یہ تو ہونا ہی تھا


عمل اور ردعمل برابر ہوتے ہیں البتہ مخالف جانب کو، یہ فارمولا جسے حرکت کے حوالے سے آئزک نیوٹن نے وضع کیا تھا قارئین میں سے بیشتر نے پڑھ یا سن رکھا ہوگا تو اس کا انطباق اب افغانستان کی تازہ ترین صورت پہ کر لیں۔ سی آئی اے کی ہدایت پر طالبان کو جنہوں نے پروان چڑھایا تھا، ان کے بارے میں کون ہے جو آگاہ نہیں ہے۔ خیر یہ تحریک ملک پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس سے لوگ دہل گئے تھے۔

ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقوام متحدہ کے دفتر سے کھینچ کر دار پہ لٹکانا، مسئلہ کرنا، لاش کی توہین کرنا، مبینہ چوروں کے ہاتھ کاٹنا، مبینہ زانی افراد کو سنگسار کرنا، کوڑے مارنا، جیتے جاگتے انسانوں کو ذبح کرنا، لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا، خواتین کو کام نہ کرنے دینا، داڑھی رکھنے پر مجبور کرنا، غرض کوئی بھی عمل ایسا نہیں تھا جس کو دنیا حیرت اور خوف کے ساتھ نہ دیکھ سکتی البتہ ہوا یہ کہ ملک میں جرائم ختم ہو گئے تھے۔ کیونکہ بڑے سرکاری غیرانسانی جرائم نے سب کو ششدر اور خوفزدہ کر کے رکھ دیا تھا۔

پھر نائن الیون ہو گیا۔ امریکہ سب سے پہلے افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ وہاں اسامہ بن لادن تھا جو ان کے نزدیک سب سے بڑا دہشت گرد تھا۔ افغانستان کے بعد عراق کی باری آئی۔ اسامہ تو ایک طویل عرصہ کے بعد افغانستان سے نہیں بلکہ پاکستان میں ہاتھ لگا تھا، جس کی لاش بھی دیکھنے کو نہیں ملی، پھر چند سالوں بعد روس میں پناہ حاصل کر لینے والے سی آئی اے کے اہلکار سنوڈن نے بتایا تھا کہ اسامہ تو بہاماز میں کیف کر رہا ہے، ایبٹ آباد میں تو ڈرامہ کیا گیا تھا، اللہ ہی جانے کون بشر ہے؟

امریکی ایک عالمی اتحادی فوج کے ساتھ افغانستان میں بیس برس رہا مگر اس دوران تحریک طالبان نے مقابلہ جاری رکھا۔ کبھی کم کبھی شدت سے، کہیں تھوڑا کہیں زیادہ، یہی وہ رد عمل تھا جو برابر کا نہ سہی مگر مخالف جانب اور تسلسل سے رہا تھا۔ آخر زندہ انسانوں کی حرکیات عام مادے کی حرکات سے کچھ تو مختلف ہونی ہی تھیں۔

پھر ایک وقت آیا کہ خلیل زلمے زاد کو امریکہ سے کہنا پڑا کہ کوئٹہ شوریٰ نام کی تنظیم کے ایک زعیم ملا برادر، جنہیں امریکہ کے کہنے پہ ہی حراست میں لیا گیا تھا، کو رہا کر دیا جائے تاکہ امریکہ ان کے ساتھ مذاکرات کر سکے۔ قطر کو ثالث ملک قرار دیا گیا، وہاں امارات اسلامی افغانستان کا دفتر قائم کیا گیا اور یوں مذاکرات شروع ہوئے۔ صلح دوحہ کی دستاویز پر دستخط ثبت کیے گئے مگر افغانستان میں امریکی سائے تلے قائم کردہ حکومت اور طالبان کے گروہوں کی چپقلش جاری رہی۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کا حکم دیا تھا۔ امریکہ کی پالیسی نئے صدر کے آنے سے بدلا نہیں کرتی چنانچہ بائیڈن کے صدر بن جانے کے بعد بھی فوجوں کو نکالے جانا جاری رہا۔ اس دوران طالبان افغانستان کی سرکاری فوج سے دو بدو ہوتے تیزی سے علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے۔ افغانستان کی سرکاری فوج کا بیشتر حصہ بس تنخواہ دار تھا فوجی نہیں، اس لیے مقابلہ بھی بددلی سے کرتے رہے۔ ڈیڑھ مایہ سے کم عرصے میں طالبان ملک کے اسی فیصد حصے پر قابض ہو گئے اور بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کرنے میں کل ڈیڑھ ہفتہ لگا پھر طالبان بغیر کسی مزاحمت کا سامنا کیے آرام سے کابل میں داخل ہو گئے۔

طالبان نے اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کر لی ہے، بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق : طالبان نے وزارت اطلاعات و فرہنگ قائم کی ہے۔ خواتین کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی ملازمت جاری رکھیں۔ موسیقی کی ممانعت نہیں کی گئی۔ محرم میں جلوس نکالنے والوں کو صرف اجازت ہی نہیں دی گئی بلکہ ان کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ طالبان اب جب اپنا کوئی اعلامیہ جاری کرتے ہیں تو وہ صرف پشتو میں نہیں ہوتا بلکہ لازمی طور پر دری زبان میں بھی جاری کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ نہ صرف اپنے متعلق خدشات کا جواب دے رہے ہیں، ساتھ ہی اپنی بیس بھی وسیع کر رہے ہیں۔

یہ تمام اعمال مثبت ہیں۔ بیس سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا، اس اثنا میں طالبان کی قیادت نے بھی خاصا کچھ سیکھا ہوگا۔ اقتدار میں وہ بلا شبہ کسی معاہدے کی رو سے ہی آئے ہیں، چاہے وہ معاہدہ لکھا ہوا نہ بھی ہو البتہ انہیں اپنے اقتدار کو استحکام دینے کی غرض سے پہلے والے سبھی اعمال سے پہلو تہی کرنا ہوگی۔ یہ باتیں کہ امریکہ نے چین کو نیچا دکھانے کی غرض سے طالبان کو نہ صرف کھلا چھوڑ دیا ہے بلکہ اسلحے اور فوجی ساز و سامان کی بہت بڑی کھیپ بھی ان کے لیے چھوڑ گئے ہیں، یہ سب ہماری اپنی سوچ کے علاوہ کچھ اور اس لیے نہیں ہو سکتا کہ اس کھیل میں روس، چین، پاکستان، امریکہ سب شریک ہیں ظاہر ہے طالبان بھی اور بہت حد تک ایران بھی چاہے باخبر ہونے کی حد تک۔

طالبان نے تمام سرکاری اہلکاروں بشمول ماہرین کو عام معافی دینے کا اعلان کیا ہے اور ان سے واپس کام پہ آنے اور معمول کے مطابق کام کرنے کو کہا ہے، یہ ابھی دیکھنا ہے کہ ایسے لوگ کام پر کب اور کتنے آتے ہیں، کس طرح کام کرتے ہیں۔ رہے خود طالبان، تو ان کی قیادت کے علاوہ بیشتر تو بچوں کی طرح ٹریمپلین پر اچھل کود کر کے، خوش ہوتے یا سرکاری محلات کے جم میں بے محابا ورزش کر کے یا کسی دفتر یا سرکاری رہائش گاہ میں پہیوں لگی کرسی پر بیٹھ کر کسی ساتھی کے ہاتھوں ادھر ادھر دھکیل کر جھونٹے لے کر ہی جشن فتح منا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ طالبان کے پاس جدید افعال ادا کرنے والا کادر بہت کم ہے یا شاید نہ ہی ہو تو انہیں پہلے سے موجود لوگوں سے کام چلانا ہوگا۔

افغانستان میں کیا ہوتا ہے کیا نہیں ہوتا اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا نہ صرف قبل از وقت ہوگا بلکہ نا معلوم بھی، کم سے کم تین ماہ گزرنے کے بعد ہی معلوم ہوگا آیا طالبان کے گروہوں بیچ آپس میں ٹھن جاتی ہے یا وہ شیرو شکر ہو کر کے اپنے امیر کے تحت کام کرتے ہوئے افغانستان کو جدید عہد میں خلافت کا ایک نمونہ بنانے کی جانب رو بہ عمل ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments