جاپان میں ایک ساتھ برہنہ نہانے کی غیر معمولی روایت جو ایک دوسرے پر ’بھروسے‘ کا اظہار ہے

اروند چھابڑا - بی بی سی نامہ نگار ، ٹوکیو سے


میں نے سُنا تھا کہ جاپان میں ایک ساتھ غسل کی روایت ہے۔ گرم پانی سے نہانے کی ان کی روایات کے بارے میں دنیا بھر میں باتیں ہوتی ہیں، لیکن مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ اُن کے ہاں ایک ساتھ یا عوامی غسل کو ’بھروسے‘ کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

چار دہائی قبل انڈیا سے جاپان جا کر بسنے والے پروین گاندھی بتاتے ہیں کہ ’جب میں یہاں آیا تھا تو ایک چھوٹے سے کمرے میں کچھ لڑکوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم عوامی غسل خانے میں نہانے جاتے تھے کیونکہ ہمارے کمرے کے ساتھ غسل کا انتظام نہیں تھا۔ ہمارے جیسے کئی لوگ عوامی غسل خانے میں نہانے جایا کرتے تھے۔‘

جب برہنہ ہوکر نہانے کے لیے کہا گیا

پروین بتاتے ہیں ’مجھے تب جھٹکا لگا جب یہ کہا گیا کہ مجھے مکمل برہنہ ہو کر نہانا ہو گا۔ میرے لیے ایسا کرنا آسان نہیں تھا۔ انڈیا میں تب بات اور تھی جب ہم بچے تھے اور ٹیوب ویل یا تالابوں میں جا کر اس طرح نہا لیا کرتے تھے۔‘

پروین گاندھی سنہ 1974 میں انڈین پنجاب کے شہر امبالا سے ٹوکیو پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں ایک ٹریول کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔

اُن کے بقول جاپان میں مختلف افراد کا ایک ساتھ برہنہ ہو کر نہانا اور ایسے کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرنا جاپانی معاشرے میں ایسا ہے جیسے کسی کا کسی پر بھروسے کا اظہار کرنا۔

پروین بتاتے ہیں ’میرے لیے وہ سب کچھ بہت عجیب تھا، میں اکثر نہا نہیں پاتا تھا۔ وہ (جاپانی) مجھے کسی اجنبی کی طرح دیکھتے تھے۔ مکمل برہنہ ہو کر نہانے کی ہمت کرنے میں مجھے چھ ماہ لگ گئے۔ اور تب سے حالات میرے لیے بدل گئے۔ اور یہی وہ وقت تھا جب مجھے اجنبی کے بجائے اُن ہی میں سے ایک شخص کے طور پر دیکھا جانے لگا۔‘

ٹوکیو میں ہی موجود انڈین ستنام سنگھ سنی کہتے ہیں ’آپ تو جانتے ہیں کہ ہم انڈین اپنے جسم کے معاملے میں شرمیلے ہوتے ہیں۔ جاپانیوں کے سامنے اپنے پورے کپڑے اُتارنے میں بہت شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔‘

جاپان

ستنام سنگھ امرتسر سے سنہ 1973 میں جاپان گئے تھے۔ وہاں انھوں نے اپنا انڈین کھانوں کا ریستوران کھولا۔ انھوں نے حال ہی میں اس ریستوران کو فروخت کر دیا ہے۔

جاپان کی آبادی 12.6 کروڑ ہے جس میں تقریباً 38 ہزار انڈین ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد جاپان کی آبادی کی بسبت سے بہت بڑی نہیں ہے۔

لیکن جاپان میں رہنے والے انڈین کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ جاپان کی امیگریشن میں درپیش مشکلات ہیں۔

مگر اب جاپان میں انڈین افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان انڈین شہری یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔

ستنام سنگھ 1973 میں امرتسر سے توکیو گئے تھے

ستنام سنگھ سنہ 1973 میں امرتسر سے ٹوکیو گئے تھے

جاپانیوں کا دوستانہ سلوک سب سے بڑی وجہ

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں دہائیوں سے مقیم انڈین شہریوں سے جب میں نے بات کی تو پتہ چلا کہ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ انھوں نے جاپان میں بسنے کا فیصلہ کیا۔

حالانکہ انھوں نے اس دوران پیش آنے والے چیلینجز کا بھی ذکر کیا مگر اُن کا خیال ہے کہ غیر ملکی افراد کے لیے وہاں بسنا وہاں کے مقامی افراد کے دوستانہ مزاج کی بدولت ممکن ہو پاتا ہے۔

اجول سنگھ ساہنی 54 برس قبل دلی سے جاپان جا کر بس گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جاپانیوں کی زبان میں دیگر زبانوں کی طرح گالیوں کی کوئی جگہ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’میں نے نہانا چھوڑ دیا اور زندگی چلتی رہی‘

جرمن شہری سرعام برہنہ ہونا کیوں پسند کرتے ہیں؟

کیا ٹھنڈے پانی سے نہانا آپ کے جسم و دماغ کو بدل دیتا ہے؟

اجول سنگھ ساہنی گزشتہ 54 برس سے ٹوکیو میں رہتے ہیں

اجول سنگھ ساہنی گذشتہ 54 برس سے ٹوکیو میں رہتے ہیں

انڈین شہر حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے وی پی رونالی نے بتایا ’یہ بہت امن پسند لوگ ہیں، اور آپ پائیں گے کہ یہاں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ آپ یہاں رات کے دو بجے بھی خواتین کو بغیر کسی خوف کے گھر سے باہر گھومتے دیکھیں گے۔‘

ستنام سنگھ نے بتایا کہ ’جاپان کے لوگ مزاج کے اتنے اچھے ہیں کہ اگر آپ کو رات کے دو بجے بھی کوئی مدد درکار ہو تو اٹھارہ برس کی بچی تک آپ کے لیے مدد لے کر پہنچ جائے گی۔‘

وہ بتاتے ہیں جاپان کے لوگ اتنے محب الوطن ہیں کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

ٹوکیو

ہوٹل کا سٹاف کوئی ٹپ نہیں لیتا

ستنام سنگھ نے بتایا ’مجھے یاد ہے کہ سنہ 2011 میں آنے والے سونامی سے ملک کو بہت شدید نقصان ہوا تھا اور ہزاروں لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت جاپان کے لوگ کم تنخواہ پر بھی زیادہ کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ ان کے مطابق یہ جاپان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا سوال تھا۔‘

وہ جاپان کے لوگوں کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات بتاتے ہیں ’یہاں ہوٹل کا عملہ اپنے مہمانوں سے کوئی ٹِپ قبول نہیں کرتا۔ وہ بڑی شائستگی سے بس اتنا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارا کام ہے۔ ہمیں ٹپ کی ضرورت نہیں۔‘

تمام انڈین شہری یہ ضرور بتاتے ہیں کہ انھیں یہاں آ کر جاپانی زبان ضرور سیکھنی پڑی۔ محض انگریزی بول کر آپ وہاں گزارا نہیں کر سکتے ہیں۔

اجول سنگھ ساہنی بتاتے ہیں ’بات یہ ہے کہ ہم یہاں ان کے ملک میں رہنے آئے ہیں۔ اور جب تک ہم انھیں سمجھیں گے نہیں تو یہاں کیسے رہ سکیں گے یا ان کے ساتھ کام کیسے کر سکیں گے؟ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ آ گئی تھی کہ اس کے لیے جاپانی زبان سیکھنی ہی پڑے گی۔‘

لیکن جاپانی زبان سیکھنا کتنا مشکل تھا؟

وہ بتاتے ہیں کہ اس میں انھیں چھ ماہ لگے تھے۔

ہردیپ سنگھ رتن ایک بینکر ہیں اور انھیں ٹوکیو آئے ابھی چار برس ہی ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جاپان میں رہنا بہت مہنگا ہے، ساتھ ہی زبان کا مسئلہ تو ہے ہی۔

انھوں نے کہا ’اگر آپ کو یہاں کی زبان نہیں آتی ہو گی تو آپ کے لیے یہاں رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp