تیسری غلطی، طالبان اور سر ساز کی گھبراہٹ


طالبان کے افغانستان پر فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد افغانی باشندوں کی افغانستان سے فرار کے لیے کوششوں اور کچھ افغانی باشندوں کے امریکی جنگی جہاز سے گرنے کے مناظر دیکھنے سے ان کے خوف و ہراس، طالبان کے لیے ان کی نا پسندیدگی اور مجبوری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ طالبان کا بغیر کسی مزاحمت کے کابل کو فتح کرنا بھی اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ عوام میں مقبول ہیں۔ طالبان کا اس طرح اقتدار پر براجمان ہونا اور عوام کے لیے عام معافی کا اعلان بھی ان کے اس فعل کو جمہوری ثابت نہیں کرتا۔

طالبان اور طالبانی حکومت کے افغانستان اور افغانی عوام پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر طالبان کا اس طرح اتنی آسانی سے اقتدار پر قابض ہونا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے کہ کیا آنے والے وقت میں یہ چین، روس، وسطی ایشا کی ریاستوں اور پاکستان کے ساتھ اتحاد بنا کر امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتا ہے یا پھر امریکہ کا آشیرباد لیے انہیں ممالک کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس وقت طالبان کے سہولت کار بھی خوشی کے شادیانے بجا کر بتا رہے ہیں کہ ماضی کی بہ نسبت اب یہ کافی بدلے ہوئے مثبت تبدیلیوں کے حامل طالبان ہیں جو مغربی کلچر کو بھی اب اس طرح نا پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے لہذا اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے کیوں کہ اب طالبان کابل میں بچوں کے جھولے جھولتے نظر آ رہے ہیں۔

کیا اس دفعہ افغان پناہ گزینوں کا رخ براستہ ترکی یورپی ممالک کی طرف ہو گا یا پھر ماضی کی طرح یہ پاکستان ہی ان کا دوسرا گھر ہوگا۔ یاد رہے کہ 80 کی دہائی میں افغان جہاد اور 11 / 9 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا جو کردار رہا اس کے منفی اثرات پاکستان کے ہر شعبہ ہائے زندگی پر نظر آئے۔ کمزور معیشت، دہشت کردی، مذہبی منافرت، کلاشنکوف کلچر، اسمگلنگ، ہیروئن کلچر، ادبی عدم برداشت جیسے مسائل کا ہمیں سامنا رہا۔

قبائلی علاقوں میں فنکاروں، ادیبوں، شعراء، سازندوں کے فن کے گلے گھونٹے گئے انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو ان کے علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ پاکستان آج کل جن مسائل سے دوچار ہے اس میں ہم اس بات کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے کہ دوبارہ اب تیسری مرتبہ اسی غلطی کو دہرائیں جو ہم عوام اور پارلیمان کو بالائے طاق رکھ کر کیے جا رہے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حالیہ صورتحال میں ہمیں افغانستان میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا یا پھر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی؟

اگر ہم بھارت کا براستہ افغانستان بلوچستان میں اپنا اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے افغان طالبان کی سہولت کاری میں پیش پیش ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی جو بھارت سے براہ راست سرحدیں ملتی ہیں ہم وہاں پر کون سے پالیسیاں اپنائیں گے تاکہ بلوچ، پختون اور سندھی قوم پرستوں کا دل و دماغ جیتنے میں کامیاب ہوں جو ہم 74 سالوں سے جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور ویسے بھی کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی خوشخبری ہمیں آزاد کشمیر انتخابات سے پہلے ہی سنا دی گئی تھی اگر حقیقت میں تبدیل ہو سکے۔

یو اے ای اور دیگر کی سہولت کاری پاک بھارت تعلقات پر رنگ جمائے گی تو پھر بھارت سے زیادہ ہمیں افغانستان میں طالبنائیزیشن اور اپنی اکائیوں کو مضبوط کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ طالبانئیزیشن جسے ہم پر امن افغانستان کا ضامن قرار دے رہے ہیں وہ ماضی کر طرح کسی اور ہی ڈگر پر چلتے نظر آئیں اور ہماری مسجدوں، مندروں، کلچر، ادب، فنکار، موسیقار، ساز اور سر دوبارہ شدت پسندی اور مذہبی منافرت کی نذر ہو جائیں کہ جس کے بغیر خوشحال، روشن خیال اور اعتدال پسند معاشرے کا قیام ممکن ہی نہیں۔ لہذا ہوشیار باش، ملک تیسری مرتبہ اسی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کوئی گھبرائے یا نا گھبرائے مگر ہمارا ادب، ساز، سر اور معصوم عوام طالبانئیزیشن سے ضرور گھبرا رہے ہیں اور لاہور میں راجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو ایک بار پھر توڑنے کی کوشش کو بھی طالبانئیزیشن کی شروعات قرار دیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments