔ بڑی بیٹی کو باڈی لینگوئج اور مائیکرو ایکسپریشنز کی بنیادی مہارتیں سکھا رہا ہوں جو اس نے اپنی چھوٹی بہنوں کو سکھانی ہیں۔ لیکن پھر بھی خوف آتا ہے۔

اس پوسٹ کے ذریعے میرا خاص طور پر بیٹیوں کی تربیت کے ماہرین دوستوں جیسے ڈاکٹر خالد سہیل اور ڈاکٹر لبنی مرزا سے گزارش ہے کہ وہ اس موضوع پر لکھیں تاکہ ہمارے جیسے والدین کم از کم بچیوں کی ایسی تربیت کردیں کہ وہ کل درندہ صفت لوگوں کے عزائم سے واقف ہو کر بروقت اپنی حفاظت کا بندوبست کرسکیں۔ یہاں پر میں روایتی تربیت سازوں سے ہرگز مخاطب نہیں، ملک میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر تشدد کے واقعات بتا رہے ہیں کہ روایتی طریقے ناکام ہوچکے ہیں۔ یہ کب سے ناکام ہوچکے تھے لیکن بات منظر عام پر اب آنا شروع ہوئی ہے۔ لہذا روایتی مشورے دینے والوں سے نہیں، اس شعبے کے ماہرین سے مخاطب ہوں۔

لہٰذا ان دو دوستوں کے علاوہ اگر کچھ لوگ اس موضوع میں مہارت رکھتے ہیں تو وہ اس موضوع پر لکھیں۔ آن لائن لیکچر دیں، تاکہ پاکستان میں ان والدین کا بھلا ہو سکے جو بچیوں کی تربیت کر رہے ہیں۔ ”

محض جمشید اقبال صاحب کی طرح کے والدین روز سامنے آنے والے افسوسناک واقعات سے دلبرداشتہ ہی نہیں بلکہ ملک اور اس سے باہر رہنے والی پاکستانی خواتین میں خوف و ہراس کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قتل، ریپ، خواتین کو شادی میں بیچنا، کم سن بچیوں کی شادی کروانا، جہیز کا مطالبہ کرنا اور گھر میں ذلت اور مار پٹائی کرنا کوئی نئی باتیں ہیں۔ خواتین کو اپنی ملکیت سمجھنا، ان کے ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑانا اور اپنے والدین اور جاننے والے افراد کو وقت بے وقت گھر بلا کر، اپنے گھر میں رکھ کر اپنے گھر کی خواتین پر ان کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کی ذمہ داری ڈالنا ایک عام سی بات ہے۔

یہ سب باتیں ہمارے سماج کا ایک منظم حصہ ہیں۔ خواتین خود بھی اور ان کے والدین یہ سوچ کر ہلکان ہیں کہ آخر وہ کیا کریں کہ ان حالات میں کچھ بہتری آئے۔ خواتین خود پریشان ہیں کہ آخر پیدا نہ ہونے کے علاوہ وہ ایسا کیا کر سکتی ہیں جس سے ان کے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں سے نجات حاصل ہو سکے۔ ان میں سے کچھ شکار کو ہی مجرم بھی ٹھہراتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے بے گھر افراد کو ان کی بے گھری کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ایسا انسان اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ خود کو یہ یقین دلا سکیں کہ اگر وہ کچھ غلطی نہ کریں تو ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آئے گا۔ خواتین موت اور ریپ کے ڈراؤنے خواب دیکھ رہی ہیں، کچھ سو نہیں سکتیں۔ ایک طرف ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری طرف ذہنی مریضوں کے علاج کے لیے ماہرین نفسیات کی شدید کمی ہے۔ جو خواتین معالج بن سکتی ہیں، ان کو مریضوں میں شامل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

ملک کے قوانین اور مذہب خواتین کے حقوق کا استحصال کرنے میں استعمال ہو رہے ہیں جن میں تبدیلی کی شدید مزاحمت ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کی مزاحمت میں مذہبی مسلمان آدمی پیش پیش ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ معاشرتی تفریق کے نظام کا اسٹیٹس کو ان کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ حالانکہ دنیا کی بڑی تصویر ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح یہ سماجی اور معاشرتی تقسیم اور درجہ بندی ملک کی پستہ حالی کا بڑا سبب ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ملک کے قوانین کو مذہب سے الگ کر کے جدید سطور پر استوار کیا جائے۔ اس کے علاوہ معاشرتی ڈھانچے میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ لڑکیوں کو بچپن سے پرایا دھن کہنا بند کریں۔ ان کی ارینجڈ شادی کروانا بند کردیں۔ ان کے نصیب کو کسی غیر اجنبی کے بجائے خود ان کی تعلیم اور صلاحیت سے جوڑیں۔ ہر انسان خود اپنا دھن ہے۔ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کو مناسب جنسی تعلیم دی جائے۔ ان کو الگ الگ پالنا بند کیا جائے۔ غیر شادی شدہ لڑکیوں کو روز رنگ برنگے لڑکوں کی تصویریں بھیج کر پریشان کرنا چھوڑ دیں۔ وہ میں اکثر دیسی اسٹوڈنٹس کی ماؤں کو کرتا دیکھتی ہوں۔

ایسا بقایا دنیا میں نہیں ہوتا۔ یہ ایک مخصوص دیسی عارضہ ہے۔ اس کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بچپنے سے ذہنی طور پر نہیں نکل پائے ہیں۔ پالنے پوسنے اور بڑا کرنے کے بعد ، بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیم ختم ہونے کے بعد وہ کس سے کیا تعلق بنا لیں اور کس سے شادی کر لیں یہ ماں باپ، مذہب یا ملکی قوانین کا بزنس ہونا ہی نہیں چاہیے۔ ان والدین کو اپنا بڑھاپا ایک دوسرے کے ساتھ لطف اندوز ہونے، سفر کرنے اور دنیا دیکھنے میں خرچ کرنا چاہیے۔

ملک کے قوانین کو شہریوں کے حقوق، ملکیت اور جان کی حفاظت کے لیے اور مذہب کو شہریوں کی فلاح بہبود میں استعمال کرنا چاہیے۔ خواتین کو کامیاب ہونے کے لیے یا معاشرے کا اہم رکن ہونے کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ بے نظیروں پر ایک کیریکٹر سرٹیفکٹ کے لیے شادیاں اور آدمی تھوپنا بند کرنا ہوگا۔ ملالہ کے باپ کی طرح سوچنا ہوگا جنہوں نے اپنی بیٹی کے پر کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اگر کسی ملک میں تمام بونے ہوں تو لڑکیوں کو ان کے ساتھ قد برابر رکھنے کے لیے اپنی ٹانگیں کاٹنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی بھی خاتون کو کسی بھی حیثیت کے ساتھ کسی بھی ملک میں اپنا کام سر انجام دینے کے لیے شادی شدہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

دوسری نصیحت یہ کہ لڑکیوں کی بات پر یقین کیا جائے۔ جب ایشوریا رائے سلمان خان کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے میرے ساتھ بدسلوکی کی اور مجھ پر ہاتھ اٹھایا تو سلمان خان معصوم شکل بنا کر کہہ دیتے ہیں کہ میں تو اتنا مسکین ہوں کبھی کسی کو نہیں مار سکتا۔ پھر ہماری ہندوستانی قوم اس کو کندھوں پر اٹھا کر اپنے محلے میں گھماتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی عجوبہ بھی نہیں کہ کوئی آدمی اپنی ساتھی سے زبانی بدکلامی کرے یا اس پر ہاتھ اٹھائے۔

وہ اسی فیصد گھروں کا ایک نارمل چلن ہے۔ جب کوئی خاتون کسی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگائے تو وہ بھی دیگر جرائم کی طرح قریب 3 ٪ جھوٹا ہو سکتا ہے۔ بقایا 97 ٪ سچے ہی ہوتے ہیں جن کو اس لیے اہمیت یا انصاف نہیں ملتا کیونکہ پولیس والے، وکیل، جج سبھی اس کام میں خود بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اس نظام میں وہ خواتین کو نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔

ایک سفید فام پادری افریقہ کے کسی گاؤں میں تبلیغ کے لیے رہ رہے تھے۔ ایک کالے آدمی نے اس سے پوچھا کہ پادری میرے سارے بچے کالے ہیں، یہ ایک گورا کیسے ہوا؟ پادری نے کہا کہ یہ سب خدا کی دین ہے۔ وہ دیکھو تمہاری ساری بکریاں سفید ہیں لیکن ان میں سے ایک کالی ہے۔ تو کالے آدمی نے پادری سے کہا کہ میں گورے بچے کے لیے کچھ نہیں کہوں گا اور آپ بھی کالی بکری کے لیے کچھ نہ بولیں۔ ہمارے ملک کے آدمیوں کا بھی آپس میں یہی گٹھ جوڑ ہے۔ اس نظام میں ایک سے زیادہ شادیاں، وراثت میں غیر انصافی اور صنفی معاشرتی جبر ختم کرنا ہوگا۔

جہاں افراد کی جنسی زندگی ان کے والدین، قانون اور مذہب کے ہاتھوں میں ہو اور وہ نارمل طریقے سے دیگر افراد کے ساتھ تعلقات بنانا نہ سیکھ سکتے ہوں اور نارمل زندگی نہ گزار سکتے ہوں تو ایسے حالات میں طلاق خواتین کے لیے آسان بنائی جائے اور ان کو کورٹ کچہریوں کے دھکے کھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ ہمارے معاشرے کے افراد کی منافقت سب کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے۔ کسی بھی آدمی کی اچھائی اور برائی ایک عورت کو تب معلوم ہوجاتی ہے جب وہ اکیلے ہوتے ہیں اور کوئی اور دیکھنے والا نہیں ہوتا۔

جس طرح وہ اس آدمی کو جانتی اور سمجھتی ہے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ جب صفیہ کے مالدار والدین نے دو ہزار مہمانوں کے سامنے دھوم دھڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو سب کے چلے جانے کے بعد اس کے شوہر نے ہیرے کی انگوٹھی پھینک کر اس کو منہ دکھائی میں دی، اس کو تھپڑ مارے اور اس کا ریپ کیا۔ ان کے والدین کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح ایک شوہر اپنی بیوی کا ریپ کر سکتا ہے۔ اپنی بیٹی کو ہسپتال میں اکیلے لیٹے دیکھ اور لنگڑا کر چلتا دیکھ کر اس کے والد پھوٹ پھوٹ کر روئے اور اس سے معافی مانگی۔ اس نے معافی میں ملک سے چلے جانے کی درخواست کی۔ اس کے بعد اس نے پلٹ کر اپنا وطن کبھی نہیں دیکھا۔ صفیہ خود کو مجرم ٹھہراتی ہے کہ وہ اپنی حفاظت کیوں نہیں کر سکی۔ اس سارے قضیے میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس نے وہی کیا جو اس کو بچپن سے سکھایا گیا تھا۔ اس نے اس نظام پر بھروسا کیا تھا۔

آج کل طرح طرح کی وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر ڈال کر خواتین کی بے عزتی کرنے کا ایک نیا لیول شروع ہوا ہے۔ ملک کے قانون میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے یہ وڈیوز خواتین کے خلاف نہیں بلکہ ان کے فائدے میں استعمال کی جائیں۔

ایک شائستہ انسان کے نزدیک اس کی رفیقہ کی دنیا کے تمام دیگر افراد سے زیادہ اہمیت ہونی چاہیے۔ ایک پاکستانی ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ علیحدگی اختیار کرچکے تھے اور الگ گھروں میں رہ رہے تھے۔ ہسپتال کے باہر ڈاکٹر صاحب کے شہر کا ایک آدمی نظر آیا تو انہوں نے اپنی بیگم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کا ماتھا چوما۔ ان کی بیگم دیکھ سکتی تھیں کہ جس آدمی کو انہوں نے زندگی کا ساتھی بنایا، ایک بدحال اور غریب ملک سے باہر چلے جانے کا ویزا دلایا، اس کا گھر بنایا اور اس کے بچے پالے، اس دن اس کی نظروں میں ایک اجنبی آدمی کی زیادہ اہمیت تھی جس کے سامنے وہ اپنی بیوی کی پروا کرنے کا ڈرامہ کر رہا تھا۔

اگر وہ کسی کو بتائیں تو کوئی یقین بھی نہ کرے کہ باہر سے پڑھے لکھے، صورت شکل کے مناسب، شائستہ گفتگو کرنے والے افراد اپنی بیویوں سے کس طرح سلوک کرتے ہیں اور ان کو کس طرح اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ سوال پوچھنا چھوڑ دینا ہوگا کہ آپ اپنے شوہر کو کیوں چھوڑ دینا چاہتی ہیں۔ جب وہ کہہ دیں کہ چھوڑ دیا تو ہمیں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ جیسے آپ چاہیں۔

ایسا کون سوچ سکتا تھا کہ نازیہ حسن جیسی خاتون جن کے لیے لاکھوں دل دھڑکتے تھے، ان کا شوہر جس کے پاس اعلیٰ تعلیم اور پیسہ تھا وہ ایک مغربی ملک کے اندر ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھے گا۔ اسی وجہ سے کئی مشہور خواتین نے کبھی شادی نہیں کی۔ کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ جس کو بھی یہ موقع مل گیا وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے ان کا استحصال کرے گا۔ لڑکوں میں اسی لیے ماں باپ سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ وہ ایسا کریں۔ اب اتنے واقعات ہوچکے ہیں کہ اس بات پر حیران ہونا چھوڑ دینا ہوگا۔

خواتین کے ساتھ بدسلوکی محض غربت اور جہالت کے دائروں میں محدود نہیں ہے۔ معاشرے کے مردوں میں عزت نفس کی کمی بچپن سے مار پیٹ، تشدد، جنسی استحصال اور ان کی قابلیت اور حیثیت سے زیادہ ان کے خاندانوں کی توقعات ہونے کی وجہ سے پنپتی ہے۔ خواتین کے استحصال کا مسئلہ انفرادی طور پر حل ہونا مشکل ہے۔ اس کے لیے پورے نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments