طالبان کی ’واٹس ایپ ہیلپ لائن‘ بند، طالبان کی آزادیٴ اظہار کے خلاف کارروائی پر تنقید


افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں نے عسکری گروپ سے وابستہ اکاؤنٹس کو بلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے شکایات کے اندراج کے لیے قائم کی گئی ایک واٹس ایپ ہیلپ لائن کو بند کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

دنیا کے مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے منگل کو کہا ہے کہ وہ طالبان کے افغانستان پر قبضے اور حکومتی امور میں مدد کے لیے مسیجنگ سروس استعمال کرنے کی کوشش کے بعد طالبان سے منسلک واٹس ایپ اکاؤنٹس کو بلاک کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق ترجمان فیس بک کا کہنا ہے کہ طالبان پر امریکی قانون کے تحت دہشت گرد تنظیم کے طور پر پابندی ہے اور ہم ہماری خطرناک آرگنائزیشن پالیسیز کے تحت ان کو اپنی خدمات سے روک رہے ہیں۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے انگریزی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ فیس بک نے تشدد اور لوٹ مار کی شکایات موصول کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے قائم کی گئی واٹس ایپ ہیلپ لائن بند کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’فنانشل ٹائمز‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ شہریوں کے لیے تشدد، لوٹ مار اور دیگر مسائل کی شکایت کے لیے یہ نمبر ایمرجنسی ہاٹ لائن تھا جسے فیس بک نے طالبان کے دیگر آفیشل چینلز کے ساتھ بلاک کر دیا ہے۔

واٹس ایپ کے ترجمان نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ کمپنی امریکی پابندیوں پر عمل درآمد کی پابند ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ اس میں بند کیے جانے والے وہ اکاؤنٹس بھی شامل ہیں جو خود کو طالبان کے آفیشل اکاؤنٹس کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

ان کے بقول ہم افغانستان کی بدلتی صورتِ حال پر متعلقہ امریکی حکام سے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم طالبان کے یا ان کی طرف سے چلائے جانے والے اکاؤنٹس بند کرتے ہیں اور ان کی تائید، حمایت اور نمائندگی پر پابندی لگاتے ہیں۔’

فیس بک نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے ماہرین کی ایک مخصوص ٹیم استعمال کر رہا ہے جو دری اور پشتو جانتے ہیں اور انہیں مقامی مواد کے بارے میں علم ہے۔

ادھر امریکی کمپنی کی جانب سے کارروائی پر طالبان کے ترجمان نے ملک میں ‘آزادی اظہار’ بند کرنے پر فیس بک پر تنقید کی۔

اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں انہوں نے آزادیٴ اظہار سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ یہ سوال ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے جو آزادیٴ اظہار کے دعوے دار بنتے ہیں اور تمام معلومات کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتے، یہ سوال آپ کو ان سے پوچھنا چاہیے۔ انہوں نے فیس بک کا حوالہ بھی دیا تھا۔

فیس بک کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیمز صورتِ حال کو قریب سے دیکھ رہی ہیں۔ فیس بک کسی خاص ملک کی جانب سے حکومت کو تسلیم کرنے پر فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس معاملے میں عالمی برادری کے اختیارات کا احترام کرتا ہے۔

ادھر جب فیس بک سے پوچھا گیا کہ آیا وہ طالبان کو افغان حکومت کے آفیشل فیس بک پیچز یا اکاؤنٹس استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ تو فیس بک نے اس بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں اس نے کہا ہے کہ وہ تسلیم شدہ حکومتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں عالمی برادری کے اختیار کا احترام کرتا ہے۔

علاوہ ازیں خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے رپورٹ کیا کہ یوٹیوب نے منگل کو کہا ہے کہ ان کی ایک طویل مدتی پالیسی ہے کہ وہ ایسے اکاؤنٹس کو اجازت نہیں دیتی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہو کہ یہ طالبان کے زیرِ انتظام ہیں۔

یوٹیوب سے پیر کو جب طالبان پر پابندی سے متعلق سوال کیا گیا تھا تو اس پر رائے دینے سے گزیر کیا تھا لیکن منگل کو کمپنی نے کہا کہ اس کی گروپ پر پابندی ایک دیرپا نقطۂ نظر ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ‘اے ایف پی’ اور ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments