افغانستان، طالبان اور امن کا خواب



جو لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے آنے کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ابھی تک طالبان کا مقابلہ اشرف غنی کی کرپٹ حکومت اور نالائق فوج سے تھا۔ بتائی گئی تین لاکھ افغان فوج میں سے زیادہ تر محض کاغذوں کی حد تک اور گھوسٹ سپاہی تھے۔ امریکی خزانے سے ملتی جن کی تنخواہیں ان کے کمانڈر اور وار لارڈز کھاتے رہے ہیں۔

ٹھیک ہے طالبان نے کابل پر بڑی آسانی سے قبضہ کر لیا مگر مجھے نہیں لگتا یہ مستقل یا دیرپا ثابت ہو سکتا ہے۔ مت بھولیں کہ افغانستان ایک کثیر القومی ملک ہے اور طالبان صرف پشتونوں کے ایک خاص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پشتون افغانستان کی کل آبادی کا 42 ٪ ہیں جبکہ بقیہ 58 ٪ میں تاجک آبادی کا 27 فیصد، ہزارہ لگ بھگ 10 فیصد، ازبک آٹھ فیصد جبکہ بلوچ، ترکمان، چہار ایمک اور نورستانی وغیرہ باقی آبادی پر مشتمل ہیں۔

پشتون افغانستان کے جنوبی علاقوں میں پاکستان کے ساتھ آباد ہیں جبکہ ہزارہ وسطی افغانستان میں رہتے ہیں تاجک زیادہ تر شمال مشرق میں اور کچھ ہرات کے قریب مغرب میں ایران کے ساتھ آباد ہیں۔ تاجک اور ہزارہ فارسی (داری) بولتے ہیں جو کہ افغانستان کی قومی زبان ہے۔ ہزارہ شیعہ کمیونٹی ہیں۔ جو پچھلے طالبانی دور میں خاص طور پر طالبان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے تھے۔ ازبک اور ترکمان شمال مغربی سرحدی علاقے میں بیٹھے ہیں۔ یہیں مزار شریف ہے۔

ان سب غیر پشتون لوگوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ سب طالبان کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ طالبان نے اگرچہ بہت ہوشیاری سے ساری جنگ لڑی ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے امریکہ اور افغان حکومت کو دوہا میں مذاکرات کے چکر میں الجھائے رکھا دوسری طرف ایک ایک کر کے 34 میں سے تیس کے قریب صوبوں پر قبضہ کر لیا۔ اور پھر تمام تر تجزیوں اور اندازوں کے برخلاف محض چند گھنٹوں میں کابل پر قابض ہو گئے۔

اس وقت افغانستان میں ہنگامی صورتحال ہے فی الحال کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کرنا ہے۔ مگر آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی عرصے میں افغانستان کی اندرونی کمزوری یعنی لسانی تنوع کسی کنفلکٹ کی صورت ظاہر ہوگا۔ طالبان مخالف گروہ پھر سے شمالی، وسطی اور مغربی افغانستان میں منظم ہوں گے اور طالبان کے خلاف ملک گیر مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔ افغانستان واپس 1990 کی دہائی والی صورتحال میں داخل ہو چکا ہے۔

اب افغانستان میں امن کا قیام ایک خواب ہی ہوگا۔ تاہم اس بار ہونے والی خانہ جنگی افغان تاریخ کی سب سے شدید خانہ جنگی ہوگی۔ پاکستان کو ممکنہ نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے جس میں ایک تو لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو ہمیں سنبھالنا پڑے گا وہیں پاکستانی طالبان بھی افغان طالبان کی کامیابی سے متاثر ہو کر پاکستان میں جہاد شروع کر سکتے ہیں۔

اس کے باوجود کہ طالبان باآسانی کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن طالبان کے لیے پورے افغانستان پر حکومتی رٹ بحال کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا خصوصاً دیہاتی اور غیر پشتون علاقوں میں انھیں جلد ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا طالبان کے لیے مزے سے بیٹھ کر حکمرانی کرنا مشکل ہوگا۔

دوسرا طالبان کے لئے سب سے بڑا چیلنج عالمی برادری کی تائید اور قبولیت حاصل کرنا ہے۔ میرا خیال ہے یہ بھی بہت مشکل کام ہوگا۔ سب سے پہلے اگر ہم افغانستان کے مشرقی ہمسائے چین کی بات کریں تو چین کو طالبان سے تحفظات ہیں۔ جن میں سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں علیحدگی پسندی کی تحریک ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے نام سے چل رہی ہے جس کے زیادہ تر جنگجو افغانستان میں روپوش ہیں اور چین کا یہ بہت پرانا مطالبہ افغان حکومت سے رہا ہے کہ وہ مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کے دہشتگردوں کو چین کے حوالے کریں۔

میرا خیال ہے چین اور طالبان کے بیچ معاملات اتنی جلدی نہیں سدھرنے والے۔ اسی طرح امریکہ یورپ، ایران اور بھارت وغیرہ کی تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لئے طالبان کو ابھی اچھا بچہ بن کر دکھانا ہوگا۔ تاہم دکھائی دے رہا ہے کہ آگے چل کر ترکی اور روس شاید طالبان کو تسلیم کر لیں۔

پاکستان کو بھی چاہیے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے بیشتر اپنے قومی مفادات کو دیکھ کر فیصلہ کرے اور ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی حوالگی یا کم از کم انھیں افغان سر زمین سے نکالنے کا مطالبہ طالبان کے سامنے رکھیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی صورتحال اور خواتین کے حقوق کے لیے پاکستان سمیت عالمی برادری کو طالبان پر دباؤ ڈالتے رہنا چاہیے۔

بہتر ہے پاکستانی سرکار طالبان کے ساتھ کچھ اسی قسم کا کوئی معاہدہ کر لے جس طرح کا معاہدہ امریکہ نے کیا ہے جس کی رو سے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہماری سرکار اگر طالبان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی ہے اور بغیر کسی شرط کے ہنسی خوشی طالبان کو قبول کر لیتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی جس کا خمیازہ آنے والے سالوں میں پاکستان کو بھگتنا پڑے گا۔ اسی لئے ہمیں جلد بازی کرنے کی بجائے عالمی برادری کی چال ڈھال کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے نہ کہ جذباتیت میں طالبان کو اپنے بچے اور شاگرد سمجھ کر آنکھیں بند کیے ان پر بھروسا کر لیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments