ادبی تنقید اور فلسفیانہ اصطلاحات کی تاریخ


زندگی کے کسی شعبے میں نئے آنے والوں کو اپنا منفرد مقام بنانا گویا بھڑوں کا چھتا چھیڑنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ادب میں نئے لکھنے والوں کے لئے ہر وہ شخص ہی ٹی ایس ایلیٹ یا گوپی چند نارنگ ہے جس نے ایک مصرع کہا ہو۔ اس کے برعکس چند لوگ بے لوث محبت اور حوصلہ افزائی کرنے والے بھی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا چند۔ لہٰذا بیٹھے بیٹھے خیال آیا تنقید کی تواریخ اور ادب میں مستعمل فلسفیانہ اصطلاحوں کا خود مطالعہ کیا جائے اور تقریظ، تنقیص یا رائے کی صورت میں انھیں جذب کیا جائے تاکہ آئندہ طعنہ زن نام نہاد ناقدین کو سمجھا جائے وہ کس حد تک اپنے موقف پہ درست ہیں اور کس حد تک محض حسد کی بنا پر مخالفتیں مول لیتے ہیں۔

اس خطے کے لوگوں کی پہلی اور تقصیر یہی ہے خواہ مذہب ہو یا ادب، ہم نے چند افراد کو معتبر سمجھ کر ان کے نظریات پہ یقین کر لیا اور ازخود سوچنے اور مطالعہ کرنے کی کوشش ترک کر دی۔ ایک شاعر دوسرے شاعر کا قائل نہیں ہوتا تو دونوں ساری زندگی یہ ثابت کرنے میں گزار دیتے ہیں کہ دوسرا شاعر ہی نہیں ہے۔ ادب اور اس کی اصطلاحیں جتنی زیادہ ہو گئی ہیں اتنی پیچیدہ بھی ہو گئی ہیں گویا کتنا ہی بڑا شاعر کیوں نہ ہو عصر حاضر کی تنقید کے کسی نہ کسی پہلو میں کمزور کیا جا سکتا ہے، لہٰذا کسی گھمنڈی نقاد کی بجائے ازخود آسان کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریر اور تنقید کا آغاز خدا جانے کب سے ہوا مگر ہمیں پہلے تو تہذیب بابل میں دیواروں پہ کندہ کچھ واضح کچھ مٹے ہوئے لفظ ملے مگر یونانی تہذیب میں چند شاگردوں نے اپنے اساتذہ کی گفتگو محفوظ رکھ کر انھیں امر کر دیے جس میں متعدد نام لئے جا سکتے ہیں مگر ادب اور ادیب یا شاعر پہ گفتگو افلاطون اور ارسطو نے ہی باقاعدہ موضوع بنا کے شروع کی۔ (قبل از بوطیقا ہم افلاطون کے بنیادی نظریے کو سمجھتے ہیں جو کہ میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی تصنیف ”ارسطو سے ایلیٹ تک“ میں انتہائی اختصار کے ساتھ درج ہے۔

پھرRussel اور Durant نے بھی تاریخ فلسفہ کی کتابوں میں افلاطون پر بڑی مفصل خامہ فرسائی کی، مثلاً رسل کے ہاں ”Plato ’s Utopia“ پڑھنے لائق ہے۔ (جو افلاطون کی تمام تعلیمات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ ) کیا کریں ہمارا موضوع ادب، ادیب یا شاعر ہیں ورنہ شاید افلاطون پہ بات کہاں سے شروع ہو، کتنی کی جائے سمجھ نہیں آتا، شاید ہی کرہ ارض پہ کوئی صاحب فہم ہو جو افلاطون کے اتنے زرخیز دماغ سے متاثر نہ ہوا ہو!

ویسے Whitehead کا قول یاد آ جاتا ہے کہ یورپی فلسفے کی روایت میں ہر فلسفی افلاطون کے footnotes کو بیان کرنے کے بعد فلسفی کہلایا۔ The safest general characterization of the Europe philosophical tradition is that it consists of a series of footnotes to Plato

کتاب نمبر دس کے آغاز پر ایمرسن کا قول بھی موجود ہے ”یہ وہ کتاب ہے جس میں دنیا کی ہر کتاب کا مواد موجود ہے۔“

یونان کے فلسفیوں کو تفکر کے لئے اتنی فراغت کیسے نصیب ہوئی اور اتنی غیر معمولی باتیں جنھیں ہزاروں سال بعد بھی زیر بحث لایا جا رہا ہے اس کو سمجھنے کے لئے یونان کا مختصر محل وقوع جاننا ضروری ہے یعنی 1۔ یونان کا سازگار موسم Geographical Condition جس کی وجہ سے زمین بھی انتہائی زرخیز تھی وہ کھیتی باڑی کرتے تھے فصل بونے کے بعد پکنے تک تعلیم و تربیت پہ دھیان دیتے، ڈرامے /نقلیں دیکھتے، جنگی مشقیں کرتے یا ذہانت کی کھیلیں کھیلتے۔

نفسیاتی اعتبار سے سوچنے والوں کے کے لئے مناسب موسم نمو بخش ثابت ہوتا ہے۔ 2۔ سماجی روابط Cultural Interaction (یونان مختلف چھوٹے بڑے قبائل میں تقسیم تھا اور ہر قبیلے کو بندرگاہ کی سہولت میسر تھی جس کی وجہ سے دوسرے علاقوں سے لوگ آتے جاتے تھے اور اسی بنا پر ہر قبیلہ صاحب مال و دولت کے حوالے سے فائز المرام تھا۔ ذہن کھلنے کا دوسرا باعث سماجی روابط ہیں 3۔ مذہبی آزادی یا اظہار خیال کا حق، یہ قبیلے آپس میں شاید اسی دولت یا جنگجوؤں کی وجہ سے امن قائم کیے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود ایتھنز اور سپاٹنز کی جھڑپیں ہوتی رہیں، ہر قبیلہ خود مختار تھا اس لئے یونان کے دانشوروں نے جمہوریت کا نظام متعارف کروایا تاکہ ہر فیصلے کو عوامی مقبولیت کی بنا پر قبول کیا۔ اس ماحول میں یونان کے انتہائی امیر گھرانے کا اک چشم و چراغ روشن ہوتا ہے جس کی روشنی میں ہر اعلی تعلیم یافتہ شخص کھڑا رہے گا۔

افلاطون نے کئی موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی جن میں سے ادب اور شاعر بھی ایک موضوع ہیں : وہ شاعر کو ایک روشنی یا نور اور پرواز کرنے والی پاک چیز سمجھتا ہے جس پر شاعری کی دیوی جس کا نام یونانی Mythology میں Calliope بتایا جاتا ہے، مہربان ہوجاتی ہے کیونکہ شاعری جیسا فن الہامی قوت کا صور پھونکنے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً دیوی ہر شاعر سے مختلف کام لینا چاہتی اس لئے ہر شاعر حمد، کورس، ایپک، آئی مبک، ٹریجیڈی یا ان اصناف میں استعمال ہونے والی متعدد بحروں پہ یکساں دسترس نہیں رکھتے بلکہ کوئی ایک صنف میں ہی بہترین ادب تخلیق کر سکتے ہیں۔

اس پہ الہامی قوت کا سایہ ہوتا ہے اس لئے وہ بہکا ہوا باغی یا مجنون دکھائی دیتا ہے، اس قوت کا سایہ اسے عام نہیں ہونے دیتا۔ افلاطون کی نظر میں اس لئے شاعر ایک با اخلاق معلم، صحیح علم والا عالم، اور درست اندازہ لگانے سے قاصر ہوتا ہے۔ دراصل شاعر حقیقت سے دو درجے دور ہوتا ہے، وہ جس چیز کو بیان کرتا ہے وہ حقیقت سے دو درجے دور ہوتی ہے مثلاً کوئی شاعر اگر سیب کی تعریف کرتا ہے تو وہ ”نقل کی نقل“ کی تعریف کر رہا ہے۔ اس کی دلیل میں صاحب فہم کہتا ہے اصل سیب کا تصور خداؤں کے ذہن میں موجود ہے درخت اس سیب کی نقل اگاتا ہے اور شاعر اس نقل کی تعریف کرتا ہے گویا شاعر حقیقت سے دو درجے دور ہے۔ اس لحاظ شاید وہ مصور کو شاعر سے بہتر سمجھتا ہو۔ اختصار کا دامن ترک نہ کرتے ہوئے نظریات کو مختصر پیش کیے دیتا ہوں :

•اکثر شعرا کسی چیز میں گم رہتے ہیں وہ اس کے پس پردہ حقائق تک رسائی نہیں پانا چاہتے۔

•شاعر کو مصیبت یا آفت بیان کرنے اجازت قطعاً نہیں دینی چاہیے البتہ ایک شرط پر کہ وہ اگر یہ پریشانی بیان کرے تو اسے خدا کی طرف منسوب نہ کرے اور اگر خداؤں کی طرف منسوب کرنا چاہے تو اس مصیبت کو اپنے حق میں بہتر ثابت کرے۔ خداؤں کی طرف شر منسوب نہیں کیا جا سکتا۔

•شاعری سننے والے حساس بنا دیتی ہے نوجوان ریاست/وطن پہ مرنے کی بجائے مجنوں بن جاتے ہیں۔ ایسے مجنوں اور باغیوں کو آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔

•شاعری عورت کی طرف متوجہ کرتی ہے اور عورت محض جنسی تسکین کا ذریعہ ہے۔ (حالانکہ اس نظریے کی وجہ سے انھیں فلسفی کہنے پہ زیادہ خوشی نہیں ہوتی) شاعری ان جذبات کو ابھارتی ہے جن کا ترک کرنا بہتر ہے۔

یہ وہ عناصر جس کے باعث افلاطون شعرا کو اپنی ”مثالی ریاست“ جس کے قیام کا تصور اس نے بیان کیا تھا، میں رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔ وہ شعرا کو عزت کے ساتھ شہر بدر کرنے کا کہتا تھا مگر اسی وقت اسے چند شعرا اس لئے بھی چاہییں کہ جب ریاست کی فوج فاتح ہو کر واپس لوٹے تو ان کے لئے تعریفی کلمات لکھے جائیں مگر یہ کلمات پہلے ناظم تعلیم اور داعیان قانون چیک کریں گے۔ (اس پر میرا ایک آرٹیکل ”ہم سب“ پہ موجود ہے، جس کا عنوان ہے، ”فنون لطیفہ کے لئے افلاطون اور موجودہ ڈکٹیٹر میں فرق“ )

ان سب قدغنوں کے باوجود ادب کے متعلق چند باتیں آج بھی ہزاروں سال بعد زیر بحث ہیں : مثلاً ”فن کی نقل کا مسئلہ“ شاعری کی ہیت و مقصدیت، اور شاعری کی آفاقیت۔ ”یہ موضوعات افلاطون سے شروع ہوئے اور شاید آخری انسان تک ادب سے باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ ادب دراصل اس Triangle میں بند ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments