افغانستان پر طالبان کا قبضہ: صدارتی محل میں طالبان، سڑکوں پر برقعہ پوش عورتیں۔۔۔ کابل کا آنکھوں دیکھا حال

ملک مدثر - بی بی سی نیوز، کابل


افغانستان، طالبان
آج طالبان کو افغانستان میں مکمل کنڑول مل چکا ہے۔ یہاں اب ہمارے اردگرد سکیورٹی فورسز اور پولیس کی بجائے طالبان چلتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ہوٹل کی لابی، گلی چوراہے، ہر جانب پیدل گشت کرتے یا فورسز کی گاڑیوں میں طالبان پیٹرولنگ کر رہے ہیں۔

اتوار کی رات فائرنگ اور جیٹ طیاروں کی آوازوں میں گزری اور سوموار کی صبح ہمارا پہلا سفر شہر کے مرکز سے ایئرپورٹ کی جانب تھا، جہاں ہزاروں افراد ملک سے باہر جانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔

ایئرپورٹ جانے والے راستے پر ہر مرکزی شاہراہ پر سرکاری دفتر کے باہر اب طالبان ہی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں۔

ایئرپورٹ کے باہر کا منظر اتوار کی صبح بارہ بجے سے یکسر مختلف تھا بلکہ میں کہوں گا کہ پچھلے دس برس کے دوران میں نے کابل میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا کیونکہ کل کا غیر معمولی سناٹا اب جم غفیر میں بدل چکا تھا۔

ہزاروں کی تعداد میں کابل ایئرپورٹ کے اندر اور باہر موجود لوگ یہ ملک چھوڑنے کی کوشش میں ہیں۔

افغانستان، طالبان

یہاں میری ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جو اندر جانا چاہتے تھے اور کچھ اندر سے باہر آ رہے تھے۔

اندر بھوک اور پیاس سے نڈھال لوگ کسی طرح کسی بھی فلائٹ میں سوار ہونا چاہتے تھے۔ تمام پروازیں منسوخ ہونے کے باوجود لوگ ابھی بھی ایئرپورٹ کی بیرونی دیوار پھلانگ کر اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے اور شاید اب رات کے وقت بھی وہاں یہی منظر ہو کیونکہ کابل سے نکلنا اب اہلیان کابل کی اولین ترجیح ہے۔

مجھے یہاں 20 سال بعد سڑکوں پر دکھائی دینے والے طالبان جنگجوؤں کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان معلوم ہوتی ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ طالبان کی نئی نسل ہے۔ وہ تصویریں کھنچواتے، اپنے اسلحے کی نمائش کرتے اور دھمکی آمیز انداز اختیار کیے بغیر اپنی موجودگی ہر جگہ ظاہر کرنے سے بخوبی واقف ہیں۔

افغانستان، طالبان

واپسی پر میری وہاں گشت کرتے ہوئے طالبان سے ملاقات بھی ہوئی۔ میں نے ان سے ویڈیو بنانے کی اجازت طلب کی تو انھوں نے بغیر توقف کے ہاں کر دی۔

کیمرہ سیٹ کرتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ آپ یہاں کیوں ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کے نظم وضبط کے لیے یہاں آئے ہیں۔

میں نے یہ نوٹ کیا کہ وہ عام شہریوں کی گاڑیوں کو روکنے کی بجائے سرکاری اور فورسز کی گاڑیوں کو روک رہے تھے تاکہ تصدیق ہو سکے کہ ان میں طالبان ہی ہیں۔

میرا رابطہ اسی ایئرپورٹ پر کام کرنے والی ایک خاتون سے ہوا، جو کہتی ہیں کہ کل صبح معمول کے مطابق جب دوپہر کی شفٹ پر وہ دفتر پہنچیں تو بتایا گیا کہ طالبان کابل شہر میں داخل ہو چکے ہیں لہذا خواتین گھر واپس لوٹ جائیں۔

بینرر

کیا طالبان افغانستان کو واپس تاریک ماضی میں دھکیل دیں گے؟

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟

صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟


وہ خاتون اپنے ہاسٹل لوٹ گئیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ ہم سب اب ہاسٹل خالی کر کے ایک کمرہ کرائے پر لے چکے ہیں کیونکہ ’طالبان لڑکیوں کی نوکری پسند نہیں کرتے، ان کی پڑھائی پسند نہیں کرتے اور اگر وہ ہاسٹل میں آ گئے تو نجانے ہمارا کیا حال کریں۔‘

خاتون نے مجھے بتایا کہ ’ابھی گھر جائیں تو کیسے جائیں؟ طالبان کا ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا یہ تو معلوم نہیں لیکن جو دوسرے علاقوں سے اطلاعات مل رہی ہیں وہ بہت پریشان کن ہیں۔‘

مجھے، اس خاتون کو اور نہ ہی کابل میں موجود کسی بھی سوال کرنے والے کو تسلی دینے کے لیے کوئی الفاظ مل رہے تھے۔

افغانستان، طالبان

غیر ملکی سفارتخانے یہاں جس علاقے میں موجود ہیں وہاں سناٹا ہی سناٹا ہے۔ معمول کے مطابق نہ بازار کھلے اور نہ ہی لگتا ہے کہ منگل تک ایسا ہو پائے گا۔

آج طالبان کے ہاتھوں شہریوں اور حکومتی فورسز پر حملوں کی کوئی خبر تو نہیں ملی لیکن اتوار کی رات طالبان کی چند ایک گاڑیاں سڑک سے گزرتی دکھائی دے رہی تھیں اور لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں محفوظ مقام پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پیر کو ایئرپورٹ کے علاوہ مجھے کہیں اور لوگوں کی نقل مکانی دکھائی نہیں دی۔ ہاں سڑکوں پر گلیوں اور پارکس میں اب بھی کئی خاندان موجود ہیں، برقعہ پوش عورتیں، بچے اور مرد۔

افغانستان، طالبان

صدارتی محل کی جانب جانے والے راستے پر اشرف غنی کی قدآور تصویر دور سے ہی دکھائی دے رہی ہے لیکن اب یہاں اس محل میں اندر باہر طالبان کا حکم چلتا ہے۔

اشرف غنی کا ملک چھوڑ کر جانا یا دوسرے لفظوں میں ان کا فرار آج کابل ایئرپورٹ کے بعد لوگوں کے لیے سوشل میڈیا پر ایک بڑا موضوع رہا۔

یہاں مقامی میڈیا تقریباً خاموش ہو چکا ہے۔ کل کا دن کابل کے لیے کیا تبدیلی لائے گا نہیں معلوم لیکن طالبان کا مؤقف دو ٹوک لگ رہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp