ملی نغمے اور قومی بیانیہ


اگست آتے ہی قوم میں ایک ولولہ جاگ اٹھتا ہے کہ آزادی کی یادگار کو منانا ہے اور ہر کوئی اپنے انداز سے 14 اگست کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ بچوں سب سے زیادہ جھنڈے اور جھنڈیوں کے طرف مائل ہوتے ہیں مزید کچھ سالوں سے باجا بھی پسندیدگی لسٹ میں شامل ہو گیا ہے۔ بڑے دن قریب آنے پر بچوں کے لئے شاپنگ اور قومی دن پر کہیں آنے جانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بڑوں سے بڑے کہیں سائیڈ پر بیٹھ کر دونوں نسلوں کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کیا پتہ آزادی کی کیا قیمت ادا کی ہمارے بڑوں نے؟ کسی نے کبھی کسی شہید کو یاد کیا ہے کوئی ان کی قبروں پر نہیں جاتا بلکہ شور شرابے کر کے سمجھتے ہیں ہم نے آزادی منا لی۔ بات تو بڑوں کی صحیح ہے مگر سوال بنتا ہے کہ یہ باتیں 50۔ 60 کی عمر میں جا کر ہی کیوں یاد آتی ہیں۔

دوسری جو سب سے شاندار روایت ہے وہ ہے قومی ترانے سننے کو ملتے ہیں، ملی نغمے سننے کو ملتے ہیں جن میں ایک ملت بن کر آگے بڑھنے کا سبق تقریباً تمام نغموں میں ملتا ہے۔ سب سے زیادہ پر اثر نغمے نور جہاں صاحبہ اور مہدی حسن صاحب خصوصاً۔ ”یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسبان اس کے“ سننے کو ملتا ہے۔ جو زیادہ تر نغمے سننے کو ملتے ہیں ان میں زیادہ تر 60۔ 70 کی دہائی کے ہیں۔

حسب روایت آزادی کی اظہار کرنے کے بعد جب فارغ ہوا تو اپنے محلے میں موجود ایک بزرگ جنہیں سب بابا سائیں کہتے ہیں کے پاس چلا گیا جن سے آزادی کے موضوع پر بات شروع ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ تقسیم اور تعمیر وطن کا دور مشکل تھا لوگوں نے بڑی قربانیاں دیں مگر چونکہ تقسیم ”قوت اخوت عوام“ اور قائد اعظم کے قول ”ایمان، اتحاد اور تنظیم“ کی بنیاد پر ہوئی تھی اس لوگوں میں ایمان تھا، اتحاد اور کچھ وقت تک تنظیم تھی مگر جیسے ہی نظام ہمارے لوگوں کے ہاتھ میں سب سے پہلے تنظیم ختم ہوئی، اس کے بعد حکومت وقت نے حکومتوں کی بنیاد قوت اخوت عوام کی بجائے عسکری اور مذہبی نظریات کی بنیاد پر رکھ دی۔

ہم لوگ نے تقسیم دیکھی، لوگوں کو لوٹتے دیکھا، پھر ملک کی خوشحالی دیکھی ترقی دیکھی، پھر ذاتی مفادات کے لئے مذہب اور طاقت کا استعمال ہوتے دیکھا۔ ملک کو خوشحال سے برباد ہوتے دیکھا۔ بس دیکھا نہیں تو آج تک آئین کے مطابق ملک کو چلتے ہوئے اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔

میں نے سہمے سہمے پوچھ لیا بابا جی کیا آپ نے اس ملک کو لوگوں کو کبھی ایک قوم دیکھا ہے؟ تو بابا جی نے جیسے ہی بتانا شروع کیا ان کی آنکھیں نم ہو گئیں بہت اچھا وقت تھا لوگوں میں محبت تھی آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ لوگوں میں روشن خیالی تھی سماجی ہم آہنگی تھی۔ اس وقت اتنی ٹیکنالوجی نہیں تھی عوامی کمیونیکشن کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا جو زیادہ تر لوگوں کی پہنچ میں تھا۔ پڑھے لکھے شاید کم تھے مگر اس وقت کے گلوکاروں، شاعروں، دانشوروں، ایکٹروں اور لکھاریوں کی بات بہت غور سے سنی جاتی تھی۔ خصوصاً نور جہاں، وحید مراد، علی اعجاز، محمد علی، ریشماں بی بی، فیض احمد فیض، عنایت حسین بھٹی وغیرہ قوم کے ہیرو۔ اس وقت کے ڈراموں اور فلموں نے لوگوں کی بہت تربیت کی۔ نور جہاں کی آواز کے لوگ دیوانے تھے۔

بابا سائیں نے بتایا کہ سمجھ لو کہ اس وقت قوم کا بیانیہ روشن خیال لوگوں کے ہاتھ میں تھا، جو وہ اپنی شاعری، نغموں، گانوں، ڈراموں، فلموں سے بیان کرتے تھے یہ تو نہ جانے کہاں سے حکومتوں نے اپنی ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے لوگوں کو تقسیم کرنے کے لئے مذہب، فرقے، لسانیت اور قومیت کا استعمال کیا کہ قوم میں سے یگانگت، محبت اور ہم آہنگی ختم ہو گئی۔ اب ہم اس حد تک تقسیم ہو گئے ہیں کہ ہم نہ تو اب مذہب پر قوم کو اکٹھا کر سکتے ہیں، نہ ملک کے نام پر، نہ کسی قومی بیانیہ پر، اور نہ ہی ریاست مدینہ کے نعرے پر۔ رہی بات جمہوریت اور آئین کی تو وہ مقتدرہ قوتوں نے خود ہی سوچ لیا ہے کہ جمہوریت اور آئین ان کے مفاد میں نہیں ہے حالانکہ پتہ نہیں وہ ملک کو کمزور کر کے خود کو طاقت ور بنا کے کیسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔

بابا جی مزید کہا کہ ہمیں نہیں پتا ہم نے اس دنیا میں اور کتنے دن رہنا ہے مگر آج سب سے زیادہ دکھ مجھے اس وقت ہوتا ہے جب میری نظر سے کوئی خبر گزرتی ہے کہ ہم نے اپنے اتنے لوگ مار دیے، اپنے لوگوں کی بستی جلا دی، اپنے لوگوں کے جلوس پر حملہ کر دیا، اپنے لوگوں کا مندر جلا دیا، اپنے صحافی غائب ہو گئے، اپنے بلوچی مسنگ ہو گئے، اپنے ہزارہ قبیلے کے لوگوں کو مار دیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ کم اپنے ہی دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی کی جان اور عزت کی قیمت چند روپے ہی رہ گئی ہے۔

بابا جی حل بتاتے ہوئے کہا کہ اگر میں اپنے دور کو آج کے دور ایک موازنہ کروں تو ایک بات سمجھ آتی قومی بیانیہ بھی اب چند لوگوں کے مفاد میں بنتا ہے اور مذہبی لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ چند لوگ مذہب اور مذہبی لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ آج عوام سے پوچھیں تو وہ آج کے گلوکاروں سمیت نصرت، نور جہاں، مہدی حسن اور عنایت حسین بھٹی وغیرہ کے لیے کوئی اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ کہیں ایک فنکارہ کا بیان میں نے پڑھا جس میں کہہ رہی تھیں کہ کیسی آزادی ہے کہ ایک سٹار اپنی مرضی سے کچھ کر بھی نہیں سکتی۔

کم از کم پانچ سال میں کوئی ایک آدھ اچھا ملی نغمہ سننے کو ملتا ہے۔ ریاست ویسے ہی ان روشن خیالی کے مخالف ہے جس طرح سے محترم پرویز الٰہی صاحب کا ایمان جاگا ہوا ہے وہ کوئی اچھی مثالیں سیٹ نہیں کر رہے۔ اس لئے جب وزیر اعظم جب 60 کی دہائی کو ملک کی ترقی میں اہم جانتے ہیں تو وہ انفراسٹرکچر کے ساتھ قومی تعمیر کی بھی یاد کر لیا کریں اور اس وقت کے قومی نغموں کو دیکھیں تو آج انہی نغموں میں ایک قوم اور ایک ملت کا راز چھپا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments