زہرہ یعقوب: لاہور کی سوشل میڈیا انفلوئنسر جن کی بیماری کا ڈاکٹروں نے بھی مذاق اُڑایا

عمردراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


زہرہ
وہ پیدا ہوئیں تو اُن کی ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر جوڑتے تھے مگر وہ ہلکے سے دباؤ سے ہی دوبارہ ٹوٹ جاتی تھیں۔

زہرہ یعقوب کی زندگی کے ابتدائی دن کچھ اسی تکلیف اور اذیت میں گزرے۔

پھر ڈاکٹروں نے اُن کی والدہ کو بتا دیا کہ اس بچی کی ہڈیاں انتہائی کمزور ہیں اور یہ کہ شاید وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ پائیں۔ سال گزرتے گئے، زہرہ ذہنی طور پر تو بڑی ہوتی گئیں لیکن اُن کے جسم کی نشوونما عمر کے مطابق نہیں ہو رہی تھی۔

کوئی پیار سے انھیں اٹھا کر کھڑا کرنے کی کوشش کرتا تھا اور وہ اپنی ٹانگوں پر دباؤ دیتی تھیں اور ان کی ٹانگ کی کوئی نہ کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی تھی۔

زہرہ کی والدہ فوراً انھیں لے کر ہسپتال کی طرف دوڑ پڑتیں۔ ڈاکٹر ہڈی جوڑ دیتے اور انھیں وقتی طور پر آرام آ جاتا۔ تاہم ڈاکٹروں کے پاس ایسا کوئی علاج نہیں تھا کہ وہ زہرہ کی ہڈیاں مستقل طور پر ٹوٹنے سے بچا پائیں۔

ان کی والدہ کھل کر نہیں بتا پاتیں تاہم انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جو علامات بتائیں اور جو ڈاکٹروں سے انھیں معلوم ہوا تھا کہ اس کے مطابق زہرہ کو ایک جینیاتی بیماری لاحق تھی جس کا علاج ممکن نہیں تھا۔

’برٹل بون‘ نامی اس بیماری میں مریض کے جسم کی ہڈیاں اس قدر کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی نشوونما نہ ہونے کے برابر رہتی ہے اور وہ ہلکے سے دباؤ سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

زہرہ یعقوب کے ساتھ تقریباً پہلے نو برس تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ پھر ان کے ہاتھوں پیروں کی ہڈیاں ٹوٹنی رُک گئیں یا یوں کہیے کہ انھوں نے کسی حد تک کمزور ہڈیوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔ تاہم بات صرف ہاتھوں پیروں تک محدود نہیں تھی۔

زہرہ

ان کا جسم مجموعی طور پر نشوونما نہیں پا رہا تھا۔ ان کا قد نو، دس برس کی عمر تک بھی بمشکل ایک فٹ کے قریب تھا۔ کئی دفعہ ٹوٹنے اور جڑنے کی وجہ سے ان کی ٹانگیں نہ تو سیدھی ہو سکتی تھیں اور نہ ہی حرکت کر سکتی تھیں۔

ان کی چھاتی کی ہڈیاں نہ بڑھنے اور ٹوٹنے کی وجہ سے انھیں سانس لینے میں دقت ہوتی تھی۔ ساتھ ہی انھیں معدے کی تکلیف کا سامنا رہتا تھا۔

ان کی والدہ انھیں ایک سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی رہیں کہ شاید کوئی ان کو تکلیف سے مکمل نجات دلا سکے۔ لیکن زیادہ تر ایسی جگہوں سے انھیں سرد مہری یا پھر ٹکا سا جواب ملتا تھا۔

ایک ڈاکٹر نے انھیں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’بی بی تم کیا یہ لوتھڑا اٹھا کر لے آتی ہو۔ اس نے نہیں بچنا۔‘

یہ سُن کر ان کی والدہ کی آنکھیں بھی بھر آئیں اور انھیں غصہ بھی آیا۔ انھوں نے ڈاکٹر کو جواب دیا کہ ’جسے تم آج لوتھڑا کہہ رہے ہو، ایک دن یہ ایک کامیاب انسان بنے گی۔‘

کوئی کہتا تھا اسے ہاتھی کے انڈے کھلاؤ

زہرہ

کچھ ڈاکٹر ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ ’کوئی کہتا تھا اس کو ہاتھی کے انڈے کھلاؤ۔ کوئی کہتا تھا بی بی کیا تم روز اس کو اٹھا کر لے آتی ہو۔ اس نے زیادہ دن زندہ نہیں رہنا، کیوں اس پر پیسے ضائع کر رہی ہو۔‘

ان کی والدہ نے لوگوں کی باتوں پر زیادہ کان نہیں دھرا اور زہرہ بھی ہمت کرتی رہیں۔ ان کے والد سرکاری ٹی وی میں ملازم ہیں۔ ایک بھائی اعلٰی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ زہرہ کی تعلیم کے لیے بھی ان کے والدین نے ہمیشہ گھر پر ان کے لیے استانیوں کا بندوبست کیا۔

ان دنوں وہ لاہور کے کنٹونمنٹ کے علاقے میں ایک چھوٹے سے دو کمرے کے مکان میں رہتی ہیں۔ گھر کے مرکزی کمرے میں ایک بڑے سے پلنگ پر زہرہ لیٹی ہوتی ہیں یا اٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ چل نہیں سکتیں۔ پلنگ کے ساتھ ہی ان کی ایک ویل چیئر کھڑی ہوتی ہے۔

اسی پلنگ پر ان کے میک اپ کا سامان ایک کونے میں رکھا ہوا تھا اور پاس ہی دیوار پر ایک آئینہ نصب تھا جس پر چھوٹے چھوٹے کئی بلب لگے ہیں۔

زہرہ یعقوب موبائل فون ہاتھ میں تھامے اپنی انگلیوں سے سکرین کو حرکت دیتے اپنے انسٹاگرام کو دیکھ رہی تھیں۔ انھوں نے کچھ ہی دیر قبل اپنی ایک ویڈیو اور چند تصاویر اپنے پبلک اکاؤنٹ پر پوسٹ کی تھیں۔ انسٹاگرام پر ان کو فالو کرنے والوں کی تعداد 46 ہزار سے زیادہ ہے۔

اب وہ ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں۔ یعنی کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کے حوالے سے ان کے خیالات اہم ہیں کیونکہ وہ ہزاروں لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ کئی کمپنیاں انھیں تجزیے کے لیے اپنی مصنوعات بھجواتی ہیں۔

لیکن زہرہ نے یہ کیسے ممکن بنایا تھا؟ وہ کیسے اپنی بیماری کے ساتھ بھی لڑ رہی تھیں اور ہزاروں لوگوں تک بھی پہنچ رہی تھیں؟

بیماری نے زندگی کتنی مشکل بنائی؟

زہرہ

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زہرہ یعقوب نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں ان کو سانس لینے میں تکلیف زیادہ ہو جاتی تھی۔اس کا علاج وہ ایک نجی ہسپتال کے ڈاکٹر سے کرواتی تھیں۔

ایک دن جب وہ ڈاکٹر کے پاس کلینک پر پہنچیں تو انھوں نے زہرہ کو باہر نکالنے کا کہہ دیا۔ ’انھوں نے کہا اس لڑکی کو یہاں سے نکالو، اسے کیوں لے آتے ہو میرے کلینک پر، اس کی ویل چیئر سارا کلینک خراب کر دیتی ہے۔‘

زہرہ یہ اور اس طرح کے کئی دوسرے مواقع پر پیش آنے والے رویے دیکھتی تھیں اور وہ ان کے ذہن میں رہ جاتے تھے۔ ان سے وہ جو سیکھتی تھیں وہ بھی ان کے ذہن میں رہتا تھا۔ انھیں یاد ہے ایک مرتبہ انھیں ایک انجیکشن کا نشہ ہو گیا تھا تو وہ اپنی والدہ سمیت ہر شخص پر چلاتی تھیں۔

ایسے محسوس ہوتا تھا میرا جسم ٹوٹ رہا ہے

اپنی بیماری کی وجہ سے انھیں اکثر معدے کی تکلیف رہتی تھی۔ انھیں السر ہو جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی طرح السر کے ساتھ انھیں گیارہ دن ہسپتال میں داخل رہنا پڑا تھا۔ اس دوران انھیں ایک انجیکشن دیا جاتا تھا جس کی وہ اس قدر عادی ہو گئیں کہ گھر واپس پہنچنے کے بعد جب وہ انھیں نہیں ملتا تھا تو وہ چیختی تھیں۔

’مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میرا جسم ٹوٹ رہا ہے۔ میں اماں پر چلاتی تھی کہ مجھے وہ انجیکشن لگواؤ۔ میری والدہ بڑے صبر کے ساتھ مجھے سمجھاتی تھیں۔ کبھی باہر لے کر چلی جاتی تھیں کہ میرا دھیان بٹے۔ بڑی مشکل سے میری اس سے جان چھوٹی تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

‘میرے درد کو سب لوگ تماشے کا نام دیتے تھے’

’دونوں بازو، ٹانگ کٹ گئی تو میں نے سوچا کیا وہ مجھے چھوڑ دے گی؟‘

’ڈاکٹروں نے کہا اس کے ہاتھ، پیر نہیں اسے پیٹ میں ہی ضائع کروا دیں‘

تکالیف سے ایسے ہی لڑتے لڑتے زہرہ کی زندگی کے 23 برس بیت چکے ہیں۔ ان کا قد آج بھی ایک فٹ سے محض چند انچ زیادہ ہے۔ لیکن ان کی ذہنی نشونما بالکل ان کی عمر کے مطابق ہوتی رہی ہے۔ ان کی مشاہدے کی صلاحیت بہت اچھی ہے۔

میں کہتی ہوں یہ توبہ آپ نے مجھ پر کی ہے یا اللہ کی ذات پر

اکثر جب زہرہ اپنی والدہ کے ساتھ ویل چیئر پر باہر جاتی ہیں تو کچھ لوگ انھیں دیکھ کر ‘توبہ استغفار’ کہہ دیتے ہیں۔ زہرہ کا موڈ اچھا ہو تو وہ درگزر کر دیتی ہیں، نہ اچھا ہو تو اس شخص کو روک لیتی ہیں۔

’میں کہتی ہوں یہ توبہ آپ نے مجھ پر کی ہے یا اللہ کی ذات پر کی ہے کیونکہ بنانے والی تو اللہ کی ذات ہے۔ اسی نے مجھے بھی بنایا اور آپ کو بھی۔‘

ایسے واقعات اور تجربات نے زہرہ کو جو باتیں سکھائی ہیں وہ ان کو موضوع بناتے ہوئے ویڈیوز ریکارڈ کرتی ہیں اور اپنے انسٹاگرام پر اپنے فالوورز کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اس حوالے سے بات ہونی چاہیے۔

انھیں اس وقت بہت بُرا لگتا ہے جب لوگ انھیں ’معذور‘ کہتے ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین نے انھیں نام دیا ہے جو ان کی شناخت ہونا چاہیے۔ لیکن معاشرے میں لوگ ان جیسے افراد کی ظاہری کمیوں کو ان کی شناخت بنا دیتے ہیں۔

’میں آنے والی نسلوں سے کہوں گی کہ وہ اپنے ایسے بچوں کے نام ہی ان کی کمی پر رکھ دیں تا کہ کم از کم انھیں یہ تو احساس ہو کہ انھیں ان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘

اس طرز کی رہنمائی کرنے والی گفتگو پر مبنی ویڈیوز کے علاوہ زہرہ کے اکاؤنٹ پر زیادہ تر مواد ان کی میک اپ آرٹ پر مبنی تصاویر اور ٹک ٹاک ویڈیوز ہیں۔

چڑیل کہہ دیتے ہیں۔۔۔ میک اپ آرٹ تو ایسا ہی ہوتا ہے

زہرہ

میک اپ آرٹ کی تصاویر میں زہرہ چہرے پر میک اپ لگائے مختلف انداز میں نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’میک اپ آرٹ ہے ہی ایسا، معمول سے ہٹ کر۔‘ اپنے پلنگ کے ساتھ نصب آئینے کی مدد ہی سے زیادہ تر وہ خود ہی میک اپ کر لیتی ہیں۔

کبھی وہ کالی لپ سٹک لگائے نظر آتی ہیں تو کبھی ان کی ایک آنکھ کا رنگ دوسری سے مختلف ہوتا ہے۔ اس پر بعض لوگ سوشل میڈیا پر انھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ’چڑیل کہہ دیتے ہیں۔۔۔ شٹ اپ کہہ دیتے ہیں۔ انھیں پتہ نہیں کہ میک اپ آرٹ ہے، یہ تو اسی طرح کا کا ہوتا ہے۔‘

تاہم زہرہ کے مطابق ان کی ہر تصویر ’ٹرینڈنگ‘ میں جاتی ہے اور ہزاروں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ ان کی لوگوں تک اسی ‘پہنچ’ کی وجہ سے ان کا شمار سوشل میڈیا انفلوئنسرز میں ہوتا ہے۔

زندہ رہنے کی کشمکش سے سوشل میڈیا انفلوئنسر تک کا سفر

یہی وجہ ہے کہ بہت سے میک اپ، فیشن اور سٹائل کے برانڈز انھیں اپنی مصنوعات بھیجتے رہتے ہیں تا کہ وہ ان کا ریویو یا تجزیہ اپنے فالوورز تک پہنچ سکیں۔ ان کی والدہ از راہِ مذاق انھیں کہتی رہتی ہیں کہ ’ماں غریب ہے اور بیٹی امیر ہو گئی ہے۔‘

زہرہ کے مطابق ابتدا میں جب ان کا ذاتی اکاؤنٹ تھا تو انھوں نے اس پر اپنی تصاویر لگانی شروع کیں۔ لوگوں نے ان کے میک اپ والی تصاویر میں دلچسپی لینا شروع کی۔ تاہم اس وقت تک ان کو فالو کرنے والوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ زہرہ ویل چیئر پر تھیں اور انھیں کیا بیماری لاحق تھی۔

پھر انھوں نے اپنا اکاؤنٹ پبلک بنانے کے فیصلہ کیا یعنی ہر شخص اسے دیکھ سکتا تھا تو ساتھ ہی انھوں نے اپنے فالوورز کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ ویل چیئر پر تھیں۔ زہرہ کہتی ہیں اس کے بعد ان کے فالوورز میں زیادہ اضافہ ہوا۔

زہرہ

اس کے بعد اپنی ’انسٹا فیملی‘ سے رابطے میں رہنا ان کا معمول بن گیا۔ وہ باقاعدگی سے اپنے اکاؤنٹ پر تصاویر اپ لوڈ کرتی ہیں اور ویڈیوز بھی ڈالتی رہتی ہیں۔ اب انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے فون کا کیمرہ زیادہ اچھا نہیں ہے تاہم نیا فون خریدنے کی تاحال ان کی استطاعت نہیں ہے۔

ان کی سوشل میڈیا پر مقبولیت کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ نے بھی ان کی کہانی پر رپورٹیں بنائی ہیں اور ان کے ساتھ انٹرویوز بھی کیے جا چکے ہیں۔

حال ہی میں ان کے پاس روزانہ کی بنیاد پر انٹرویوز کے لیے درخواستیں آ رہی تھیں جن میں زیادہ تر کو وہ انکار نہیں کرتی تھیں۔ ان کو وقفہ اسی روز ملتا ہے جس دن ان کی طبیعت ٹھیک نہ ہو یا وہ تھک جائیں۔ زیادہ دیر بیٹھنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔

میں اس ڈاکٹر کو بتانا چاہتی ہوں۔۔۔ آج میں وہی ہوں جو میری مما نے کہا تھا

زہرہ کو مثبت اور حوصلہ افزا بات چیت کرنے کا شوق ہے۔ وہ منیبہ مزاری سے بہت متاثر ہیں۔ منیبہ مزاری ایک پبلک سپیکر ہیں جو ایک حادثے کے نتیجے میں مستقل ویل چیئر پر آ گئی تھیں۔ زہرہ بھی پبلک سپیکر یا موٹیویشنل سپیکر بننا چاہتی ہیں۔

’میرے سامنے ڈھیر سارے لوگ ہوں۔ وہ مجھ سے سوال پوچھیں اور میں ان کا جواب دوں۔ مجھے بہت شوق ہے۔‘

مزید پڑھیے

’ساتھیوں کے طنزیہ چہروں کو برداشت کیا مگر مستقبل کے بارے میں پُرعزم رہا‘

’معذوری ہی زندگی نہیں، زندگی کا حصہ ہے‘

’ٹانگیں کام نہیں کرتیں تو رکشہ کیسے چلاتے ہو‘

زہرہ کو معلوم ہے وہ کبھی اپنے پیروں پر چل نہیں سکیں گی لیکن ایسا نہیں کہ ان کا دل ہی نہیں چاہتا۔ جب کبھی ان کا چلنے کا شدت سے دل چاہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر کے تصور کر لیتی ہیں۔ ’میں سوچ لیتی ہوں کہ ویل چیئر خود چلا رہی ہوں یا میرے قدم زمین پر ہیں اور میں آگے کو بڑھ رہی ہوں۔‘

نہ ہی وہ اپنی مشکلات پر شکوہ کرتی ہیں اور نہ ہی اپنی بیماری کو یاد کر کے ان کی آنکھیں چھلکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اللہ تعالٰی نے کہا کہ آخری سانس تک لڑو۔‘ جب ان کا ارادہ کبھی کمزور ہونے لگے تو ’میں کہتی ہوں یا اللہ تیرے حوالے۔ تو نے کہا ہے نہ کہ آخری سانس تک لڑنا ہے تو بس پھر لڑنا ہے۔‘

زہرہ یعقوب ان ڈاکڑوں سے بھی ملنا چاہتی ہیں جنھوں نے ان کی والدہ کو کہا تھا کہ ’یہ کیا لوتھڑا اٹھا کر لے آتی ہو۔‘ وہ کہتی ہیں انھیں نہیں معلوم کہ آج وہ زندہ ہیں یا نہیں۔

اگر زندہ ہیں تو میں ضرور ’انھیں ملنا چاہوں گی کہ میں وہی ہوں جس کے بارے میں انھوں نے ایسی بات کی تھی اور آج میں وہی بن گئی ہوں جو میری مما نے کہا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp