کابل ہوائی اڈے پر بے یقینی میں گھرے پاکستانی: ’قسمت تھی کہ بچ گئے‘

محمد زبیر خان - صحافی


کابل
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر گذشتہ روز سے انتہائی افراتفری ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر تمام کمرشل اور مسافر بردار طیاروں کی آمد و رفت بند ہے تاہم امریکہ اور دیگر ممالک کے جنگی طیارے اپنے سفارت خانوں اور شہریوں کو بحفاظت واپس لے جانے کے لیے پروازیں کر رہے ہیں۔

پاکستان واپسی کے لیے کابل ایئر پورٹ پر گذشتہ روز سے کئی پاکستانی مرد و خواتین اور ان کے خاندان بھی موجود تھے۔ ان پاکستانی شہریوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہم لوگوں نے ایئرپورٹ پر قیامت کے مناظر دیکھے ہیں۔ کئی کئی مرتبہ فائرنگ ہوئی، بھگڈر مچی رہی تھی۔ لوگوں نے رن وے قبضہ کر رکھا تھا۔ کئی لوگ امریکن طیاروں سے چمٹ رہے تھے۔

پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ایئر پورٹ پر فائرنگ سے کم از کم تین پاکستانی زخمی ہوئے ہیں۔

قسمت تھی کہ بچ گے

ایک پاکستانی شہری نے جو کہ کابل کی ایک یونیورسٹی میں خدمات انجام دیتے ہیں بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ سوموار کے روز پی آئی اے کا ایک طیارہ کابل ایئر پورٹ پہنچے گا۔ جس وجہ سے ہم لوگ دو گروپوں کی صورت میں علی الصبح کوئی پانچ، ساڑھے پانچ بجے کے قریب کابل ایئر پورٹ پر پہنچ گے تھے۔

ہم لوگ ابھی کابل ایئر پورٹ کے داخلے کے مرکزی گیٹ ہی پر پہنچے تھے کہ افغان فوج کے زیر استعمال گاڑیوں میں سفید جھنڈے لگائے طالبان نے ایئر پورٹ کے مرکزی گیٹ پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے آتے ہی دیکھے سنے بغیر گیٹ بند کردیا۔ وہاں پر مسلح لوگ تعنیات کردیے تھے۔

داخلے کا مرکزی راستہ بند ہونے کے بعد ہم لوگ یک دم ہی باہر نکلنے والے گیٹ پر پہنچے کہ وہ ابھی کھلا تھا۔ اس راستے سے ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو کابل ایئر پورٹ کے مناظر دیکھنے کے قابل نہیں تھے۔ ہزاروں لوگوں کا ہجوم اکھٹا تھا۔

اس ہجوم میں بچے، عورتیں، بوڑھے، مرد سب شامل تھے۔ ان سب لوگوں کا رخ رن وے کی طرف تھا۔ رن وے پر ہزاروں لوگ موجود تھے۔ یہ لوگ امریکن جنگی جہازوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ ان لوگوں سے فاصلے پر امریکن فوجی بھی موجود تھے۔ یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم نے افغانستان نہیں رکنا۔ کچھ بھی ہوجائے ہم لوگ ان جہازوں میں سوار ہو کر افغانستان سے باہر جائیں گے۔

اسی دوران ہم لوگ تیزی کے ساتھ لاونچ میں بڑھتے ہوئے پی آئی اے کے کاؤنٹر پر پہنچ گے۔ وہاں پر پی آئی اے کا عملہ موجود نہیں تھا۔ پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتایا کہ کابل ایئر پورٹ پر طیارہ نہیں اتر سکتا ہے۔ ہم لوگ اپنے اپنے مقامات پر واپس جائیں اور آئندہ کا انتظار کریں۔

اس دوران وہاں پر لوٹ مار شروع ہو چکی تھی۔ لوگ لاونج میں موجود دکانوں میں لوٹ مار کر رہے تھے۔ کوئی بھی سکیورٹی نہیں تھی۔ یہ سلسلہ کوئی تین گھنٹے تک چلا۔ اتنی دیر میں چند طالب وہاں پہنچے اور بجائے اس کے کہ وہ حالات کو احسن طریقے سے کنٹرول کرتے انھیں پتا نہیں کیا ہوا کہ انھیں نے اپنی گن کو زمین کی طرف کر کے فائر کر دیا۔

کابل

یہ گولیاں زمین سے لگ کر اٹھیں اور اردگرد لوگوں کو لگنا شروع ہوگئیں تھیں۔ کئی گولیاں ہمارے ہاس سے گزر کر گئیں۔ ایک گولی ہماے ساتھی کو پاؤں پر بھی لگی اور وہ زخمی ہوئے مگر زیادہ نقصاں نہیں پہنچایا۔ اسی طرح ہمارے ایک اور ساتھی کو بھی گولی لگی تھی۔ جس کے بعد وہاں پر نا قابل بیان بھگڈر مچ گئی تھی۔ کئی منٹ تک فائرنگ ہوتی رہی تھی۔

ایک اور پاکستانی جو کہ گذشتہ روز سے کابل ایئر پورٹ پر موجود تھے نے بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ روز جب یہ پتا چل گیا کہ پی آئی اے کی دو پروازوں میں جگہ موجود نہیں ہے اور ممکنہ طور پر آج ہمیں کسی پرواز میں جگہ ملنے کا مکان ہے تو میں نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ فیصلہ کیا کہ ہم ایئر پورٹ ہی پر رہتے ہیں پتا نہیں دوبارہ راستے کھلے ہوں کہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز جب لوگوں نے سنا کہ امریکن جنگی جہاز اپنے عملے کو لینے کے لیے پہنچ رہے ہیں تو لوگوں کا ہجوم یک دم ہی شام کے وقت سے ایئر پورٹ پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔ ایئر پورٹ پر کوئی سکیورٹی تو موجود نہیں تھی کہ کوئی ان کو روکتا۔ ایک شخص جب ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہوجاتا تو وہ اپنے رشتہ داروں کو بھی فون کرتا کہ پہنچ جائیں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ رن وے پر اکھٹے ہوگے تھے۔ یہ لوگ خالی ہاتھ تھے۔ بس یہ ہی کہتے جارہے تھے کہ امریکن خود جارہے ہیں تو ہمیں بھی ساتھ لے کر جائیں۔

کابل ایئر پورٹ پر کوئی بھی انتظامات نہیں تھے۔ باتھ روم گندگی سے بھر چکے تھے۔ پانی تک بھی دستیاب نہیں تھا۔ ہم لوگوں نے کسی نہ کسی طرح ایئر پورٹ پر بھوکے اور پیاسے وہ رات گزاری تھی۔

کابل

جب صبح ہوئی تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ کوئی چھ بجے کے قریب ہمیں پتا چلا کہ طالبان ایئر پورٹ کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں جبکہ رن وے پر امریکن فوجی موجود تھے۔ سات بجے کے قریب سے ایئر پورٹ کے گیٹ پر سے فائرنگ شروع ہوئی۔

اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد رن وے پر سے بھی فائرنگ ہوئی۔ گیٹ پر غالبا طالبان فائرنگ کررہے تھے۔ یہ فائرنگ ہوائی تھی یا نہیں ہمیں سمجھ نہیں آئی مگر رن وے پر سے ہوائی فائرنگ ہورہی تھی یہ غالبان امریکی فوج تھی۔ جس سے بھگڈر مچ گئی تھی۔ کیا ہو رہا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔

ہم لوگ بس ایک جگہ پر دبک کر بیٹھ گے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے پاؤن تلے کچلے جائیں۔ اس دوران ہمیں اطلاع ملی کہ گیٹ پر ہمارا ایک ساتھی زخمی ہوا ہے۔

پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ مجموعی طور پر تین پاکستانی زخمی ہوئی ہیں۔ جن کی حالت خطرے میں نہیں ہے۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہے۔

بی بی سی کو پھنسے ہوئے پاکستانی نے بتایا کہ کابل ایئر پورٹ پر یہ سلسلہ کوئی تین گھنٹے تک چلتا رہا تھا۔ غالبا لوگوں کا ہجوم اس وقت تک رن وے پر تھا جب تک امریکن جہاز اڑا نہیں۔ جہاز کے اڑتے ہوئے بھی ہم نے لوگوں کو جہاز کے ساتھ چمٹے ہوئے دیکھا ہے۔

’ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں مگر میرے ساتھ موجود بہت سے لوگوں نے دیکھا کہ کہ جہاز جب اڑا تو اس وقت کے ساتھ بھی لوگ چمٹے ہوئے تھے۔ جہاز کوئی دو، تین ہزار میٹر اونچا اڑا تو اس سے چمٹے ہوئے لوگ نیچے گرے تھے۔ پتا نہیں اب ان کا کیا بنا ہوا ہو گا۔‘

کابل

جہاز کے اڑنے کے بعد رن وے پر ہجوم کم ہوا اور یہ ہجوم ایئر پورٹ لاونج وغیرہ میں اکھٹا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مگر ان کی واپسی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

'بیٹے کے بغیر مر جاؤں گی اسے کابل میں نہیں چھوڑ سکتی'

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟

افغانستان: ’ہم پہلی بار سوشل میڈیا پر کسی ملک کو گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘

افغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟

ایئر پورٹ کے بعد سڑکوں پر پھنس گئے تھے

پاکستانی کا کہنا تھا کہ ’جب ہم نے دیکھا کہ ایئر پورٹ پر حالات قابو نہیں ہیں تو ہم لوگوں نے کسی نا کسی طریقے سے نکل کر واپسی کی راہ لی۔ مگر واپسی کا راستہ بھی کوئی آسان نہیں تھا۔ روڈ بلاک تھیں۔ گاڑی کے ساتھ گاڑی لگی ہوئی تھی۔ ہر کوئی تیز رفتاری سے چل رہا تھا۔ کوئی کسی کی پرواہ نہیں کر رہا تھا۔‘

ایئر پورٹ پر پھنس جانے کے کے بعد ہم کابل کے سڑکوں پر تین گھنٹے پھنسے رہے۔ بڑی مشکل سے اپنے ٹھکانے پر پہنچے ہیں۔ کابل میں نوے فیصد دوکانیں، بینک بند ہیں۔ اشیا خوردونوش دستیاب نہیں ہیں۔

ایک پاکستانی خاتون نے جو کہ اپنے خاندان کے ہمراہ ایئر پورٹ جانا چاہ رہی تھیں بتایا کہ ’میں اپنے خاندان کے ہمراہ کوئی ساڑھے چھ بجے کے قریب ایئر پورٹ پہنچی تو اس وقت کابل ایئرپورٹ جانے والی سڑک بند تھی۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ طالبان گیٹ پر تھے وہ کسی کو ایئر پورٹ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ‘

کابل

میں نے برقعہ پہنا ہوا تھا گاڑی سے اتر کر کوشش کی کہ کسی طرح ہمیں طالبان اندر جانے کی اجازت دے دیں تو اس میں بھی ناکامی ہوئی مجھے طالبان نے تھوڑا نرمی اور سختی سے کہا کہ کوئی جہاز موجود نہیں ہے مجھے واپس اپنے ٹھکانے پر جا کر حالات بہتر ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا ’ہم لوگوں نے واپسی کی راہ تو واپسی کے سارے راستے بند تھے۔ اسی دوران ہجوم بڑھا تو گیٹ پر سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تھیں۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ فائرنگ ہوائی تھی یا براہ راست لیکن میں نے اور میرے خاوند نے کچھ لوگوں کو گولیاں لگتے ضرور دیکھا ہے۔ ‘

’کئی گھنٹے تک پھنسے رہنے کے بعد اپنے ہم بمشکل اپنے ٹھکانے پر پہنچے ہیں۔ آج کے حالات دیکھ کر تو ہماری رائے بن گئی ہے کہ کوئی بھی طیارہ کابل ایئر پورٹ پر اترے گا تو اس پر سوار ہونے کے لیے ہزاروں کا مجمع اکھٹا ہو جائے گا۔ پتا نہیں ہم لوگوں کا کیا بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp