افغانستان پر طالبان کا قبضہ: وہ افغان خاتون جو طالبان کے ساتھ مل کر خواتین کے لیے کام کرنے کی خواہشمند ہیں


خواتین، طالبان، افغانستان
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کے داخل ہونے اور افغان صدر کے ملک چھوڑ جانے کے بعد سے ملک میں افراتفری کے مناظر ہیں اور ہزاروں افغان شہری ملک چھوڑ کر جانے کے لیے بیتاب ہیں مگر محبوبہ سراج بھاگنے والوں میں شامل نہیں۔

ایک لمبے عرصے سے خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی محبوبہ سراج ’افغان ویمن سکلز ڈویلپمنٹ سینٹر‘ نامی ایک ادارے کی سربراہ ہیں۔ ان کا ادارہ خواتین اور لڑکیوں کو خواندگی اور گھریلو تشدد جیسے معاملات میں آگاہی فراہم کر کے انھیں خودمختار بناتا ہے۔

صرف دو ہفتے پہلے تک سراج امریکہ میں تھیں لیکن پھر انھوں نے افغانستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’یہ تمام عورتیں، یہ تمام لڑکیاں، وہ تمام لوگ جو میری سرپرستی میں ہیں، ان کی حفاظت کے لیے مجھے یہاں رہنا ہے۔۔۔ میں انھیں اکیلا چھوڑ کر ملک سے نہیں جا سکتی۔‘

محبوبہ سراج طالبان کے ساتھ مل کر اُن کے خواتین کے ساتھ سلوک پر کام کرنا چاہتی ہیں۔

’میں امید کر رہی ہوں کہ کم از کم ہم ان سے بات کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر ہم میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر ان لوگوں سے بات کریں، ہو سکتا ہے کہ وہ سمجھدار ہوں اور جان پائیں کہ افغانستان کی خواتین کیا کچھ کر سکتی ہیں۔‘

طالبان، افغانستان

’ہمارے خواب بکھر چکے ہیں‘

سنہ 1996 میں طالبان نے پہلی مرتبہ افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تھا مگر سنہ 2001 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کو اقتدار سے بیدخل کر دیا تھا۔

طالبان کے گذشتہ دور میں خواتین اور لڑکیوں کو سخت قوانین کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

انھیں تعلیم اور روزگار سے محروم رکھا گیا۔ وہ کسی مرد کے بغیر اکیلی گھر سے نہیں نکل سکتی تھیں۔ اپنے چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنا لازمی تھا۔ سٹیڈیمز میں سرعام کوڑے مارے جاتے اور سزائے موت دی جاتی، جبکہ زنا کی سزا سنگسار تھی۔

تو ظاہر ہے کہ پچھلے تجربے کی بنیاد پر خواتین اس بار بھی خوفزدہ ہیں۔

افغان رکن پارلیمان فرزانہ کوچائی کہتی ہیں کہ کابل میں لوگ طالبان حکومت کی واپسی سے خوفزدہ ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’مجھے نہیں معلوم کہ ہر ایک کے دل میں موجود خوف اور خطرے کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ انھیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے جس کے بارے میں وہ یقین نہیں کر رہے کہ ایسا حقیقت میں ہو رہا ہے۔ ہم کہاں جائیں، کیا کریں۔‘

ایک اور خاتون جو مصنف ہیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، کہتی ہیں کہ طالبان کی واپسی نے انھیں ’توڑ‘ کر رکھ دیا ہے۔

’مجھے نہیں پتہ کہ میں کبھی کام یا وہ سب کچھ جو میں کرنا چاہتی ہوں، کر سکوں گی یا نہیں۔ میرے جیسی اور بھی بہت سی نوجوان خواتین ہیں، ہمارے خواب بکھر گئے ہیں اور ایک بہتر مستقبل کی ہماری امیدیں بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔‘

بینرر

طالبان قیادت کے اہم رہنما کون ہیں؟

کیا طالبان افغانستان کو واپس تاریک ماضی میں دھکیل دیں گے؟

افغانستان میں طالبان ’اقتدار‘ میں، اشرف غنی کس حد تک ذمہ دار ہیں؟

طالبان نے دس دن میں افغانستان کے اہم ترین علاقوں پر کیسے قبضہ کیا؟

طالبان افغانستان تنازعے میں سعودی عرب سمیت کون سا اسلامی ملک کس کے ساتھ ہے؟


’گھبرانے کا وقت نہیں‘

لیکن سراج کا خیال ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے کے لیے اس نظام کے ساتھ کام کرنا ممکن ہے۔

’اس سے پہلے، طالبان سے پہلے، دنیا نے اور نہ ہی ہمارے ملک نے افغان عورت کی طاقت کو دیکھا ہے۔‘

سراج کہتی ہیں ’انھوں نے کبھی بھی (ہماری صلاحیت) کا ویسے استعمال نہیں کیا جیسے کیا جانا چاہیے، انھوں نے ہمیں کبھی بھی مرکزی دھارے اس طرح شامل نہیں کیا جس طرح کیا جانا چاہیے، مگر امید ہے کہ شاید یہ لوگ (طالبان) اب ایسا کریں گے۔‘

’اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم ٹھیک ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جب تک حفاظت ہے، میری لڑکیاں ٹھیک ہیں اور سب ٹھیک ہیں تو میں ٹھیک ہوں۔‘

سراج کا کہنا ہے کہ وہ طالبان سے خوفزدہ نہیں اور اب وہ خوف کے مارے ہار نہیں مان سکتی۔

وہ کہتی ہیں ’یہ گھبرانے کا وقت نہیں، افسوس کا وقت نہیں، ڈرامے کے لیے کوئی وقت نہیں۔‘

محبوبہ سراج

Mahbouba Seraj/Twitter
خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی محبوبہ سراج ’افغان ویمن سکلز ڈویلپمنٹ سینٹر‘ کی سربراہ ہیں

لیکن وہ امریکہ اور مغرب پر اپنے غصے اور مایوسی کا اظہار ضرور کرتی ہیں کیونکہ وہ دیکھتی ہیں کہ افغانستان کے شہریوں کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

سراج کہتی ہیں ’میں آپ کو نہیں بتا سکتی کہ میں اس بارے میں کتنی غصے میں ہوں۔ میں آپ کو نہیں بتا سکتی کہ میں بین الاقوامی کوششوں اور آخری لمحے میں ہمیں جیسے گرا دیا گیا، کے بارے میں کتنا مایوس کُن محسوس کرتی ہوں۔‘

جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا وہ بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ کام کرنے اور پچھلے 20 برسوں میں غیر ملکی مداخلت کاروں کی نمائندگی کرنے پر طالبان کے ہاتھوں سزا سے ڈرتی ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں۔

مزید پڑھیے

کابل سے دلی جانے والی پرواز کے ساتھ افغانستان میں کیا ہوا؟

’کہا تھا نا شادی کر لو، اب طالبان ہاتھ مانگیں گے تو ہم کیا کریں گے‘

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟

’میں حقیقی افغانستان کی نمائندگی کرتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ یہ ہی کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان (طالبان) میں سے کم از کم کچھ تو اس بارے میں جانتے ہیں۔‘

کچھ لوگ سراج کے ان قدامات کو بہادری سمجھ سکتے ہیں لیکن وہ اس سے خود متفق نہیں ہیں۔

’میں کوئی شہید نہیں ہوں۔ میں کوئی بہت بہادر عورت نہیں ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں ذمہ داری پر یقین رکھتی ہوں اور میرے لوگوں کی مجھ پر ایک ذمہ داری ہے۔‘

’میں ایک افغان عورت ہوں اور میں اپنے ملک میں رہنا چاہتی ہوں اور یہاں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp