طالبان کی واپسی پر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین اور طلبہ کیا کہتے ہیں؟


پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین اور طلبہ پُر امید ہیں کہ طالبان ماضی کے برعکس اب افغانستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں نہیں ڈالیں گے۔

اسلام آباد کے علاقے پشاور موڑ میں تندور پر کام کرنے والے افغان مہاجر زبیر خان کا خاندان گزشتہ 40 برس سے پاکستان میں ہی مقیم ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان نے 80 کے عشرے میں افغانستان پر روسی یلغار کے بعد پاکستان میں ہجرت کی تھی۔ اگرچہ وہ خود پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں تاہم ان کے آباؤ اجداد کا تعلق صوبے لغمان سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چار دہائیوں کی مسلسل جنگ کے باعث وہ اپنے آبائی وطن نہیں جا سکے۔ تاہم اب وہ پُر امید ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا جس کے بعد ان کی واپسی کی راہ ہموار ہو گی۔

یاد رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل اور صدارتی محل پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے تاہم کابل میں روزمرہ زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے اور صورتِ حال غیر یقینی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اس وقت پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں نو لاکھ 80 ہزار افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے جب کہ آٹھ لاکھ سے زائد بغیر کسی دستاویز کے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔

علاوہ ازیں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں افغان طلبہ یہاں کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔

’اس بات سے غرض نہیں کہ کون آ رہا ہے، ہمیں افغانستان میں صرف امن چاہیے‘

اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم افغانستان کے صوبے بدخشان سے تعلق رکھنے والے عبدالواجد کریمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں گزشتہ 40 برس سے شورش ہے۔

ان کے بقول جنگ کے باعث افغانستان مکمل طور پر کھنڈر بن چکا ہے اور عوام لڑائی سے عاجز آ چکے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔

عبدالواجد کریمی کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے، انہیں افغانستان میں صرف امن چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سوشل میڈیا کی پوسٹس کو دیکھا جائے تو فی الحال صورتِ حال اطمینان بخش ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرز کی خون ریزی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے جیسا کہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد دیکھی گئی تھی۔

اسحاق زاہدی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برس میں افغانستان میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے۔
اسحاق زاہدی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برس میں افغانستان میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے۔

’گزشتہ 20 برس میں افغانستان میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے‘

انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے طالبِ علم محمد اسحاق زاہدی کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ملک کے طول و عرض میں لڑائی جاری تھی اور ہر طرف خطرات تھے۔

ان کے بقول اب وہ امید کرتے ہیں کہ اب جب کہ تمام بیرونی طاقتیں افغانستان سے نکل رہی ہیں اور طالبان کابل پر قابض ہو چکے ہیں تو لڑائی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اسحاق زاہدی نے مزید بتایا کہ گزشتہ 20 برس میں افغانستان میں ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے۔ اس لحاظ سے افغانستان کا مستقبل تابناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا اگر طالبان یہاں کی نوجوان نسل کو تعلیم، صحت و روزگار کے حصول سے نہ روکیں، لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار میں کوئی روڑے نہ اٹکائیں اور اپنی پرانی سوچ میں جدت پیدا کریں۔

یاد رہے کہ طالبان قیادت نے ماضی کے برعکس خواتین کی تعلیم اور اُنہیں گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت کے حوالے سے اپنے مؤقف میں نرمی کے اشارے دیے تھے۔ تاہم ناقدین کہتے ہیں اس حوالے سے طالبان کی پالیسی میں اب بھی ابہام پایا جاتا ہے۔

سمیع اللہ صابر طالبان سے اپیل کرتے ہیں کہ افغان عوام کو تعلیم اور روزگار سے محروم نہ کریں۔
سمیع اللہ صابر طالبان سے اپیل کرتے ہیں کہ افغان عوام کو تعلیم اور روزگار سے محروم نہ کریں۔

’نوجوان نسل اگر پھر مایوس ہوئی تو افغانستان تاریکی میں چلا جائے گا‘

اسلام آباد میں مقیم صوبہ بدخشان سے تعلق رکھنے والے ایک اور طالب علم سمیع اللہ صابر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 20 برس میں دنیا نے بہت ترقی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام نے بھی جدت کی نئی منزلیں طے کی ہیں، وہ طالبان سے اپیل کرتے ہیں کہ افغان عوام کو تعلیم اور روزگار سے محروم نہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ طالبان سے یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ نوجوان نسل کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ انہوں نے ترقی کی جو منزلیں طے کی ہیں انہیں اپنی منزلیں طے کرنے دی جائیں بصورتِ دیگر افغانستان تنہائی کا شکار ہو جائے گا کیوں کہ افغانستان کی ترقی کا راز اس کی نوجوان نسل میں ہے۔

سمیع اللہ صابر کا کہنا ہے کہ اگر نوجوان نسل حالات کی وجہ سے ایک بار پھر بکھر گئی تو افغانستان ایک بار پھر مکمل تاریکی میں چلا جائے گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments