افغانستان امن اور تشویش کے بیچ


افغان طالبان نے ایک طویل مسلح جدوجہد کے بعد بالآخر پر کابل پر تسلط جما لیا ہے تا حال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ ماضی کی طرح کابل پر اپنی واحد حاکمیت بحال کر پائیں گے یا اس بارے انہیں افغانستان کے دیگر نسلی، لسانی قومیتی مذہبی گروہوں کی نمائندہ جماعتوں کو بھی شریک اقتدار و اختیار کرنا پڑے گا؟ ، صورتحال جیسی بھی ہوئی افغان طالبان کابل حکومت میں سب سے نمایاں طور پر اقتدار و اختیار کے مالک ہوں گے ، افغانستان میں رونما ہونے والے اس واقعہ پر طالبان سمیت دنیا بھر میں حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے طالبان نے اقرار کیا ہے کہ اس قدر جلد اور سہل انداز میں انہیں کابل پر دسترس مل جائے گی اس کی توقع نہیں تھی۔

گویا کہ وہ کابل میں داخل ہوتے ہوئے ایک سخت مزاحمت کے خطرے یا امکان کو ذہن میں رکھتے تھے، تو پھر انہوں نے اس کے مقابلے کے لئے مکمل تیاری بھی کی ہوگی۔ لہذا مزاحمت سے برسرپیکار ہونے کے لئے مکمل طور پر ہتھیار بند ہو کر کابل کے نواح میں جمع ہوئے ہوں گے ! لیکن انہیں بلا مزاحمت کابل شہر اور صدارتی محل ہاتھ آ گیا ہے

تاہم اگر کوئی یہ خیال کرے کہ طالبان نے ”پرامن ذرائع“ کے ساتھ محض سیاسی و عوامی تائید و حمایت سے کابل پر تسلط بحال کیا ہے تو ایسا شخص زمینی حقائق سے چشم پوشی کا ارتکاب کرے گا۔ بلا شبہ افغان طالبان نے اپنی مکمل مسلح قوت کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے کابل کو اپنے حصار میں لیا تھا جہاں کابل انتظامیہ کے لیے مزاحمت کے امکانات بوجوہ مسدود ہو گئے تھے اس واقعہ کی ایک مختلف لیکن ناخوشگوار مثال سقوط ڈھاکہ ہے جب بھارتی عسکری قوت نے مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے ڈھاکہ کا محاصرہ کر لیا تھا تو پاکستانی فوج کو پہنچنے والے ممکنہ کمک کے سبھی راستے مسدود کر دیے گئے تھے دریں حالات جنرل اے کے نیازی، کمانڈر مشرقی پاکستان، کے بقول۔

”جنگ جاری رکھنا محض انسانی ہلاکتوں کو دعوت دینے کے مترادف عمل تھا۔ جنگ جاری رکھی جاتی تو چند روز کے بعد ہماری مزاحمت دم توڑ دیتی اور بھارتی فوج ڈھاکہ فتح کر لیتی لہذا میں (جنرل نیازی) نے غیر ضروری انسانی ہلاکتوں سے بچنے کے لئے ہتھیار پھینک کر ڈھاکہ دشمن فوج کے سپرد کر دیا“ ( بحوالہ۔ ”سانحہ مشرقی پاکستان۔ تصویر کا دوسرا رخ۔ از جنرل نیازی)

کابل کے محاصرے اور بعض دیگر اسباب کی بنا پر جن کے متعلق گزشتہ تحریروں میں ذکر کرچکا ہوں، کابل حکومت کے وزراء، عسکری و دفاعی محکموں اور خود صدر افغانستان نے غیر ضروری انسانی ہلاکتوں اور کابل کو کھنڈر میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لئے امن کو ترجیح دی تو اسے ریت کی دیوار کہنا مناسب تو نہیں۔ صدر اشرف غنی۔ ملک کے اندرونی عسکری اور خارجی سفارتی دباؤ کے بعد ملک سے چلے گئے بلکہ فرار ہو گئے ایسا کرنے کے لئے ان پر شدید اور موثر سفارتی دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔

دوحہ میں طالبان کے مذاکراتی وفد نے اشرف غنی کے استعفی کا مطالبہ کیا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے برملا اپنے عوامی بیان میں اسی مطالبے کی تائید کی جبکہ واشنگٹن نے سفارتی ذرائع سے اشرف غنی کو یہی مشورہ دیا اور وہ 14 اگست کو افغانستان سے نکل گئے۔ اگر افغانستان کے سیاسی منظر نامہ پر اشرف غنی کچھ سیاسی سماجی اور قبائلی وزن و ساکھ کے مالک ہوتے تو شاید وہ اقتدار چھوڑنے کے لئے ملک سے فرار کی بھائے کوئی مختلف آبرو مندانہ طریقہ استعمال کرتے، جناب اشرف غنی جناب معین قریشی، جناب شوکت عزیز و جناب حفیظ شیخ کے قبیل سے تعلق رکھنے والے برآمدی حکمران تھے، خلا سے اترے تھے اور اسٹیج پر اپنا کردار نبھا کر کے پچھلی گلی سے نکل گئے وہ اب کہاں اور کس حال میں ہیں بالیقین کچھ کہنا ممکن نہیں۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر بیشتر مبصرین افغانستان بلکہ کابل کو پرامن طور پر کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر فتح کر نے پر شاید طالبان کو امن کا نوبل انعام دینے کی تجویز پیش کرنے والے ہوں، لیکن وہ حقائق سے نظریں چرانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان طالبان ایک مسلح جنگجو گروہ کا نام ہے جس نے بیس سال افغان اور اتحادی افواج کے ساتھ جنگ آزمائی میں گزارے ہیں، وہ قطعی طور پرامن سیاسی جہد کار نہیں، ثانوی بات یہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد اور بالخصوص امریکی افواج کے انخلاء سے قبل انہوں نے افغان آرمی کے ساتھ جنگ جاری رکھی تھی معاہدے کے برعکس، تاہم معاہدے کے احترام میں امریکی و اتحادی افواج پر حملے بند کر کے انہیں واپسی کے لئے محفوظ راستہ ضرور مہیا کیا تھا، جس کے عوض امریکی افواج انخلاء سے قبل اپنے فوجی کیمپ کا بیشتر جنگی ساز و سامان افغان طالبان کے سپرد کرتے رہے، حالانکہ امریکہ نے ایک کھرب ڈالر کے سرمائے سے افغان آرمی کو افغانستان میں مذہبی مسلح جتھوں کے خلاف صف آرائی اور افغان حکومت کی بقاء کے لئے قائم کیا تربیت اور جدید اسلحہ بھی مہیا کیا تھا، امریکہ اور اس کے حامی پاکستانی وزیر اطلاعات ندامت و طنزاً اسی ایک کھرب ڈالر کے بے صرفہ اجڑ جانے کی دہائی بیان رہے ہیں، کہا گیا کہ افغان نیشنل آرمی طالبان کے مقابلے میں ریت کی دیوار ثابت ہوئی، بلاشبہ افغان آرمی پیشہ ورانہ عسکری کردار ادا نہیں کر سکی تو اس کی وجوہات پر غور ہونا چاہیے۔

افغان نیشنل آرمی کی ساخت میں ہی خرابی کی بنیادی جڑ شامل تھی اس میں پشتو بولنے والے علاقوں کے افراد کی نمائندگی 24 فیصد سے کم تھی وہ بھی نچلی سطح کی سیاہ میں، جبکہ کمان اور افسران میں پشتون 5 فیصد سے بھی کم تھے اس کے برعکس افغان طالبان کی اکثریت جنگجو سے لے کر کمان دار تک پشتون تھے، میں نے 2014 ءمیں ایف ای ایس کے زیر اہتمام افغان مسئلہ پر کوئٹہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس خدشے کا بر ملا اظہار کیا تھا کہ ”امریکہ جس نوعیت کی افغان فوج تشکیل دے رہا ہے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان نیشنل آرمی اپنی نسلی لسانی ساخت کی بنیاد پر ناکامی سے دوچار ہوگی اور اگر افغان آرمی طالبان کے خلاف موثر ثابت ہوئی تو اس کے نتیجے میں افغانستان قومی تصادم کے تباہ کن نتائج کے شکار ہو جائے گا“

اب درپیش حالات میں افغان آرمی کا کردار کھل کر سامنا آ گیا ہے ۔ ناکامی۔ اگر کشت و خون سے بچنا ناکامی ہے تو اولا اس فوج کو مملکت کی بجائے کابل حکومت کے دفاع کے لئے کھڑا کیا گیا تھا جبکہ افواج، ملک کے دفاع کے لئے سینہ سپہر ہوا کرتی ہیں، افغان آرمی نے حکومت کا دفاع کرنے سے انکار کر کے ایک منفرد سطح پر کسی بھی ملک کی فوج کے لیے غیر سیاسی کردار کی معالج ہونے کو تقویت بخشی ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر افغان طالبان کی بجائے کسی دشمن ملک نے افغانستان پر حملہ کیا ہوتو کیا۔

تب بھی افغان آرمی ایسی ہی پسپائی اختیار کرتی؟ میرا واضح جواب ہے قطعاً نہیں، افغان آرمی نے مزاحمت سے گریز اختیار کر کے اپنے ملک میں برادر کشی سے کنارہ اور حکومت کا دفاع نہ کر کے کر کے واضح کر دیا ہے کہ ملکی فوج حکومت کی سیاسی بی ٹیم نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد و ہدف صرف اور صرف دفاع وطن تک محدود ہوتا ہے۔ امریکی افواج کی موجودگی میں اس نے جتنی مزاحمت کی وہ امریکی جبر کا نتیجہ تھی اس دوران بھی بے شمار مواقع پر افغان آرمی کے ہزارہا اہکار اپنے اسلحہ سمیت فرار ہوتے رہے ہیں ہمیں افغانستان کے حالیہ واقعات کا اس تناظر میں بھی تجزیہ کرنا چاہیے۔

افغان آرمی کو جب جنگ آزمائی برادر کشی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہی تھی تو دوسری طرف جان بخشی کے ساتھ 80 یا کم وبیش ڈالر بھی مل رہے تھے۔ تو انہوں نے لڑنے اور مرنے پر زندہ رہنے پر ترجیح دی کیونکہ اب جبکہ طالبان افغان اقتدار کے انتہائی نزدیک ہیں وہ بھی تو مالی امداد و سفارتی حمایت کے لئے امریکہ کی طرف دیکھیں گے اور دوحا معاہدے کے مطابق خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دیں گے۔

برسبیل ٍ تذکرہ افغان طالبان سے سوال تو پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اپنی حالیہ جنگ۔ پیشقدمی ساز و سامان کی خرید یا حصول و دیگر مصارف کے علاوہ۔ افغان فوجیوں کو ادا کرنے کے لئے کثیر مالی وسائل و ڈالر کہاں سے کیسے حاصل کر رہے تھے؟

کابل پہنچنے پر افغان حکومت اور فوج نے جنگ سے گریز کر کے امن کے لئے اپنے ڈوبتے ہی سہی اقتدار کی قربانی دی ہے وگرنہ۔ آرمی کے بغیر بھی افغان جنگجو سرداران چند ہفتے کی مزاحمت تو کر سکتے تھے مگر یہ ایک لا حاصل لڑائی ہوتی لہذا انہوں نے پرامن طور پر کابل طالبان کے حوالے کر دیا، جس کا اعزاز انہیں ملنا چاہیے۔ دلیل دی گئی کہ اگر اشرف غنی کی حکومت عوامی مقبولیت رکھتی یا جمہوری ہوتی تو اس کے انہدام پر افغان عوام احتجاج کرتے۔

کیا ہم بھول گے کہ میاں نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت کو جب جنرل پرویز مشرف نے بیدخل کیا تھا تو پاکستان میں سیاسی احتجاج نہیں ہو بلکہ سکوت چھایا رہا کیا وہ منتخب حکومت نہیں تھی؟ کیا جنرل مشرف کو کبھی بھی عوامی حمایت میسر رہی تھی؟ طاقت کے سامنے عوام کی خاموشی کبھی اطاعت نہیں سمجھی جاتی اگر آپ اس مفروضے کے مخالف ہیں تو پھر اپ نظریہ ضرورت کی بھی تائید کنندہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ بلا مزاحمت کابل کے صدارتی محل پر قبضے کے بدلے طالبان اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے ہیں یا تن تنہا حکمرانی کا راستہ منتخب کریں گے؟ افغانستان میں امن کا اسی سوال کے جواب پر منحصر ہے۔

لیکن نہیں بھولنا چاہیے کہ قبائلی سماجی نفسیات میں اپنے خریف سے انتقام لینا جبلت میں شامل ہے اگر کابل میں مشترکہ حکومت نہ بنی تو جنگ کے شعلے لپکیں گے۔ اور یہ بھی اگر طالبان نے اپنی امارت میں جدت اپنائی تو بھی اسے دستیاب عوامی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا۔ افغانستان تاحال امن استحکام اور تشویش کے بیچ لرہک رہا ہے۔

افغانستان میں جنم لینے والے حالیہ واقعات نے عالمی سطح پر سراسیمگی پیدا کی اور روایتی حکومتی گٹھ جوڑ بھی توڑ دیا ہے۔ میرا اشارہ برطانیہ امریکہ دو طرفہ تعلقات کی تاریخی جڑت کی جانب ہے۔ مغرب امریکہ تعلقات میں ماضی سی کیفیت موجود نہیں اور اپنی نئی مہم جوئی میں شراکت داری نہ کرنے کے برطانیہ نے بھی افغان پالیسی پر اختلاف کا اظہار کر دیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے طالبان کے فتح کابل کو مسترد کیا اور پوری دنیا اور خصوصاً مغربی ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عسکری ذرائع سے قائم ہونے والی طالبان حکومت کو تسلیم نہ کریں یہ موقف لندن اور واشنگٹن میں سفارتی فاصلے کی نشاندہی کرتا ہے دوحہ مذاکرات کے دوران برطانیہ خاموش رہا، جہاں طالبان کو دوبارہ برسر اقتدار لائے جانے کا ڈرامہ لکھا گیا، واشنگٹن نے اگر لندن کو تمام معاملات سے آگاہ رکھا ہوتا تو بورس جانسن عوامی سطح پر افغان صورتحال پر غم و غصہ کا اظہار نہ کرتا،

دوحہ مذاکرات کی جزئیات سے ایم آئی 6 نے تو برطانوی حکومت کو آگاہ رکھا ہوگا، بورس جانسن تب بھی چپ رہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ معاملہ آخری سین میں داخل ہو گیا ہے تو طالبان حکومت تسلیم نہ کرنے کی اپیل کردی۔

اس کہانی کو پلٹ کر دیکھیں تو کہا جاسکتا ہے تمام فریقین افغانستان کے معاملات کو عدم استحکام کی جانب لے جانے پر متفق ہیں اور اس بار طالبان کو ساتھ ملا کر گیم کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے پاکستان نیشنل سیکورٹی کے فیصلہ ساز اجلاس کے بعد طالبان سے اسلام آباد کے تعاون اور حکومت تسلیم کرنے کے لئے چار نکاتی درست نقاط پر مشتمل نکات ست مشروط کر دیا ہے جبکہ وزیراعظم کا فرمان ہے کہ افغان عوام نے طالبان کی واپسی کے ذریعے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں، یقیناً ابہام اور سیاسی بصیرت کا فقدان ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ ###


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments