پیسے دے کر جہاد کروا لو!


افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ آج سے نہیں صدیوں سے ان کی یہی ریت رہی ہے۔ آپ نے پاکستان کے کسی بھی شہر کے مین چوک یا بازار میں فٹ پاتھ پر بیٹھے مزدور دیکھے ہوں گے جن کو لوگ اپنے گھر میں مزدوری کے لیے، لے جاتے ہیں اور اس طرح مزدور کو مزدوری مل جاتی ہے اور لوگوں کا کام بھی ہوجاتا ہے۔ اور یہی ان مزدوروں کا روزگار ہوتا ہے۔ اور یہی ان کی مہارت ہوتی ہے۔ اسی طرح افغانستان بھی سنٹرل ایشیاء کا چوک ہے جہاں افغان جنگجو افغانستان کے چوک پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ جو چاہے ان کو اجرت دے کر کسی کو قتل کروا دے یا ان کی فوج بنا کر کسی دشمن پر چڑھ دوڑے۔

آپ تاریخ پر نظر دھرائیں تو جتنے بھی سنٹرل ایشیاء سے حملہ آور آتے تھے۔ جس میں زیادہ تر مسلمان حملہ آور ہی شامل ہوتے تھے جیسے محمود غزنوی، مغل، تیمور لنگ وغیرہ یا مقامی قبائلی جو جنگ و جدل کے ماہر ہو جاتے تھے جیسے احمد شاہ ابدالی وغیرہ وہ اپنے جتھے بنا کر برصغیر پاک و ہند پر حملے شروع کر دیتے تھے اور قتل عام کے بعد خوب لوٹ مار کر کے واپس چلے جاتے تھے اور ان حملوں میں جہاں سنٹرل ایشیائی حکمرانوں یا بعد میں افغانی سرداروں کو بہت سال مال ہاتھ آتا تھا وہاں مقامی افغان مزدور فوجیوں کو بھی کافی اچھی اجرت مل جاتی تھی۔

اور پھر صدیوں کی پریکٹس کے بعد اب افغانی بھی ٹرینڈ ہوچکے ہیں اور ان کو چونکہ صرف قتل و غارت کا ہی ہنر آتا ہے اور ان کا روزگار اور روشن مستقبل بھی اسی قتل و غارت میں پنہاں ہے۔ لہذا وہ اب تک اسی ہنر سے اپنے روزگار کو خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں۔ ہاں! مگر اب انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ حکمت عملی بدل لی ہے۔ اب یہ اپنی قتل و غارت کا ہنر دو گروہوں میں تقسیم ہو کر بیچتے ہیں ایک وہ گروہ جو حکومت کے ساتھ ہوتا ہے دوسرا وہ گروہ جو حکومت کا مخالف ہوتا ہے۔

دور نہیں جاتے روس نے حملہ کیا تو ایک گروہ روس کے ساتھ مل گیا جبکہ دوسرا گروہ امریکہ یورپ اور عرب ممالک کی مالی معاونت و پشت پناہی اور پھر پاکستانی جرنیلوں کی بھاری معاوضوں پر مشاورت اور سستے انسانی وسائل کی فراہمی کرنے پر مجاہد بن گیا۔ بس پھر کیا تھا اب دونوں گروہ، ایک وہ جو روس کے ساتھ تھا اور دوسرا وہ گروہ جو امریکہ کے ساتھ تھا دونوں نے جہاد کے نام پر خوب کمائی کی۔ پاکستانی جرنیلوں نے بھی اپنی خوب جیبیں بھریں اور جب روس معاشی طور پر امریکہ کے ساتھ سرد جنگ کے نتیجے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور غیر ملکی فوجیں، افغانستان سے نکل گئیں تو پھر افغان دھڑے آپس میں لڑنے لگے۔ کیونکہ ان کو کام جو یہی آتا تھا۔ پھر طالبان ان افغان دھڑوں کے خلاف لائے گئے تو شمالی اتحاد وجود میں آ گیا۔ کام دونوں کا ایک ہی تھا کہ ایک دوسرے کو اسلام کے نام پر قتل کرنا۔ اور اپنی اجرت وصول کرنا۔

مگر اب پیسے دینے والوں کے افغانی مزدور بھی بدل گئے تھے۔ اب شمالی اتحاد امریکہ کی مدد سے حکمران بنا اور طالبان کو امریکہ کی مدد سے نکال باہر کیا گیا تو پھر شمالی اتحاد نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے افغان قوم کے نام پر خود پیسہ بنایا اور دوسرا گروہ مخالفین کا یعنی طالبان کا نمودار ہو گیا۔ کام وہی ایک دوسرے کو قتل عام۔ اب اشرف غنی گروہ تو لوٹ لاٹ کر ملک سے فرار ہو گیا اور پھر طالبان آ گئے اب یہ بھی اپنی کمائی کا ذریعہ اسلام کے نام پر قتل عام اور مال غنیمت بنائیں گے، اس میں کافی رقم ریمٹنس کے نام پر پاکستان سے ڈکیتیوں، اغواء برائے تاوان اور بھتہ کے نام پر بھی جائے گی۔ نشہ آور مصنوعات کی ترسیل کی اہم کمائی الگ ہوگی کیونکہ کافر ممالک کو نشہ کروا کروا کر مارنا ہے۔ پھر دیکھیے گا کہ ان کا مخالف گروہ بھی آئے گا جو ان سے بھی بدتر قتل و غارت میں ماہر ہوگا۔ تو وہ اپنی مہلک خاصیت کو اپنا روزگار بنا کر بیچے گا ؛ اور پھر ان کا بھی روزگار جاری رہے گا۔

اب ظاہر ہے کہ طالبان نے کوئی سیلیکون سٹی تو تعمیر نہیں کرنے بلکہ یہ وہی خود کش حملوں، بم دھماکوں کی فیکٹریاں اور کٹے سروں کے مینار ہی بنائیں گے اور کیوں انکو یہی کام تو آتا ہے۔ وہ بھی اسلام کے نام پر۔ اب جو جو ملک اس سے متاثر ہوگا وہ پھر حرکت میں آئے گا اور اس پر چڑھ دوڑے گا اور پھر یہی لاشوں کا کاروبار عروج و زوال کے منہج پر چلتا رہے گا۔ اور ہمارے ملک میں اوریا مقبول یا رستم مہمند جیسے طالبان کے قصیدہ خواں، ان کو حضرت خالد بن ولید ثانی اور پتہ نہیں کیا کیا القابات دے دے کر غزوہ ہند کی بشارتیں دیتے رہیں گے۔

لہذا گھبرانے کی ضرورت نہیں بس اپنا ملک سدھاریے۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے وہ صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور وہ اپنا کاروبار کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments