یہاں سے نہ گزریں، یہاں آپ کی عزت لٹ سکتی ہے!


مملکت خداداد پاکستان کے مردوں کا ماننا ہے کہ عورت مال مفت ہے اور جس کو لوٹنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ اب آپ پوچھیں گے بھلا یہ کس کتاب میں لکھا ہے، تو بھائی اور جو جو کچھ یہاں کھلے عام کیا جاتا ہے وہ کیا کسی کتاب میں لکھا ہوتا ہے۔ پاکستان ایک آزاد مملکت ہے اور یہاں کے باسی، آزاد شہری، خاص طور پر مردانہ آبادی۔ وہ اپنی آزادی پر ایمان رکھتے ہوئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس کو کرنے کے لیے ان کا دل انہیں اکساتا ہے۔ ان کا یہ بھی ایمان ہے کہ وہ پیدائشی مسلمان ہیں، لہذا یہ سرٹیفیکٹ انہیں آخرت میں بھی کلین چٹ دلوا دے گا، یہ اچھے اعمال وغیرہ، جائیں تیل لینے!

اب سب کے سب مومنین میرے اوپر لٹھ لے کر چڑھائی کر دیں گے اور مرد دشمن، میرا جسم میری مرضی، لبرل آنٹی ٹائپ قسم کے القابات سے بھی نوازیں گے۔ ارے بھیا! یہ میرے خیالات نہیں ہیں، یہ میرے مشاہدات ہیں۔ یہ سب باتیں نتیجہ ہیں ان سنہرے اعمال کا جو میں اپنے بچپن سے اسی شہر، اسی ملک میں دیکھتی آ رہی ہوں۔ یہ کوئی سنی سنائی تھوڑی ہے۔ آپ خود معمولی سی کوشش سے یہ فیض حاصل کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ ہر محلے میں آس پاس کوئی نہ کوئی ایک ٹھرکی ضرور پایا جاتا ہے اور محلہ کی عورتوں پر گندی نظر رکھنا اس کا حق ہوتا ہے، ”غریب کی جورو سب کی بھابی“ اسی بہانے اندر ہی اندر گرو مندر۔

مہارت ایسی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی ہوگی۔ گلی محلہ کے دکاندار، یہ ”چا چا“ یا خالو ہر دوسرے محلے میں پائے جاتے ہیں جو گاہے بگاہے دکان پر آنے والی بچیوں پر دست شفقت پھیرتے رہتے ہیں، محبت جو کرتے ہیں محلے کی بچیوں سے، اور بچیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں، مفت کا مال ہے اڑاؤ میاں! یہ چاچے خالو انکل نہایت مستقل مزاجی سے بچیوں کو اور ہاں بچوں کو بھی دکان کے اندر سیر کرنے کی دعوت دینا نہیں بھولتے، اب بھولے بھالے یہ سیر کرلیتے ہیں اور اس کا تاوان ادا کرتے ہیں۔ جن کو ماں باپ نے کچھ سکھا دیا ہوتا ہے وہ سیانے بھاگ جاتے ہیں لیکن کھیل ختم نہیں ہوتا اور لکا چھپی میں چلتا ہی رہتا ہے۔ شک کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور کالے چہرے سر پر سفید ٹوپیاں پہن کر عزت دار بنے رہتے ہیں۔ یہ ہوتے ہیں انفرادی کھلاڑی، نہایت کامیاب۔

اب یہ سب تو برسوں سے ہوتا آ رہا ہے، پہلے خال خال ایسی خبریں آتی تھیں تو لوگ دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے تھے۔ اب میڈیا کی وجہ سے اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی وجہ سے لمحوں میں ایسے واقعات طشت از بام ہو جاتے ہیں۔ موٹر وے والا واقعہ ابھی اتنا پرانا نہیں ہوا، وہی ناقص العقل عورت کا قصہ، اسی کی وجہ سے اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تھا۔ اور رہ گئے چھوٹے موٹے واقعات تو وہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ عورتیں تو چھوڑو یہ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گندے گندے چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر مردوں کے سامنے جاتی ہیں، انہیں اکساتی ہیں۔ اب ظاہر سی بات ہیں وہ بھی جانور ہیں، (معاف کیجئے گا جاندار لکھنا چاہ رہی تھی میں ) میرا مطلب ہے جاندار ہیں کوئی روبوٹ تو نہیں۔ جذبات کا الاؤ بھڑک جاتا ہے اور یہ میسنی لڑکیاں عزت لٹوا کر، سیدھی اوپر چلی جاتی ہیں۔ دوزخ میں ہی جاتی ہوں گی شاید۔

نور مقدم تو ابھی حال میں ہی حلال ہوئی ہے۔ اس کو بھی پھانسی کی سزا ملنی چاہیے، کتنے عزت دار سپوت کو پریشان کیا اس نے۔ اور اب یہ عائشہ، سنا ہے وہ ٹک ٹاک نام کا گناہ کرتی تھی اس لئے اسے ایسی سزا دی گئی۔ واہ بھئی مردان پاکستان حق ادا کر دیا آج تو۔ انفرادیت سے باہر آ کر قومی یکجہتی دکھائی گئی اور قوم کے مردوں نے مل ملا کر یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اتفاق اور یکجہتی کے باعث بے شمار مومنین کو ثواب ملا ہو گا۔ یعنی اب ہماری عوام، یا شیخ اپنی اپنی سینک سے باہر نکل کر، اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں کی عملی تصویر بن گئے ہیں۔ آفرین! اگلے جشن آزادی پر سب کو تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازنا چاہیے۔

حکومت پاکستان کو بھی اب خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے اور مفاد عامہ کے لیے کچھ عملی اقدامات کرنے چاہئیں، مثلاً کچھ خصوصی سائن بورڈز مملکت میں جگہ جگہ ہر جگہ نصب کروانے چاہئیں، جیسے کہ یہ

اس سے روزگار میں اضافہ ہو گا، بے وقوف ناسمجھ عورتوں کو پابند کیا جا سکے گا اور مومنین کو بھی کم سے کم آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں ایک پنتھ تین کاج! کر بھلا ہو بھلا!

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments