کمیونٹی سروس بطور قانونی سزا


کم خواتین کا نام اتنا نشیلا ہوتا ہےRefaEli-Bar۔ اسرائیل کی ٹاپ موسٹ اور دنیا میں سپر ماڈل مانی جاتی تھیں۔

چند سال قبل علم ہوا کہ باقاعدگی سے ٹیکس چوری کرتی ہیں۔ ہم سے تو غلط انگریزی بولنے پر میرا گرفتار نہیں ہوتی مگر اسرائیل کا ایف بی آر ایسا نہیں کہ شبر زیدی کی طرح زبان عہدے سے ہٹنے کے بعد کھولے۔ جس دن ٹیکس چوری کا علم ہوا، اسی رات کالے ڈالے میں ڈالا اور ماں بیٹی کو لے گئے۔ معصومہ سے یہ غلطی ہوئی کہ یہ منھ سے پھوٹ پڑی تھی کہ میرے اکاﺅنٹس میری امی سنبھالتی ہیں۔ میری مصروفیت کا تو آپ کو علم ہی ہے کہ کبھی اسپورٹس السٹریٹد کے سوئم سوٹس اسپیشل والے کور پر تو کبھی لیونارڈو ڈا کیپریو کی بانہوں میں صورت اہل ایماں جیتی ہوں، ادھر ڈوبی ادھر نکلی کے مصداق۔

ان بے مروتوں نے کہاں سنی تھی۔ ماں کو چھ ماہ کی قید ٹھوک دی۔ بیٹی پر جرمانہ اور بینک ریٹ سے ٹیکس کی وصولی کے ساتھ کمیونیٹی سروس کی سزا۔ ٹوائلیٹ صاف کریں یا معذور بچوں کے سینٹر کی صفائی۔

نہ ہوئی فخر سادات حریم شاہ المعروف بہ فضا حسین۔ یا ہماری پڑوسن ایان علی۔ آج ایف بی آر کے دم سے عدالت کے سہارے برج الخلیفہ آباد ہوتا اور انصاف مہنگی ایل پی جی کے چولہے پر سری پائے پکا رہا ہوتا۔ ایان علیاور جنرل مشرف کی طرح اس کا نام کسی عدالت کے لب شیریں پر برسر الزام بھی نہ آتا۔ ویسے آپ کی بات ہے ایان علی فیز ایٹ ڈیفنس کراچی کے پٹرول پمپ پر پٹرول بھرانے رکتی تو پٹرول پمپ اپنی بدبو ایک طرف رکھ کر آغا حشر کاشمیری بن کر گنگنانے لگتا تھا کہ

چوری کھلے نہ کہیں نسیم بہار کی

خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی

پاکستان میں عدالتی نظام بھی ایسا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ وہ جو امام ابو حنیفہ کو بغداد کے چیف جسٹس کا عہدہ آفر ہوا۔ شاگرد قاضی ابویوسف بضد تھے کہ عالم عرب میں ان سا کوئی اور اس عہدے کا اہل نہیں ۔ خلیفہ جعفر منصور بے تاب کہ وہ اس عہدے کو سنبھالیں۔ شاگرد کو سمجھایا کہ منصف کا منصب ایسا تکلیف دہ ہے کہ مانو قاضی کو تو قیامت کے دن الٹی چھری سے ذبح کیا جائے گا۔ اس کے باوجود کوئی اس منصب کو پاکستان میں کیسے قبول کر سکتا ہے۔ یہاں تو انصاف کا عالم یہ ہے کہ کسی کے حلق اصغر میں تیر ترازو ہوجا تا ہے اور کسی اہل زر اور رسائی کا با ل بیکا نہ ہو چھری کے نیچے۔

ہم نے ملازمت کے ابتدائی دنوں میں جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کے لیے بطور ہوم سیکرٹری واجد رانا صاحب کے حکم سے بچہ جیل لانڈھی کراچی کا دورہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ بے پیشی ملزمان کو رہائی دیں جو وہاں چھ ماہ سے زائد مدت سے بند ہیں۔

وہاں ان ملزمان میں تیرہ سال کا ایک لڑکا ایسا تھا جس سے اس کے حجام باس اور اس کے علاقے کا سپاہی بدفعلی کرنا چاہتے تھے۔ وہ رضامند نہ ہوا تو اسے چار طوطے چوری کرنے کے الزام میں جیل بھجوا دیا۔ سال بھر سے بند تھا۔ نہ پیشی ہوتی تھی نہ ضمانت۔ اسی وقت رہائی دی۔

لیاری کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھے مگر کسی وجہ سے عید گاہ سب ڈویژن کا عارضی چارج بھی ملا ہوا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب انتظامی مجسٹریٹس کو عدالتی اختیارات تھے۔ اس سے جرائم کی روک تھام میں بہت مدد ملتی تھی۔ ایم کیو ایم اور لیاری گینگ وار والوں کا مجسٹریٹ صاحبان سے پتہ پانی ہوتا تھا۔ کسی وکیل کی جرات نہ تھی کہ کوئی اونچی نیچی بات کرتا حالانکہ جسٹس مشیر، امیر مسلم ہانی اور قاضی فائز عیسی جیسے لوگ بھی ان عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔ بار اور بینچ دونوں ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں۔

عیدگاہ تھانے کا کیس تھا۔ ایک نوجوان ملزم پیش ہوا تو کھڑکھڑا تا سفید کرتا شلوار، ناپ سے مگر ذرا ادھر اُدھر۔ ایرانی بلوچ تھا شادی میں شرکت کے لیے بلوچستان سے آیا تھا۔ قریبی بس اڈے پر اترا تھا۔ ساتھ ہی کراچی کی ہیرا منڈی، نپیئر روڈ تھی۔ یہ کبھی ویسی نہ تھی جیسی لاہور حیدرآباد کی ہوا کرتی تھی پھر بھی اہل دل کو آنکھ کا سرمہ مل ہی جاتا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس کی پیشی کے درمیان وہ ایس۔ ایچ۔ او صاحب آ گئے جنہوں نے اس کی چارج شیٹ اپنے دستخط سے عدالت بھجوائی تھی جو اس کے جیل جانے کا باعث بنی ہوگی۔ یہ ہم سے پہلے کی بات ہے۔ گرفتاری یقیناً موبائیل گشت پر  ہوئی ہوگی سو ان کا واسطہ محض ایک فرد جرم سے تھا۔ جرم یہ تھا کہ ملزم کے پاس ہیرﺅئین کی ایک دس گرام کی پڑیا دستیاب ہوئی تھی۔

یقین جانیے سال بھر میں پہلی پیشی اس لیے ہوئی تھی کہ مجسٹریٹ کی شہرت بے رحم اور سرپھرے منصف کی تھی اور وہ عدالت کی حکم عدولی پر ایک دفعہ سندھ کے آئی جی عباس خان کو طلب کر بیٹھا تھا۔

ہم نے چھیڑا کہ جیل میں بہت مزے ہیں۔ ایسا اجلا لباس کہاں سے آیا؟۔ کہنے لگا میرا اپنا جوڑا تو جیل میں مشقت سے پھٹ گیا یہ ایک پھانسی کے سزا وار مجرم نے یہ کہہ کر دیاکہ مجھے تو جانے کب پھانسی لگے تو یہ پہن لے۔ پہلی پیشی ہے۔ اچھا لباس ہو تو اس کا ڈائیریکٹ آفیسر مجسٹریٹوں پر بھرم پڑتا ہے۔

پوچھا قصہ کیا تھا۔ کہنے لگا بس سے اترا۔ اڈے پر ایک دلال ملا۔ کوٹھے پر لے گیا۔ مائی ذرا مست تھی۔ پہلا چانس تھا۔ سیکس کی۔ نیچے ہوٹل پر کھانا کھایا۔ فرسٹ ٹائم والے سرور میں تھا باہر ایک آدمی نے ہیروئن کا سگریٹ بیچا دوسرا کش لیا تھا کہ موبائیل آگئی اور تھانے پر لے گئی۔ ایک سگریٹ کے دو کش سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا۔ صاحب بولو یہ بھی کوئی جرم ہے۔

 ہم نے ضابطہ فوجداری قانون کی دفعہ 382(بی) کے تحت عرصہ حراست کو سزا مان کر اس کی رہائی کا پروانہ جاری کیا تو عدالت میں خوشی سے اچھلنے لگا۔ بتا دیا کہ رہائی شام کو جیل سے ہوگی۔ نہ ہوئی تو کل سپرنٹنڈنٹ جیل اوکاش خود حاضر ہو گا۔

 اس کے جانے کے بعد پیش کار کو ایس ایچ او کو اندر بھیجنے کا کہا۔ شرمندہ کرنا چاہا کہ ایک سگریٹ کے پیچھے ایک نوجوان کی زندگی کا ایک سال ضائع کردیا۔ ہم بتاتے ہیں اس کے علاقے میں کون کیا جرم کرتا ہے۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ بڑوں کو نہیں گرفتار کر سکتے تو کیا چھوٹوں کو بھی معاف کر دیں۔ تھانے بند کر دیں۔ چند ماہ بعد ایس ایچ او کسی قاتلانہ حملے میں مارا گیا تو یہ مکالمہ بہت یاد آیا۔

آئیں عدالتوں اور انصاف میں کیا رکھا ہے۔ ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں کہ میرے رب کی پکڑ بہت شدید ہے۔ یہ اس دن کہیں گے کہ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے جب زمین اپنے سب پوشیدہ دفینے اگل دے گی۔ انہیں بتایا جائے گا کہ یہی تو وہ دن تھا جس سے تمہیں ہم نے باخبر کیا تھا

سورہ الزلزال-قرآن ال عظیم

یہ چمن یوں ہی پڑا رہے گا۔ ہم ماڈلز کی بات کریں تاکہ ایسا لگے کہ فیض کے بقول

بہار آئی تو جیسے یک بار

لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے

وہ خواب سارے

 شباب سارے

حشر ساماں سفرادی یہودن ماڈل رافئیلی بار کی کمیونٹی سروس کی سزا کی بات ہورہی۔ سو آگے چلیں برطانیہ کی دیکھا دیکھی اسرائیل اور امریکہ میں بھی کمیونیٹی سروس کی سزا مروج ہے۔

اسے امریکہ میںcommunity restitution  کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا کہ ایک فرد کے تکبر اور گھمنڈ کی وجہ سے جو غیر معمولی حرکت ہوئی ہے اس سے معاشرے اور فرد کو نقصان پہنچا ہے۔ جرمانے، جیل کے علاوہ اس گھمنڈی کو مزا چکھانے اور قانون کے سامنے اس کی اوقات یاد دلانے کے لیے اس سے کمیونٹی کی خدمت لی جائے۔ اس میں خیال رکھا جاتا ہے کہ سزا ایسی نہ ہو کہ جس سے بلاوجہ سختی کا شائبہ گزرے۔ وہ کام یا خدمت لی جائے جو غریب لوگ بہ حالت مجبوری بطور پیشہ سر انجام دیتے ہیں۔ یہ خدمت انجام دے کر ملزم میں احساس ندامت apologetic reparation کو اجاگر کیا جائے۔

1860  میں لارڈ میکالے نے جب وہ شہرہ آفاق The Indian Penal Code تن تنہا ڈرافٹ کیا جب کہ ہماری وزارت قانون تو ہمارے سپہ سالارکی ملازمت کا تین چار لائن کا توسیع نامہ ٹھیک سے ڈرافٹ نہ کر پائی۔ یہ ضابطہ قانون جو اب سے پونے دو صدی قبل لکھا گیا اب بھارت پاکستان سری لنکا نیپال پاکستان میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مروج ہے جب کہ ہمارا سرمایہ افتخار بہادر شاہ ظفر کی اداس غزلیں ہیں۔

 اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس نے یہ کمیونٹی سروس کو اس میں شامل نہ کیا تھا.

کمال کی بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے دونوں کے Penal Code. میں Section 53 موجود ہے جس میں اس کو بطور سزا شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ ہو کہ سرکار انگلشیہ کے سامنے مقامی معززین کی دو ٹکے کی وقعت نہ تھی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کا ایک  قریبی عزیز ایک دعوت میں مدعو تھا۔ یہ دعوت کمشنر بہادر کی جانب سے تھی۔ وہ ناہنجار ہال میں جوتوں سمیت داخل ہوگیا۔ دعوت کے اختتام پر اسے مجبور کیا گیا کہ وہ یہ جوتے بغل میں داب کر ہال سے باہر نکلے تاکہ سب کے سامنے اس کی اوقات عیاں ہو جائے۔

آئیں اس مضمون کو پھر اسی حوالے سے ایک ماڈل ہی کے قصے پر ختم کریں۔ مشہور سیاہ فام برطانوی ماڈل نیومی کیمبل امریکہ آئیں تو ایک دن ہڑبونگ میں اپنی پسندیدہ جینز ڈھونڈ رہی تھی۔ اپنی 42 سالہ ملازمہ سے پوچھا تو جواب پسند نہ آیا۔ سیل فون کھینچ کا مارا تو سر کے پیچھے جاکر لگا۔ چار ٹانکے آئے۔

عدالت میں پیش ہوئی۔ جرمانہ ہوا۔ معافی منگوائی گئی اور اس کے غصے کے اور تکبر کو قابو میں لانے کے لیے سزا کے طور پر نیویارک کے پبلک ٹوائلیٹس پانچ دن صاف کرائے گئے۔ بے چاری گھر سے قیمتی گاﺅنز پہن کر گھر سے نکلتی۔ جمعداروں کا لباس پہنتی اور وائپر اور بروم لے کر میڈونا کے مشہور گیت گنگناتی۔

پاکستان میں بھی آپ نے بہت سے بڑوں کی بگڑی اولادوں اور بے ہنگم بیگمات کو سڑک پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر تعلقات کی پھڑیں مارتے دیکھے ہوگا وقت آگیا ہے کہ ان وکلا سے جو ہسپتالوں میں بدمعاشیاں کرتے ہیں اور وہ امرا جن کی شیخی سمائے نہیں سماتی انہیں ان عدالتوں میں جہاں وہ پیش ہوتے ہیں فرش صاف کرنے کی سزا دی جائے یا ان وکیلوں کو جنہوں نے مریضوں کے منھ پر آکسیجن اور رگوں سے خون سپلائی کی نلکیاں کھینچی تھیں انہیں اسی ہسپتال میں فرش کی دھلائی صفائی پر لگا دیا جائے۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments