طالبان کا افغانستان: 23 برس قبل جب طالبان نے مزارِ شریف فتح کیا، آنکھوں دیکھا حال

*مرتضیٰ بلخی - صحافی


مزار شریف

’والد نے کام میں مصروف ہونے سے پہلے مجھ سے وعدہ کیا کہ دوپہر کے کھانے میں ہم میرا پسندیدہ کابلی پلاؤ کھائیں گے‘ (فائل فوٹو)

یہ آٹھ اگست 1998 کا دن تھا۔

میری سکول سے چھٹیاں تھیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے کس طرح ضد کر کے اپنے والد کو اس بات پر راضی کیا تھا کہ اُس روز میں اُن کے ساتھ اُن کی دکان پر جاؤں گا۔

میرے والد الیکٹرانک اور کمیونیکیشن انجینیئر تھے اور مزارِ شریف کے بیچ واقع بازار میں ان کی دکان تھی جہاں وہ بجلی کے آلات مرمت کرتے تھے۔

اس وقت تک افغانستان کے شمال مشرق میں واقع مزارِ شریف پر شمالی اتحاد کا کنٹرول تھا اور قبائلی جنگجوؤں کا یہ اتحاد طالبان کی شدید مخالفت کرتا تھا۔

میرے والد مجھے لیے دکان پر پہنچے اور انھوں نے کام میں مصروف ہونے سے پہلے مجھ سے وعدہ کیا کہ دوپہر کے کھانے میں ہم میرا پسندیدہ کابلی پلاؤ کھائیں گے۔

لیکن کسی کو اندازہ نہ تھا کہ اگلے کچھ گھنٹوں میں کیا سے کیا ہو جائے گا۔

صبح نو بجے کا وقت ہوگا جب ہمیں فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔

میں آٹھ برس کا تھا، ظاہر ہے میں گھبرا گیا۔ اپنے والد سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے شمالی اتحاد کے دھڑوں کے درمیان لڑائی ہو گئی ہے۔

ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ طالبان شہر میں داخل ہو چکے تھے۔ جب سڑکوں پر چلتی گاڑیوں میں سفید جھنڈے اور سیاہ پگڑیاں نظر آنا شروع ہوئیں، تب جا کر ہمیں سمجھ آیا کیا ہو رہا ہے۔

دوپہر ایک بجے تک فائرنگ جاری رہی اور بالآخر طالبان نے شہر فتح کر لیا۔

مزار شریف

’دکاندار اور گاہک یا تو بھاگ چکے تھے یا فائرنگ کے ڈر سے پہلے ہی اِدھر اُدھر ہو گئے تھے‘ (فائل فوٹو)

اس وقت تک ہم شہر کے وسطی علاقے دروازہ بلخ کے قریب ایک مارکیٹ میں تھے اور یہی طالبان کا شہر میں داخل ہونے کا راستہ بھی بنا۔

مارکیٹ میں ہم پانچ لوگ رہ گئے تھے۔ باقی دکاندار اور گاہک یا تو بھاگ چکے تھے یا فائرنگ کے ڈر سے پہلے ہی اِدھر اُدھر ہو گئے تھے، لیکن میرے والد نے اصرار کیا کہ ہم ابھی یہیں رُکتے ہیں۔

ہم نے مارکیٹ کے دروازوں کو اندر سے تالے لگا دیے۔ مارکیٹ کے اندر ایک جگہ تھی جہاں سے ہمیں مشرق کے جانب عمارت کے باہر دکھائی دیتا تھا۔ وہاں سے میں نے دیکھا کہ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہے۔ مختلف اطراف سے گولیاں چل رہی تھیں۔

لوگ سڑکوں پر بھاگ رہے تھے اور ان گاڑیوں سے ٹکرا رہے تھے جن کے مالکان طالبان سے بچ نکلنے کی جلدی میں راہ چلتے لوگوں کی بھی پرواہ نہیں کر رہے تھے۔

مارکیٹ کے باہر لگے ٹھیلے اور ریڑھیاں بکھری پڑی تھیں۔ طالبان ہر طرف تھے، سڑک پر اور قافلوں کی صورت میں چلنے والی ڈاٹسن گاڑیوں میں۔ وہ بلادریغ گولیاں چلاتے جا رہے تھے۔

میں اور نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں کی چیخیں میرے اعصاب پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی تھیں۔ میں بہت خوفزدہ ہو چکا تھا۔

اس موقع پر میرے والد نے مجھے دکان کے اندر جانے کا کہا لیکن میں بہت ڈرا ہوا تھا اور اندر آ کر میں رونے لگا۔ پھر میرے والد بھی اندر آ گئے اور مجھے تسلی دینے کی کوشش کرنے لگے۔

افغان

’مرنے اور زخمی ہونے والوں کی چیخیں میرے اعصاب پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی تھیں۔ میں بہت خوفزدہ ہو چکا تھا‘ (فائل فوٹو)

دوپہر کے تین بج چکے تھے اور میں بھوک سے نڈھال ہو رہا تھا۔ میں نے جب اپنے والد سے پوچھا اگر کچھ کھانے کو مل سکتا ہے تو انھوں نے کہا ‘بس تھوڑی دیر اور انتظار کر لو، پھر گھر جا کر اچھا سا کھانا کھائیں گے۔’

اگرچہ میں چھوٹا تھا لیکن مجھے اس وقت بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے والد میرا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ سب کچھ کہہ رہے تھے۔

تھوڑی دیر کے لیے تو میں چُپ ہو گیا، لیکن پھر میری نظر سڑک کے پار ایک بیکری پر پڑی۔ بیکری کا دروازہ کھلا تھا اور اندر بظاہر کوئی نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کی تازہ صورتحال، بی بی سی لائیو پیج پر

طالبان افغانستان تنازعے میں سعودی عرب سمیت کون سا اسلامی ملک کس کے ساتھ ہے؟

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟

میں اپنے والد کے پاس گیا اور پوچھا ‘کیا ہم اس بیکری تک جا سکتے ہیں؟’

ان کا جواب حتمی تھا ‘اگر ہم اس مارکیٹ سے نکل کر اس بیکری تک جاتے ہیں تو طالبان ہمیں گولی مار دیں گے۔’

شام ڈھل گئی اور فائرنگ کا سلسلہ کافی حد تک تھم گیا۔ اب صرف وقفے وقفے سے کہیں کہیں فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن شہر کے زیادہ تر حصے میں خاموشی تھی۔

ماحول دیکھتے ہوئے میرے والد نے ارادہ کیا کہ اب نکلنے کا وقت ہے۔ ‘اگر ابھی نکلتے ہیں تو قوی امکان ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کے پاس خیر خیریت سے پہنچ جائیں گے۔’

اس وقت چار بج رہے تھے اور ہم سب آہستہ، آہستہ مارکیٹ سے باہر نکلے۔ ہر طرف ایک عجیب سے خاموشی تھی تاہم بیچ بیچ میں اچانک کہیں سے فائرنگ اور لوگوں کی چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔

مزار شریف

’اب صرف وقفے وقفے سے کہیں کہیں فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں لیکن شہر کے زیادہ تر حصے میں خاموشی تھی‘ (فائل فوٹو)

مارکیٹ کے باہر سڑک لاشوں اور ان سے بہنے والے خون سے بھری پڑی تھیں۔ ہم نے دروازہ بلخ سے شہر کی مرکزی سبزی منڈی کی طرف چلنا شروع کیا، جو کہ روزہ مبارک (مزارِ شریف کے وسط میں موجود درگاہ) کے قریب واقع ہے۔

اچانک ہمیں سڑک پر چند طالبان نظر آئے جو ایک شخص پر تشدد کر رہے تھے۔

ہمیں دیکھتے ہی انھوں نے ہماری جانب بھی فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ شروع ہوتے ہی ہم کسی چیز کے پیچھے چھپ گئے اور میرے والد نے پشتو مں زور سے کہا ‘ہمیں نہ مارو، ہم عام شہری ہیں۔’

فائرنگ رُک گئی اور ہم کسی طرح طالبان کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ ہم صرف اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر پوچھا کہ تم میں سے کوئی ‘ہزارہ’ تو نہیں۔

میرے والد صاحب نے پشتو میں کہا ‘نہیں، ہم میں سے کوئی نہیں، ہم پشتون ہیں۔’

جب ہم صدیق یار سکوائر پہنچے تو ہمارا ایک اور طالبان کے گروہ سے سامنا ہوا۔ اس کے پاس ٹینک بھی تھے جن پر سفید جھنڈے لہرا رہے تھے اور ہمیں دیکھتے ہی انھوں نے ہماری جانب بندوقیں تان کیں۔

مزار شریف

’طالبان کے گروہ کے پاس ٹینک تھا اور ہمیں دیکھ کر انھوں نے بندوقیں تان لیں‘ (فائل فوٹو)

یہاں پر بھی میرے والد صاحب نے ان سے پشتو میں بات چیت کر کے ہماری جان بچا لی۔

ابھی ہم سکوائر سے آگے بڑھے ہی ہوں گے کہ سڑک کے کونے پر ہمیں خون میں لت پت چند لاشیں دکھائی دیں۔

میرے والد نے اپنے ساتھی سے کہا ‘دیکھو، یہ تو ندیم ہے۔’

ندیم ہماری مارکیٹ کی دوسری منزل پر الیکٹرانک سٹور چلاتا تھا اور وہ چند گھنٹوں پہلے اس وقت مارکیٹ سے نکلا تھا جب طالبان شہر میں داخل ہوئے تھے۔ اب اس کی لاش سڑک کے کنارے پڑی تھی۔

یہ منظر مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں نے اپنے آپ سے سوچا ‘کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟’

خیر، ہم آخر کار گھر پہنچے تو میری والدہ اور چھوٹی بہن کی جان میں جان آئی۔ جب ہم پہنچے تو وہ بےحد خوفزدہ تھے لیکن ہمیں خیریت سے دیکھ کر ان کے حوصلے بھی تھوڑے بلند ہوئے۔

اگلے دن طالبان نے گھر گھر تلاشی شروع کر دی۔ انھیں زیادہ تر ہزارہ برادری کے افراد یا اسلحے کی تلاش ہوتی تھی اور کئی بار وہ گھروں کے مردوں کو بھی لے جاتے تھے۔

مزار شریف

’کبھی کبھار مجھے لگتا ہے کہ ہمارا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور ہم ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو ان تاریک وقتوں سے بچ نکلے‘

مارکیٹ سے واپسی کے بعد میری طبعیت سنبھل نہیں پا رہی تھی اور میں اگلے پورے دن بستر پر رہا۔ جب رات آٹھ بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں اپنی والدہ کے پاس گیا اور پوچھا ‘ابو کہاں ہیں۔’

مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے والدہ نے مجھے روتے روتے بتایا کہ طالبان آ کر میرے والد کو لے گئے تھے۔ یہ سُن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ مجھے یاد نہیں اس کے بعد کیا ہوا۔

اگلے دن جب میں اٹھا تو میرے والد میرے سرہانے بیٹھے تھے۔ انھیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔

میں نے ان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔

‘کہاں گئے تھے؟’ انھوں نے ہمیں بتایا کہ طالبان پورے محلے سے لوگوں کو اٹھا کر لے گئے تھے اور جنھیں پشتو آتی تھی یا جو ہزارہ نہیں لگتے تھے، وہی زندہ لوٹ رہے تھے۔

مزید پڑھیے

اتنی تیزی سے تو وکٹیں بھی نہیں اڑتیں

دو دہائیوں تک امریکہ کا مقابلہ کرنے والے طالبان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟

صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟

میں اس وقت تو بہت خوش تھا کہ میرے والد زندہ سلامت واپس آ گئے تھے لیکن ہمارے رشتہ دار عزیز، دوست، ہمسائے، سب کے ساتھ بہت خوفناک چیزیں ہوئیں۔

کبھی کبھار مجھے لگتا ہے کہ ہمارا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا اور ہم ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو ان تاریک وقتوں سے بچ نکلے۔ لیکن یہ ایک غمگین داستان کی محض شروعات تھیں اور آنے والے دنوں میں ہمیں کئی ایسے خوفناک دن دیکھنے کو ملے۔

نوٹ: مرتضیٰ بلخی افغان صحافی ہیں اور یہ اُن کا قلمی نام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp