افغانستان: ایک اور درد ناک کہانی کا آغاز


انتقام یا بدلہ افغانوں کی جبلت کا طاقت ور ترین رویہ ہے۔ یہ گماں لہٰذا احمقانہ خام خیالی ہوگا کہ طالبان اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد ان تمام افراد کو کھلے دل سے معاف کردیں کہ جو ان کی دانست میں گزشتہ 20برسوں سے انہیں دربدر کرنے والوں کے سہولت کار رہے۔ عام افغانوں کو اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے۔ اسی باعث جو طیارے کابل ایئرپورٹ سے پرواز کو تیار تھے ان میں سوار ہونے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ طیاروں میں داخلے کو ممکن بنانے والی سڑھیوں پر جو دھکم پیل ہورہی تھی اس نے 1975کے سائیگان کی یاد دلادی۔ امریکی صدر جوبائیڈن اگرچہ مصر رہا تھا کہ وہ ایسے مناظر کے امکانات دیکھ نہیں رہا۔ اس ضمن میں اس کی جانب سے جاری ہوئے بیانات ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہ تھے۔

ریاستیں اپنے ٹھوس اقدامات سے چند اہم پیغامات دیتی ہیں۔ آج سے دو روز قبل امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں موجود امریکی سفارت کاروں اور شہریوں کو بحفاظت اس ملک سے نکالنے کے لئے خصوصی طیاروں سمیت تقریباََ پانچ ہزار فوجی کمانڈوز بھیج رہا ہے۔ وہ کابل پہنچ گئے تو امریکی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ کابل ایئرپورٹ کے ایک گوشے میں امریکی پرچم لہراکر ’’سفارت خانہ‘‘ قائم کردیا گیا ہے۔ امریکی ویزہ کے متمنی اس سے رجوع کریں۔

امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان نے واضح پیغام دیا کہ کابل کے قلب میں کئی بم پروف دیواروں کے ساتھ وسیع وعریض علاقے میں موجود سفارتخانہ جہاں عملے کی تعداد چار ہزار کے قریب بتائی جارہی تھی فی الحال بند کردیا گیا ہے۔ برطانیہ نے بھی اپنے سفارتی عملے کے بارے میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ امریکہ اوربرطانیہ کو اگر یقین ہوتا کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد حالات معمول کے مطابق رہیں گے تو ایسے اقدامات ہرگز نہ لئے جاتے۔ جنگوں کی شدت کے دوران بھی ان میں ملوث ممالک میں موجود غیر ملکی سفار تخانے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ سفارت خانہ بند کردینا انتہائی غیر معمولی صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوحہ میں طویل مذاکرات کے بعد طالبان سے ہوئے معاہدے کے باوجود امریکہ کا کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کردینا واضح پیغام دیتا ہے کہ اسے آنے والے کئی دنوں تک افغانستان میں امن واستحکام کی امید نہیں ہے۔ اس کے سوا جو بھی بیانات ہیں محض دونمبری ہیں۔

طالبان کو اپنے ملک میں معمول کی زندگی بحال کرنے میں یقینا طویل عرصہ درکار ہوگا۔ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد وہ ایسی عدالتیں بھی قائم کرنا چاہیں گے جو ’’غیر ملکی آقائوں‘‘ کے سہولت کار ٹھہرائے افراد کے خلاف جنگی جرائم کے نام پر بنائے مقدمات کا ’’شریعت‘‘ کے مطابق فیصلہ کریں۔ ان فیصلوں کی بدولت چند افراد کو برسرِ عام پھانسی پر لٹکانا ’’عبرت کے نشانوں‘‘ کو وجود میں لانے کے لئے ضروری ہے۔ انہیں ٹالا نہیں جاسکتا۔

کابل کے صدارتی محل کی جانب پیش قدمی سے قبل طالبان نے بگرام اور پل چرخی میں موجود جیلوں کے تمام قیدی بھی رہا کردئیے۔ سنگین جرائم کی وجہ سے گرفتار ہوئے افراد کی بے تحاشہ اکثریت اب لوٹ مار میں ملوث ہورہی ہے۔ جن افراد کو ’’القاعدہ‘‘ ٹھہراتے ہوئے شدید تشدد کے بعد جیلوں میں ڈالا گیا تھا وہ انتقام کی آگ سے بے چین ہوئے اپنے پر ’’ظلم‘‘ کرنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ کابل کے باسیوں کا فی الوقت کوئی والی وارث نہیں۔ طالبان کو امن وامان کا مستحکم نظام قائم کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔ ان کی اکثریت ویسے بھی جنوبی افغانستان کے دیہات سے تعلق رکھتی ہے۔ ’’شہری‘‘ مزاج کو بھرپور انداز میں سمجھنے اور خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کے لئے انہیں بہت دیر لگے گی۔ ان کی قیادت کی جانب سے صبر وحوصلہ کے تقاضے فی الوقت کسی کام نہیں آئیں گے۔

حالات کو ’’معمول‘‘ پر رکھنے کے لئے اگر کوئی مؤثر پیغام دینا ہوتا تو اشرف غنی کو ہر صورت قائل کیا جاتا کہ وہ استعفیٰ دینے کے باوجود فی الحال افغانستان ہی میں قیام پذیر رہے۔ وہ مگر فرار کو مجبور ہوا۔ اشرف غنی بنیادی طورپر ایک ٹیکنوکریٹ ہے۔ جوانی ہی میں امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد وہ ورلڈ بینک جیسے اداروں کا ملازم رہا۔ قبائلی رشتوں کے حوالے سے بھی وہ بہت کمزور آدمی ہے۔ اس کے مقابلے میں سابق صدر کرزئی ایک تگڑا شخص ہے۔ احمد شاہ ابدالی کا پوپلزئی ہونے کی وجہ سے ’’وارث‘‘ ہونے کا بھی دعوے دار ہے۔ یاد رہے کہ ان دنوں طالبان کی طاقت ور شخصیت ملا برادر بھی اس کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ کرزئی جب افغان صدر تھا تو اس نے ملا برادر سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ امریکی رعونت اس کے اقدام سے چراغ پا ہوگئی۔ پاکستان کو اس کا ٹھکانہ سی آئی اے نے بتایا تھا۔ اس خواہش کے ساتھ کہ اسے گرفتار کیا جائے۔ ہماری جانب سے اس خواہش پر عملدرآمد ہوا۔ ملابرادر کو لیکن بالآخر رہا کرنے کے بعد دوحہ میں مذاکرات کے لئے بھیجنا پڑا۔ اقتدار کے ایوانوں تک ٹھوس رسائی کے بغیر بھی میں یہ دعویٰ کرنے کو بضد ہوں کہ بحیثیت پاکستانی ہمیں ملابرادر سے خیر کی کوئی امید نہیں رکھنا چاہیے۔ اپنی سرشت میں وہ ایک ضدی اور متعصب افغان ہے۔ گوانتاناموبے کی جیل اور اذیت بھی بھگت چکا ہے اور اب وہ کابل کے صدارتی محل بھی بطور ’’فاتح‘‘ داخل ہوا۔ ’’فاتحین‘‘ کے دلوں میں رحم کا خانہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی کامرانی کے لئے کسی کے احسان مند بھی محسوس نہیں کرتے۔ امریکہ سے طویل مذاکرات کے بعد اس نے کابل کے صدارتی محل پر اپنا اختیار حاصل کیا ہے۔ امریکہ جیسی سپرطاقت کو تھلے لگانے والا ہم پاکستانیوں کی بات پر توجہ کیوں دے؟ ربّ کریم سے البتہ میری دردمندانہ فریاد ہے کہ اس کی شخصیت کے بارے میں میری رائے بالآخر غلط ثابت ہو۔

کابل جس انداز میں طالبان کے روبرو ڈھیر ہوا ہے وہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس کی بدولت خود کو دنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتا امریکہ یقینا ذلیل ورسوا ہوا ہے۔ میرے جیسے خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتے بے تحاشہ افراد امریکہ کی ذلت سے ٹویٹر پر بڑھکیں لگاتے ہوئے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنی ذلت کبھی فراموش نہیں کرتا۔ جاپانیوں نے اس کے ساتھ پرل ہاربرکیا تھا۔ کئی برسوں کے بعد اس نے جاپان کے دوشہروں پر انسانی تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم برسا کراپنا حساب برابر کردیا۔ جاپان کے بادشاہ نے اگرچہ اپنی شکست تسلیم کرنے کے بعد اپنی فوج کو ہتھیار ڈالنے کے احکامات جاری کردئیے تھے۔ 1975سے سائیگان کا بدلہ اس نے سوویت یونین پر ’’افغان جہاد‘‘ مسلط کرتے ہوئے لیا تھا۔ دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں اپنی تازہ ہزیمت کا ذمہ دار وہ کسے ٹھہرائے گا۔ یہ طے ہوگیا تو ایک اور درد ناک کہانی کا آغازہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments