افغانستان: تاریخ کا دوراہا اور اتمام حجت


افغانستان سےاچانک انخلا امریکہ کی غلطی تھی یا درست اقدام، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ اس وقت جو سب سے بڑا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ کیا افغانستان کے بارے میں جو اندازے لگائے گئے تھے وہ دنیا کے واحد سپر پاؤر کے اعلیٰ اذہان اور اداروں کی غلطی تھی؟ میرا ذہن اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعہ میں چند ہزار لوگوں کا بدلہ لینے کے لئے دنیا پر جنگ مسلط کرنے والا ملک اپنے مزید ہزا وں فوجی جوانوں کو مار کر افغانستان سے یوں ہی چلا گیا، ‘بنیے کا بچہ کچھ دیکھ کر ہی گرا ہو گا’۔

بظاہر آزاد معیشت اور منڈی پر قائم امریکی نظام حکومت میں فیصلہ سازی کے عوامل میں معاشی نفع و نقصان کو فوقیت حاصل ہے۔ بقول امریکی صدر بائیڈن کے افغانستان میں 20 سال تک سرمایہ کاری کرنے کے بعد اگلے بیس سالوں تک بھی وصولی کی امید نہیں ہے تو مزید سرمایہ کاری روکنا یا ترجیحات بدلنا ایک احسن سیاسی فیصلہ تھا جس پر اس کو کسی قسم کا پچھتاوا نہیں۔

افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے تقریباً اڑھائی ہزار، اس کے اتحادیوں کے بارہ سو فوجی اور 3846 امریکی فوجی ٹھیکہ دار مارے گئے جن کی کل ملا کر تعداد تقریباً ساڑھے سات ہزارسے زائد بنتی ہے۔ صرف امریکہ کے 20000 لوگ اس جنگ میں زخی ہوئے۔ افغان پولیس کے 66، 000 اوردیگر 47، 200 افراد بھی جان سے گئے جبکہ 51، 200 طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا اندازہ ہے۔ 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی بھی اس دوران مارے گئے۔ مجموعی طور پر افغانستان کی جنگ میں گزشتہ 20 سالوں کے دوران ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد لوگوں کا براہ راست جانی نقصان ہوا جن میں 95 فیصد افغان تھے۔

بعض تخمینوں کے مطابق امریکہ نے گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان کی جنگ میں تقریباً دو کھرب ارب ڈالرکےدفاعی اخراجات اٹھائے جس میں سے تقریباً نوئے ارب ڈالر افغان فوج کو کھڑی کرنے پر خرچ ہوئے۔ برطانیہ کے 30 ارب، جرمنی کے 19 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات اور نیٹو کے سالانہ 4 ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں۔ گوشواروں کے مطابق 143 ارب ڈالر اس دوران افغانستان کی تعمیر نو پر خرچ کئے گئے جس میں سے تقریباً 36 ارب ڈالر ترقی پر اتنی ہی رقم انسداد منشیات کی مد میں خرچ کی گئی۔ امریکہ کے ہی افغانستان میں اخرجات کی نگرانی کے لئے مامور ایک ادارے کے مطابق رقم کی ترسیل کے دروان 19 ارب ڈالر 2009 سے 2019 کے درمیان دس سالوں میں راستے میں ہی غائب ہوئے جس پر امریکی حکومت کی طرف سے مزید کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔

افغانستان کو ملنے والی رقم سے افغان حکومت کی عیاشی اور بندر بانٹ کے قصے اور زیادہ دلچسپ ہیں۔ ہر دور میں حکومت میں شامل ہونے والے خود ساختہ جنرل رشید دوستم ہی کی مثال لیں تو وہ نہ صرف 70، 000 امریکی ڈالر سی۔ آئی۔ اے سے ماہانہ لیتا رہا بلکہ اقوام متحدہ سے بھی ایک لاکھ ڈالر ہر مہینےاس کے کارکنان کو تحفظ دینے کے عوض وصولتا رہا۔ حامد کرزائی اور اشرف غنی دونوں نے خریداری اپنے ہاتھ میں رکھی اور رقم کی وصولیاں دوبئی میں ہوتی رہیں۔ بہ الفاظ دیگر افغانستان کے نام پر دیا گیا زیادہ تر پیسہ کابل پہنچ ہی نہ سکا۔ اتنی بڑی رقم دفاع پر خرچ کرنے کے باوجود افغان فوجی صرف کچھ سو ڈالر ماہانہ تنخواہ کے لئے جانیں دیتے رہے اور آخر میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔

جنگ کے دوران افغانستان میں تعمیر نو کی تاریخ بھی کرپشن، خیانت، چوری اور بد دیانتی کا سیاہ باب ہے جس کی وجہ سے افغان عوام کا اعتماد احکومت پر سے اٹھ گیا تھا۔ افغانستان کے عام لوگوں کا امریکہ اور اس کے اتحادیوں، حکومت اور اس کے اہلکاروں سے اتنی ناامیدی ہوچکی تھی کہ ان کے ہونے اور نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ افغانستان کے دیہاتوں میں رہنے والے غریب کسان، پہاڑوں پر بکریاں چرانے والے گلہ بان اور شہروں میں سڑکوں پر ٹھیلے لگا کر پھل سبزی بیچنے والے اس بات سے بے نیاز ہوچکے تھے کہ کابل میں کس کا حکم چلتا ہے اور قندھار میں کس کے نام خطبہ پڑھا جاتا ہے۔

حکومتوں کی تمام تر کرپشن، نااہلی اور بے ایمانی کے باوجود گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان بدل بھی گیا ہے۔ دو دہائیوں میں ایک نسل تعلیم یافتہ ہوئی ہے یہاں اب خواتین میں شرح خواندگی 33 فیصد تک ہے۔ افغانستان میں یونیورسٹیاں اور کالج بن گئے ہیں۔ افغانون کی ایک بڑی تعداد نے بیرون ملک سے واپس آکر یہاں سرمایہ کاری کی ہے۔ ملک میں ڈاکٹر، نرسیں، اساتذہ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے لوگ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر ٹیلی ویژن چینل، بنک اور موبائل نیٹ ورک کام کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ آج کا افغانستان 1992ء اور 1996ء سے بہت مختلف ہے۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ مزاکرات کے نتیجے میں طے پائے جانے والے معاہدے کے مطابق گو کہ طالبان کو پرامن طور پر کابل بمع صدارتی محل کے حوالہ کیا گیا ہے مگر ان کے طرز عمل اور مستقبل کے لالحہ عمل پر سب کی نظر ہے۔ افغان عوام اور خواص کی نظر اس بات پر ہے کہ قصر شاہی کے نئے مکین بحثیت فاتح داخل ہوتے ہیں یا بطور نجات دھندہ۔ طالبان نے اگر فاتحین کا طرز عمل اپنایا اور افغانستان کو اپنی مفتوحہ جاگیرسمجھا تو تاریخ خود کو دھرانے میں دیر نہیں لگائے گی۔ اگر ان کا طرز عمل ناراض بھائی کے گھر لوٹنے والا ہوا تو ان کو بہت ہاتھ ملانے والے مل جائیں گے۔ جب اپنے گلے لگائیں گے تو دنیا کو ان سے منہ پھیرنے کا جواز بھی ختم ہوجائے گا۔

افغانستان ایک قبائلی طرز معاشرت کا حامل ملک ہے جہاں ہر شخص، قبیلہ، گاؤں اور علاقہ اپنی منفرد شناخت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کرتا ہے حتیٰ کہ اس کے لئےجان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ یہ ملک کثیرالسانی ہونے کے علاوہ عقائد میں بھی تکثیریت کا حامل ہے جہاں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے اور نظریات و عقائد کو برداشت کرنے کی تاریخی روایات موجود ہیں۔ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف افغانوں نے ہتھیار ہمیشہ اپنی انفرادی، قبائلی اور قومی شناخت کو قائم رکھنے کے لئے ہی اٹھائے ہیں۔

کابل میں بطور فاتح داخل ہونے کے بعد طالبان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ افغانستان کو آئینی راستے پر ڈالا جائے تاکہ بار بار اقتدار کے لئے خون خرابہ سے نجات مل جائے۔ اس مقصد کے لئے موجودہ آئین میں ترمیم بھی ممکن ہے اور ایک نیا آئین بھی بنایا جا سکتا ہے، مگر ہر دو صورتوں میں آئین کا متفقہ ہونا لازمی ہوگا۔ روایتی طور پر قومی مسائل پر افغان لویہ جرگہ یا بڑا جرگہ بغیر کسی رکاؤٹ کے ہرقبیلے اور طبقے کی شرکت کے ساتھ بلایا جاتا ہے جس میں تمام لوگوں کی اراء کے ساتھ اتفاق ہوسکے۔ طالبان کے اس راستے کا انتخاب کرنے پر دنیا بھر میں پزیرائی ہوگی۔ تاریخ کے اس دوراہے پر یہ راستہ اختیار کرنا طالبان کے لئے بھی ایک سنہری موقع ہوگا کہ وہ دنیا کے سامنے اپنی اس مثالی طرز حکمرانی کے لئے ایک آئینی دستاویز پیش کرسکیں جس کا وہ دعویٰ کرتےرہے ہیں۔

طالبان کے سامنے جو دوسرا راستہ ہے وہ ان کے بلا شرکت غیرے اقتدار کا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے ملک کو بطور امارت (جس کا سربراہ ایک امیر ہوتا ہے) چلائیں جہاں ان کے نامزد لوگ عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں رکھیں گے۔ گو اس میں ایک شوریٰ یا مشاورت کا نمائشی نظام ہو مگر اس میں نمائندگی طالبان کی مرضی سے ہو اور مخالفین کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی جائے۔ اس نظام میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہو مخالفین کی سرکوبی کی جائے۔ اس طرح کے نظام کا کابل اور اس کے بعد پاکستان کے کچھ علاقوں میں تلخ تجربات کے بعد اس کو ‘طالبانایزیشن’ کا نام دیا گیا جو دنیا کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔

طالبان کے بلاشرکت غیرے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے راستے پر چلنے کی صورت میں افغانستان کے دیگر قبائل، طبقات، مذہبی اور لسانی وحدتوں کے پاس اپنی بقا کے لئے میدان عمل میں آنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا اور تاریخ ایک بار پھر دھرائی جائے گی۔ غیر پشتون جن کوسیاسی اصطلاح میں شمالی اتحاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے نے ایک وفد کی شکل میں پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے انفرادی، قبائلی، مذہبی اور قومی وجود کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ ان تمام خدشات اور خطرات کا سد باب نہ ہونے کی صورت میں افغانستان کے ایک بار پھرخانہ جنگی کا شکار ہونے سے پہلے شمالی اتحاد کی طرف سے یہ بات پاکستان کے ارباب اختیار کے گوش گزار کرنا ایک طرح کا اتمام حجت ہے کیونکہ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ طالبان اگر دنیا میں کسی کی بات سنتے ہیں ہیں تو وہ پاکستان ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ طالبان تاریخ کے اس دوراہے پر کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments