درس معرکہ کربلا


جہاں اس کرہ ارض میں دیگر انقلابی فتوحات بے شمار قربانیوں و جدوجہد کا نتیجہ ہیں وہیں تاریخ اسلام بھی اپنے بطن میں عظیم و بے شمار قربانیوں کو پناہ دے چکی ہے۔ تاریخ اسلام میں نظریہ اسلام کی سینکڑوں مزاحمتی جنگیں و غزوات ہوئیں جن کی اہمیت و افادیت سے انکار کوئی صاحب ایمان نہیں کر سکتا مگر آج میں جس عظیم مزاحمتی نظریاتی معرکے کی طرف آپ احباب کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں وہ صرف تاریخ اسلام کی عظیم مزاحمتی جنگ نہیں بلکہ اس عظیم معرکے نے تا قیامت حق پر مزاحمت کرنے اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عظیم درس دیا خواہ حق کی بقاء کے لئے آپ کو کچھ بھی قربان کرنا پڑے۔ واقعہ کربلا میں پیش آنے والی عظیم قربانیوں نے نظریہ اسلام کو نئی زندگی فراہم کرتے ہوئے مزید استحکام و قوت بخشی۔ بقول ہند کے عظیم شاعر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کہ :

شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نا داد در دست یزید
حقاکہ بنائے لا الہ است حسین

واقعہ کربلا میں جن دو سوچوں کا ٹکراؤ تھا ان میں سے ایک سوچ یہ تھی اور وہ آج بھی یزیدیت کی روپ میں ہمارے معاشرے میں وجود رکھتی ہے کہ طاقت ہی حق ہے مگر اس کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی جو عظیم سوچ تھی کہ حق ہی طاقت ہے اور اس معرکے نے نظریہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو روز روشن کی طرح عیاں کر کے ثابت کر دیا کہ جیت ہمیشہ اسی کی ہوتی ہے جو حق پر ہوتا ہے باطلی قوتیں وقتی طور عبوری فتح تو حاصل کر لیتی ہیں مگر مستقلاً وہ ہمیشہ کے لیے مٹ کر رہ جاتی ہیں اور تاریخ انہیں ہمیشہ سیاہ حروف میں یاد کرتی ہے۔

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے مگر معرکہ کربلا نے اس فلسفے کو غلط ثابت کر دیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جان نہیں ہے پھر بھی کائنات تیری ہے امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ فلسفہ دیا کہ لٹ کے ہی تو سب کچھ آباد ہوتے ہیں۔ واقعہ کربلا ہمیں یہ عظیم درس دیتا ہے کہ یزید سب کچھ بچا کر بھی نا بچ سکا اور امام حسین رضی اللہ عنہ سب کچھ لٹا کر بھی زندہ و جاوید رہا۔

معزز قارئین معرکہ کربلا نے ظلم و جبر اور باطل کے خلاف ایک سخت قسم کی مزاحمت کا درس دیا اور یہ بھی پیغام دیا کہ حق کی فتح کے لئے صبر و استقلال کا دامن ہرگز مت چھوڑنا۔ باطلی قوتیں ہمیشہ حق کا راستہ روکنے کے لئے براہ راست جنگ نہیں کر سکتی اسی لیے وہ ہمیشہ آپ کی ضروریات حیات کو روکنے سمیت آپ کو کئی قسم کی مصائب و الام میں مبتلا کر کے حق کے الم کو جسمانی طور نحیف و کمزور بناتے ہوئے عبوری فتح حاصل کرتی ہیں۔

یزیدی سوچ کے پیروکار آج بھی ہمارے معاشرے میں طاقت کے نشے میں دھت ہو کر اپنے حقوق کی خاطر جنگ لڑنے والے جہد کاروں کا ذریعہ معاش روکنے سمیت ان کے اہل و عیال کو سخت قسم کی پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں جیسے یزید نے خاندان رسول ﷺ کے خوبصورت گلشنوں کا کھانا پینا بند کر کے ان کو جسمانی طور پر کمزور و نحیف بنانے کی بزدلانہ پالیسی اپنائی۔

ایک طرف یزدیدی فوج کا مسلح و جنگی ساز و سامان سے لیس ہزاروں افراد کا لشکر اور دوسری طرف گلشن رسول ﷺ کے تقریباً 72 افراد پر نہتے و کئی روز سے بھوکے پیاسے اور ننھے پھولوں پر مشتمل ایک مختصر سا لشکر اسلام کی حقانیت کا پرچم بلند کیے باطلی قوت کو میدان میں للکارتے ہوئے پورے عالم کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ طاقت ہی حق نہیں بلکہ اصل میں حق ہی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔

کربلا کے اس سفاکانہ و ظالمانہ معرکے میں امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے عظیم حوصلے حق کی صدا بلند کیے کبھی کمزور نہیں ہوئے اور انہوں نے اہل و عیال سمیت جام شہادت نوش فرما کر حق کا الم صبح قیامت تک بلند کر دیا اور حق پر مزاحمت کاروں و جہد کاروں کے لئے صبر و استقلال کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا درس دیا۔

ہزاروں میں بہتر تن تھے تسلیم و رضا والے
حقیقت میں خدا ان کا تھا اور یہ تھے خدا والے
یہ نعرہ حر کا تھا جس وقت فوج شام سے نکلا
کہ دیکھو یوں نکلتے ہیں جہنم سے خدا والے
حسین ابن علی کی کیا مدد کر سکتا تھا کوئی
وہ خود مشکل کشا تھے اور تھے مشکل کشا والے
شفائے درد عصیاں پنجتن کے در سے ملتی ہے
زمانے میں یہی مشہور ہیں دارالشفاء والے
حقیقت میں خدا ان کا تھا اور یہ تھے خدا والے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments