ذیابیطس اور اوسٹیوپوروسس


باہر دھوپ میں آجاؤ اور درختوں میں سانس لو۔ ایل ینگ

میڈیکل کالج میں ہم بیماریوں کے بارے میں انسائکلوپیڈیا کی طرح معلومات سیکھتے اور یاد کرتے ہیں۔ جب ڈاکٹر بن جانے کے بعد ہم مریض دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں ان الفاظ کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ جب میں نے نارمن ہسپتال میں 2010 میں کام کرنا شروع کیا تو ایک ویک اینڈ پر ہسپتال سے آرتھو پیڈک سرجری کے سینٹر سے ایک کانسلٹ کی درخواست موصول ہوئی۔ میں نے ان خاتون کو جاکر دیکھا۔ وہ ایک نہایت ہی شائستہ بوڑھی خاتون تھیں جو کولہوں کی ہڈی کے ٹوٹنے کے بعد ہسپتال میں داخل ہوئی تھیں اور ان کی سرجری ہوئی تھی۔ اینڈوکرنالوجسٹ کو اس لیے کانسلٹ کیا گیا تھا کہ اوسٹیوپوروسس (Osteoporosis) کے علاج کا مشورہ دیں۔

 ان خاتون کے اپنے کبھی بچے پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن انہوں نے تین بچے گود لے کر پالے تھے۔ ان کا بیٹا اپنے بچے کو گود میں لیکر ان سے ملنے آیا ہوا تھا جو ایک قانون دان تھا۔ اس خاندان سے مل کر میں نے خوشی محسوس کی۔ ان کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوجانے کے بعد ہمارے کلینک میں اوسٹیوپوروسس کے علاج کے لیے آنے کا مشورہ دینے کے بعد میں واپس گھر چلی گئی۔ جب پیر کے دن میں اپنے کلینک میں مریض دیکھ رہی تھی تو میرے پارٹنر اینڈوکرنالوجسٹ ڈاکٹر فیم نے میرے آفس میں آکر پوچھا کہ کیا میں نے ویک اینڈ پر کسی خاتون کو ہسپتال میں دیکھا تھا؟ میں نے کہا کہ جی ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ ابھی ہسپتال سے فون آیا ہے کہ وہ خاتون مر گئی ہیں۔ یہ بری خبر سن کر میں نے انتہائی افسوس اور دکھ محسوس کیا اور اس دن مجھے کتابوں میں پڑھے ہوئے نمبروں کا درست مطلب سمجھ میں آیا۔

 ہڈیاں انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہڈیوں کا پینسٹھ (65) فیصد حصہ کیلشیم اور فاسفورس سے بنا ہوتا ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کی بناوٹ میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسی بہت سی بیماریای ہیں جن میں ہڈیاں کمزور اور بھربھری ہو جاتی ہیں۔ اس بیماری کو اوسٹیوپوروسس کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں اوسٹیوپوروسس کی وجہ سے تقریباً اسی اشاریہ نو(80۔ 9) لاکھ فریکچر ہوتے ہیں۔ ہڈیوں کی ساخت کم ہو جانے اور ہڈیوں کی مضبوطی کم ہو جانے کو اوسٹیوپوروسس کہتے ہیں ۔ اوسٹیوپوروسس ایک خاموش بیماری ہے، یعنی اس کے بارے میں اس وقت تک معلوم نہیں ہوتا جب تک اس کو ڈھونڈنے کا ٹیسٹ نہ کیا جائے یا کسی مریض کی ہلکی سی چوٹ سے ہڈیاں نہ ٹوٹ گئی ہوں۔ اوسٹیوپوروسس میں مریض کو ہڈیوں کے فریکچر ہوجانے تک بظاہر کوئ بھی شکایت نہیں ہوتی۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ پچاس سال سے زائد افراد میں ہر تین میں سے ایک خاتون اور ہر پانچ میں سے ایک مرد میں فریکچر اوسٹیوپوروسس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہڈیوں کا ٹوٹنا ایک نہایت تکلیف دہ اور لمبی چوڑی بیماری ہے جس کا علاج کافی عرصے تک کرنا پڑتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کے بعد مریضوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچاس سال سے زیادہ عمر کے تقریباً بیس فیصد مریض کو لہے کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد ایک سال کے اندر چل بستے ہیں۔ہڈیوں کا گودا خون کے بہاؤ میں شامل ہو کر دل کی شریانوں میں جا کر پھنس جاتا ہے جس کی وجہ سے ان افراد میں دل کا دورہ پڑتا ہے۔ او سٹیو پوروس کی بیماری حالانکہ خواتین میں زیادہ عام ہے لیکن یہ مردوں اور خواتین سب کو ہو سکتی ہے۔ کئی مریضوں کو اس کے بعد چلنے پھرنے کے لئے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کافی افراد نرسنگ ہوم میں داخل ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق دنیامیں ہڈیوں کے بھر بھرے ہو جانے کی بیماری میں لوگوں کی طبعی عمر بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہونے کی توقع ہے۔اوسٹیوپوروسس کے شکار مریضوں میں اکسٹھ فیصد اکثریت خواتین کی ہے۔ اوسٹیوپوروسس میں سب سے زیادہ فریکچر کولہوں، ریڑھ کی ہڈی کی مہروں اور بازوؤں میں دیکھا جاتا ہے۔ ایسے افراد جن کو اوسٹیوپوروسس ہو ان کی ہڈی اتنی کمزور ہوتی ہے کہ معمولی سی چوٹ پر ٹوٹ جاتی ہے اور ان ہڈیوں میں کولہے کی ہڈی، بازو کی ہڈی اور مہروں کی ہڈی سب سے زیادہ فریکچر ہوتی ہے۔

تصویر نمبر 1: نارمل اور اوسٹیوپوروسس کے ساتھ ہڈیوں کا موازنہ

اوسٹیوپوروسس کے خطرے میں کون سے افراد شامل ہیں؟

ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اوسٹیوپوروسس ہو جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل افراد کو یہ بیماری ہوتی ہے۔

– عمر رسیدہ خواتین۔

-سفید فام لوگ اس بیماری میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔

-کم وزن والے افراد کو اوسٹیوپوروسس کی بیماری زیادہ ہوتی ہے۔

-ایسے افراد جن کے خاندان میں یہ بیماری ہو ان کو بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔

-ضعیف العمر افراد اس بیماری میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔

-ایسے افراد جن کو پہلے بھی فریکچر ہوا ہو۔(یاد رہے کے اگر کسی کو پہلے بھی فریکچر ہوا ہو تو دوسرا فریکچر ہونے کا خطرہ چھیاسی فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔)

-کم متحرک رہنے والے افراد کو یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے۔

-سگریٹ نوشی کرنے والے افراد

-شراب نوشی کرنے والے افراد

-کیلشیم کی کمی والے افراد

– مینوپاز کے بعد خواتین (ایسی خواتین جن میں عمر رسیدگی کے باعث ماہواری بند ہو گئی ہو۔)

-ایسے مرد جن میں ٹیسٹوسٹیرون ہارمون کی کمی ہو۔

-ایسے افراد جن کو ذیابیطس (Diabetes) ہائپرتھایرایڈزم (Hyperthyroidism) ، ہائپرپیراتھایرایڈزم (Hyperparathyroidism)، آنتوں سے غذا درست طریقے سے جذب نہ ہوسکنے کی بیماری(Malabsorption/Celiac disease ) ،جگر یا گردوں کی بیماری وغیرہ ہو۔

-ایسے افراد جو مختلف قسم کی ادویات استعمال کرتے ہوں جیسے کہ سٹیرائڈ(Steroid)، مرگی کے دورے کی ادویات، خون پتلا کرنے والی دوا ہیپرین(Heparin)، اور فینیٹوئن (Phenytoin) وغیرہ۔ اس کے علاوہ ذیابیطس کی دوا پایوگلٹازون (Pioglitazone) سے بھی ہڈیاں بھربھری ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

-پیدائشی بیماریاں جیسے کہ ہوموسیسٹین یوریا(Hmocystineurea)، پورفائریا(Porphyria’s)، گاشرز بیماری(Guacher’s disease) وغیرہ ۔
پچاس فیصد ہڈیوں کی کثافت اور بنیادی ساخت 18 سے 20 سال تک کی عمر تک بن جاتے ہیں۔ اس لیئے بچوں کی غذا میں دودھ اور اس سے بنی اشیاء کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ ہڈیوں کی اچھی صحت کے لئے جسم میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کا مناسب مقدار میں ہونا نہایت اہم ہے۔ کیلشیم اور فاسفورس ہڈیوں کے نہایت اہم جزو ہیں۔ کیلشیم دودھ اور اس سے بنی اشیاء میں سب سے زیادہ موجود ہو تا ہے۔ اگر وٹامن ڈی کی کمی ہو توآنتیں غذا میں موجود کیلشیم کو اچھی طرح سے خون میں جذب نہیں کر پاتیں ۔ وٹامن ڈی سورج کی شعاعوں کی مدد سے انسانی جلد میں بھی بنتا ہے۔ آجکل بازار میں ملنے والے دودھ اور پنیر وغیرہ میں وٹامن ڈی شامل کیا جاتا ہے۔ جو خواتین گھر سے بالکل باہر دھوپ میں نہیں نکلتی ہوں تو ان کو چاہئے کہ وٹامن ڈی سے بھری غذا یااس کی گولیاں کھا کر اس کمی کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کریں کیونکہ وٹامن ڈی کی کمی سے ہڈیوں کے کمزور ہو جانے کے علاوہ بھی اور کئی نقصانات پہنچتے ہیں۔

ذیابیطس کے مریضوں کو اوسٹیوپوروسس ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن افراد میں ذیابیطس تھی ان کی ہڈیوں کی مضبوطی کم تھی اور ان میں فریکچر بھی زیادہ ہوئے۔ چونکہ ٹائپ ون ذیابیطس کی بیماری بچپن سے شروع ہوتی ہے اور پچاس فیصد ہڈیوں کی کثافت بھی اسی عمر میں بنتی ہے لہٰذا ٹائپ ون ذیابیطس میں ہڈیاں زیادہ کمزور دیکھی گئی ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں انسولین کی کمی ہوتی ہے اور ہڈیوں کی مضبوطی میں انسولین کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ خواتین جن کو ٹائپ ون ذیابیطس ہو اور ان کی ماہواری کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو ایسی خواتین میں اوسٹیوپوروسس کی بیماری زیادہ دیکھی گئی ہے۔ ایسی خواتین میں کولہے کی ہڈی کا فریکچر خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس والے افراد میں بھی اوسٹیوپوروسس کی بیماری دیگر افراد سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں بون منرل ڈینسٹی (Bone Mineral Density) بظاہر نارمل ہوسکتی ہے کیونکہ ان میں سے اکثر مریضوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ سمجھنا ضروری ہے کہ صرف ہڈی کی کثافت سے اس کی مضبوطی کا اندازہ مکمل طور پر ممکن نہیں ہے۔

ٹائپ ٹو ذيابیطس میں خون میں شوگر لیول زیادہ ہونے اور انفلامیشن کے زياده ہونے سے خلیے کی سطح پر ایک غیر صحت مند ماحول پیدا ہو جاتا ہے جس سے ہڈیوں کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی خواتین میں جن کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہو انکا کولہے کی ہڈی فریکچر ہونے کا خطره دو گنا بڑھ جاتا ہے۔ مزید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین عمر میں پینسٹھ سال سے زیادہ ہیں اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہیں ایسی خواتین میں کولہے کی ہڈی اور بازو کی ہڈی فریکچر ہونے کا خطرہ کافی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے افراد عموماً عمر دراز افراد ہوتے ہیں اور انکو اور بھی بیماریاں ہوتی ہیں جیسے کہ بلڈ پریشر زیادہ ہونا (Hypertension)، یادداشت کھو جانے کی بیماری (Dementia)، دل کے امراض وغير ه جس کی وجہ سے ایسے افراد جسمانی طور کمزور ہوتے ہیں اور ان میں گرنے کا خطره دگنا ہو جاتا ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے بینائی میں مسائل ہوتے ہیں اور عصبی عارضےکے مسائل کی تکلیف اکثر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں مریضوں کو جوڑوں کے مسائل کی تکلیف بھی رہتی ہے جس کی وجہ سے گر کر ہڈیاں فریکچر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ہڈیوں کے بھربھرا ہو جانے کی نشانیاں اور علامات

جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے، اوسٹیوپوروسس ایک خاموش بیماری ہے اور اس بیماری کا اکثر مریضوں کو اس وقت تک معلوم نہیں ہوتا جب تک کہ ہڈی ٹوٹ نہ جائے۔ ہڈی ٹوٹ جانے سے شدید درد کا احساس ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھا جائے کہ اکثر عمر رسیدہ افراد میں ہڈی ٹوٹنے کا اکثر مریضوں کو معلوم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اوسٹیوپوروسس کی شناخت کرنے میں دیر ہو تی ہے۔ یہ لوگ تکلیف میں ہوتے ہیں لیکن فریکچر کے بارے میں تبھی معلوم ہوتا ہے جب وہ ایکس رے میں دکھائی دے جائے۔ کافی لوگ تکلیف برداشت کرتے رہتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے نہیں جاتے۔ کچھ مریضوں میں ریڑھ کی ہڈیوں کے مہروں کے ٹوٹنے پر کمر میں شدید درد ہوتا ہے جوکہ اکثر دونوں یا ایک پاؤں کی طرف جاتا ہے اور ان مریضوں کی کمر جھک جاتی ہے جس کو ڈواگرز ہمپ(Dawager’s Hump) کہتے ہیں ۔ کمر کا جھک جانا بہت عام ہے اور اکثر عمر رسیدہ افراد کی کمر اس وجہ سے جھک جاتی ہے۔

مہروں کی ہڈی کے فریکچر کے علاوہ کولہے اور بازو کی ہڈی کا فریکچر بہت عام ہے جس کی وجہ سے شدید لمبے عرصے تک جاری رہنے والا درد، ڈپریشن(Depression) اور معذوری جیسی علامات دیکھی گئی ہیں۔ مہروں کی ہڈی کا فریکچر زندگی کے عام کام کرنے سے ہو جاتا ہے یعنی ضروری نہیں کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہو اور اگر کسی اوسٹیوپوروسس کے مریض کو ایک بار ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا فریکچر ہوتا ہے تو ان افراد میں مزید مہروں کے فریکچر ہونے کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد پچاس سال سے زیادہ عمر کے پندرہ سے بیس فیصد افراد ایک سال کے اندر وفات پا جاتے ہیں اور بیس سے پچاس فیصد افراد کولہے کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد بستر تک محدود ہو جاتے ہیں اور ڈپریشن اور اکیلے پن جیسے مزید مسائل سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

اوسٹیوپوروسس کی بیماری میں فراجیلیٹی فریکچر (Fragility fracture) کو سمجھنا اہم ہے۔ اگر کوئی بھی شخص اپنے قد کے برابر اونچائی سے گر جائے تو عام حالات میں اس کی ہڈیوں کو ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ اپنے قد کی اونچائی سے گر کر جن افراد میں ہڈیاں ٹوٹ جائیں تو یہ بات نارمل نہیں ہے اور اس کو فراجیلیٹی فریکچر کہتے ہیں جو کہ اوسٹیوپوروسس کا شبہ بڑھا دیتا ہے۔ اوسٹیوپوروسس کی تشخیص ڈیکسا اسکین سے کی جاتی ہے۔ جس میں ان مریضوں کی ہڈیوں کی کثافت دو اشاریہ پانچ سٹینڈرڈ ڈیوئشن سے کم ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا، ڈیکسا اسکین سو فیصد تشخیص نہیں کرسکتا ہے اور اس صورت حال میں فریکس سکور ( FRAX ) ناپتے ہیں۔ فریکس اسکور کوئی بھی اس کی ویب سائٹ پر جاکر دس سادہ سوالوں کے جواب دے کر ناپ سکتا ہے۔ جن افراد میں معمولی سی چوٹ لگنے پر ہڈی فریکچر ہو جائے، ان میں بھی اوسٹیوپوروسس کی بیماری تشخیص کی جاتی ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ اوسٹیو پوروس ایک خاموش بیماری ہے۔ اس لئے یہ نہایت اہم ہے کہ جو لوگ اس بیماری کے خطرے میں ہوں ان کو پہلے سے پہچان کر ان کا مناسب علاج کیا جائے تا کہ یہ افراد فریکچر سے بچ سکیں۔ فریکچر ہونا ایک نہایت تکلیف دہ بیماری ہے جس سے معذوری اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔

ڈیکسا اسکین (DXA scan)ایک طرح کی ایکسرے مشین ہوتی ہے جس سے کمر کے نچلے حصے اور ران کی ہڈی کے اوپر والےحصے میں موجود ہڈیوں کی مضبوطی اور اس کے آرکیٹکچر کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ہڈیوں کی کثافت کا نارمل صحت مند بالغ افراد کی ہڈیوں کی کثافت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اگر کسی مریض کی ہڈیوں کی کثافت نارمل سے دو اعشاریہ پانچ سٹینڈرڈ ڈیوئشن سے کم ہو تو اوسٹیو پوروسس کی بیماری تشخیص کی جاتی ہے۔ یہ سمجھیں کہ ایک اسٹینڈرڈ ڈیوئشن تقریباًدس فیصد کثافت کے نقصان کا پیمانہ ہے۔ ہڈیوں کے بھربھرے ہونے کو تشخیص کرنے کے بعد اس کا مناسب علاج کیلشیم، وٹامن ڈی ، باقاعدہ ورزش اور کچھ دوائیوں سے کیا جاتا ہے۔ ڈیکسا اسکین کی رپورٹ کی ایک مثال دی گئی تصویروں میں ملاحظہ فرمایئے۔ جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں ایکس رے رپورٹ سے بھی ہڈیوں کی کثافت کم ہو جانے کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے لیکن جب تک ہڈیوں کا بھربھر ہو جانا ایکس ر ے میں دکھائی دینے لگے تو اس وقت تک ہڈیوں کی کثافت میں میں تقریبا” تیس فیصد تک کمی آچکی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ بات نہایت اہم ہے کہ اوسٹیو پوروس کی بیماری کے زیادہ خطرے میں موجود لوگوں کو بیماری سنگین حد تک بڑھنے سے بچانے کے لیے پہچان کر ان کی بروقت ڈیکسااسکین کے ذریعے تشخیص کی جائے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک آن لائن کیلکولیٹر بنایا ہے جس میں کوئی بھی مریض خود اپنی انفارمیشن ڈال کر آسانی سے مفت میں اپنا اسکور معلوم کرسکتا ہے۔ اس کے لئے آپ کوڈیکسا اسکین مشین کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ فریکس کیلکولیٹر اسی لئے بنایا گیا ہے تاکہ دنیا میں جہاں بھی لوگوں کے پاس ڈیکسا اسکین مشین موجود نہ ہو تو بھی وہ اوسٹیو پوروسس کے خطرےکے بارے میں جان سکیں۔

تصویر نمبر 2: فریکس آن لائن کیلکولیٹر

https://www۔ sheffield۔ ac۔ uk/FRAX/tool۔ aspx?country=51

جیسا کہ آپ تصویر نمبر 2 میں دیکھ سکتے ہیں، اس آن لائن کیلکولیٹر میں خانے بنے ہوئے ہیں جن میں آپ اپنی عمر, وزن، قد، فیملی ہسٹری اور ذاتی صحت سے متعلق چند سوالات کے جواب دے کر کیلکولیٹ کے بٹن کو دبائیں تو یہ آپ کو بتادے گا کہ اگلے دس سال کے اندر آپ کو ان کی ہڈی یا کہیں بھی اور جگہ پر کسی بڑے فر یکچر کا کتنا خطرہ ہے۔ اگر ران یا کولہے کی ہڈی میں فریکچر کا خطرہ اگلے دس سال میں تین فیصد سے زیادہ ہے اور جسم میں کہیں اور ایک بڑے فریکچر کا خطرہ بیس فیصد سے تجاوز کر جائے توان مریضوں کو اوسٹیو پوروسس کا علاج اس کی دوائیوں سے کرناضروری ہے تا کہ ان فریکچروں سے بچا جا سکے۔ یہ نمبر ہم نے این او اف یعنی کہ نیشنل او سٹیو پروس فاونڈیشن سے لئے ہیں جو امریکہ میں علاج کافیصلہ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں علاج شروع کرنے کے لئے مختلف پرسنٹیج ( Percentage) کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ وہ بات اپنی جگہ لیکن فریکس آن لائن کیلکولیٹر ہڈیوں کے فریکچر ہونے کے خطرے کو ناپنے کے لئے مفید ہے۔

اوسٹیوپوروسس سے بچاؤ کیسے کیا جائے؟

نیشنل اوسٹیوپوروس فاونڈیشن کے مطابق تمام خواتین جن کی عمر پینسٹھ(65) سال سے زیادہ ہو اور تمام مرد جن کی عمر 70 سال سے زیادہ ہو، ان کو ڈیکسا اسکین سے چیک کرنا چاہئے۔ ایسی خواتین اور مردوں کو بھی چیک کرناچاہئے جن کی عمرپینسٹھ(65) سال سے کم ہو لیکن ان میں اور ایسی بیماریاں موجود ہوں جن کی وجہ سے ان میں اوسٹیو پروسس اور فریکچر ہونے کا خطرہ زیادہ ہو۔ ایسے مریض جن کو گرنے کا خطرہ زیادہ ہو اور درد کی ایسی دوائیں استعمال کرتے ہوں جو نشہ آور ہوں تو ان کو نائٹ لائٹ یعنی رات میں جلانے والی دھیمی روشنی استعمال کرنے کا مشورہ دینا چاہیئے اور ایسے قالین بچھانے سے گریز کرنا چاہیئے جن میں پیر الجھنےسے گرنے کا اندیشہ ہو۔

اوسٹیوپوروسس سے بچاؤ کے لیے بالغ افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا اچھی رکھیں۔ ایسی غذا لیں جس میں کیلشیم زیادہ ہو۔ یاد رہے کہ صرف کیلشیم کی دوا لینے سے جسم کی کیلشیم کی ضرورت پوری نہیں ہوتی لہذا ایسی اشیاء لیں جس میں کیلشیم زیادہ ہو۔ یہ ضروری ہے کہ تمام افراد روزانہ ہزار ملی گرام کیلشیم لیں اور ایسی خواتین جن کو ماہواری نہیں ہوتی ان کو بارہ سو ملی گرام کیلشیم روزانہ لینی چاہیے تاکہ ان کی ہڈیاں بہتر ہوں۔ گیارہ سے چوبیس سال کے درمیان افراد کو تقریباً بارہ سو ملی گرام کیلشیم روزانہ لینی چاہیے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک عام آدمی تقریباً پانچ سو ملی گرام کیلشیم روزانہ لیتا ہے لہذا جن افراد کی غذا میں کیلشیم کی کمی ہوتی ہے اور وہ کیلشیم نہیں لے پاتے ایسے افراد کو کیلشیم کی ادویات لے کر اس کی کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ اوسٹیوپوروسس سے بچنے کیلئے تمام افراد کو وٹامن ڈی کو اپنی غذا کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ ایک عام آدمی کو تقریباً چھ سو وٹامن ڈی انٹرنیشنل یونٹ روزانہ لینے چاہیئں۔

دھوپ میں جانے سے وٹامن ڈی کا لیول بہتر ہوجاتا ہے لیکن اس کے بارے میں اس لیے زور نہیں دیا جاتا ہے کیونکہ زیادہ دھوپ کھانے سے جلد میں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ روزانہ ورزش کرنے سے بھی اوسٹیوپوروسس سے بچا جا سکتا ہے۔ غذا میں پروٹین شامل کرنے اور جسم کے مناسب وزن رکھنے سے بھی اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے یعنی کہ وزن کم بھی نہ ہو اور زیادہ بھی نہ ہو۔ سگریٹ اور شراب نوشی سے بھی اوسٹیوپوروسس ہو جاتا ہے اس لیے ایسی چیزوں سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی زندگی میں صحت مند چیزوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ انٹرنیشنل اوسٹیوپوروسس فاؤنڈیشن کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ فریکچر ہونے سے پہلے اس بیماری کی تشخیص کی جائے اور اس کا علاج کیا جائے۔

اوسٹیو پوروسس کے علاج میں کیلشیم اور وٹامن ڈی اہم بنیادی حصہ ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے ہڈیاں ایک ساکت شے نہیں بلکہ ان کے خلئیے نئے بنتے ہیں اور پرانے ٹھکانے لگائے جاتے ہیں۔اوسٹیوپوروسس کا علاج ممکن ہے اور ایسی کافی ادویات ہیں جن سے اوسٹیوپوروسس کا علاج ممکن ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اوسٹیوپوروسس کے علاج سے کولہے کی ہڈی کا فریکچر ہونے کا خطرہ چالیس فیصد تک کم ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ مہروں کا فریکچر بھی تیس سے ستر فیصد کم ہو جاتا ہے۔ ریسرچ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اوسٹیوپوروسس کے علاج سے پندرہ سے بیس فیصد تک باقی جسم کے فریکچر میں بھی کمی دیکھی جاتی ہے۔

کیلشیم کی ادویات کا استعمال ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق مناسب ہے۔ کچھ افراد کو کیلشیم کی گولیوں سے معدے میں درد اور قبض جیسے مسائل پیش آ سکتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ دوائیاں شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

سورج کی الٹراوایولیٹ شعاعوں کی مدد سے جلد میں موجود کولیسٹرول سے وٹامن ڈی بنتا ہے۔ وٹامن ڈی آنتوں سے کیلشیم جذب کرنے کے علاوہ بھی بہت سے اہم کام کرتا ہے۔ لہٰذا وٹامن ڈی بہت ضروری ہے۔ اکثر افراد کی غذا میں کیلشیم صحیح مقدار میں ہوتا ہے پر کیونکہ ان کے جسم میں وٹامن ڈی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کیلشیم جذب نہیں ہوتا اور ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ ایک عام آدمی کو تقریباً چھ سو انٹرنیشنل یونٹ وٹامن ڈی غذا میں لینا چاہیے تا کہ اس بیماری سے بچا جا سکے اور اگر کسی کو اوسٹیوپوروسس ہے تو اسے تقریباً آٹھ سو وٹامن ڈی انٹرنیشنل یونٹ روزانہ غذا میں لینے چاہیے۔ وٹامن ڈی کی شدید کمی میں اس سے زیادہ بھی دیا جاتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے، ہڈیاں ساکت نہیں بلکہ مستقل پرانے خلیے ختم کرکے نئے خلیے بناتی ہیں۔ اس نظام کو ری ماڈلنگ کہتے ہیں۔ اس سے ہڈیوں کی مضبو طی قائم رہتی ہے۔ اوسٹیوپوروسس کی دواؤں کو دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک وہ جو نئے خلیے بناتی ہیں اور دوسری وہ جو پرانے خلیوں کو تباہ کرنے سے روکتی ہیں۔ ان دونوں طرح کی دواؤں سے اوسٹیوپوروسس کی بیماری میں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جن میں اوسٹیوپوروسس کا مرض شدید ہوتا ہے ان افراد میں بسفاسفونیٹ (Bisphosphonates) ، پرولیا / ڈینوسوماب (Prolia/Denosumab) ، فورٹیو/ٹیری پیراٹائڈ (Forteo/Teriperatide) ، ٹملوس یا ابیلو پیراٹائڈ (Tymlos/Abaloparatide) یا ایوینیٹی /روموسوزوماب(Evenity/Romosozumab) جیسی ادویات سے اس مرض کا علاج ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔

بسفاسفونیٹ (Bisphosphonates)
یہ دوائیں ہڈیوں کے پرانے خلیوں کو ٹھکانے لگانے والے نظام کے خلاف کام کرتی ہیں۔ اوسٹیوپوروسس کی بیماری میں بسفاسفونیٹ (Bisphosphonates) سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا ہے۔ بسفاسفونیٹ کے زمرے میں الینڈرونیٹ (Alendronate)، راسیڈرونیٹ (Risedronate) ، زولیڈرونیٹ (Zoledronic Acid) وغیرہ آتی ہیں۔ الینڈرونیٹ کی مقدار 70 ملی گرام ہے اور اس کو ہفتے میں ایک مرتبہ لیتے ہیں۔ راسیڈرونیٹ کو مہینے میں ایک مرتبہ لیتے ہیں۔ ان ادویات سے ہڈیوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ ان منہ سے لینے والی بسفاسفونیٹ دواؤں سے سینے میں جلن اور پیٹ میں درد کی شکایات پیدا ہوسکتی ہیں جس کی صورت میں نسوں کے ذریعے زولیڈرونک ایسڈ 5 ملی گرام دے سکتے ہیں۔ یہ دوا سال میں ایک مرتبہ دی جاتی ہے۔

بسفاسفونیٹ دواؤں کے پانچ سال کے مسلسل استعمال کرنے کے بعد مناسب مریضوں کو دوا سے چھٹی دی جاتی ہے کیونکہ جن مریضوں نے طویل عرصہ تک یہ دوا استعمال کی ان میں نارمل ری ماڈلنگ نہ ہونے کی وجہ سے ران کی ہڈیوں میں ایک مختلف طرح کے فریکچر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا جن کو اے ٹیپیکل فیمورل فریکچر (Atypical femoral fractures) کہتے ہیں۔

ایسٹروجن کے سسٹم پر اثر انداز ہونے والی ادویات

زیادہ محفوظ اور مفید علاج میسر ہونے کے باعث یہ دوائیں آجکل اوسٹیوپوروسس کے علاج کے لیے تجویز نہیں کی جاتی ہیں۔ یہاں ان کا زکر اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ خواتین میں ہارمون کی کمی کی صورت میں کچھ حالت میں تجویز کی جاتی ہیں۔ اس زمرہ میں سلیکٹو ایسٹروجن ریسیپٹر موڈیولیٹر(Selective Estrogen Receptor Modulator) جیسے کہ ریلوکسافین یا ٹیموکسافین آتے ہیں اور ایسٹروجن ہارمون تھراپی(Estrogen Hormone Therapy) جیسی ادویات آتی ہیں۔ اس طرح کی ادویات بہت احتیاط سے استعمال کرنی چاہیے کیونکہ ان ادویات سے چھاتی اور بچہ دانی کے سرطان کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس زمرہ کی ادویات کے ساتھ پلمونری ایمبولزم (Pulmonary Embolism)، ڈ یپ وین تھرومبوسس(Deep Vein Thrombosis)، سٹروک(Stroke)جیسی مزید بیماریاں ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔
پرولیا یا ڈینوسوماب (Prolia or Denosumab)

پرولیا یا ڈینوسوماب انجیکشن کی صورت میں دستیاب ہے ۔ یہ بھی ہڈیوں کے پرانے خلیوں کے تباہ ہونے کو آہستہ کرتی ہے اور اس کے استعمال سے ہڈیوں میں مضبوطی آ تی ہے اور فریکچر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اگر کوئی مریض ڈینوسوماب لے رہا ہے تو اس کو یہ دوا باقائدگی سے ہر چھ ماہ لینی چاہیے کیونکہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ڈینوسوماب چھوڑنے پر ہڈیوں کی کثافت پھر سے کم ہوجاتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کا فریکچر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جبڑے کی ہڈیوں کو نقصان پہنچنا اس دوا کے سنجیدہ سائڈ افیکٹ میں شامل ہے لیکن اس کا خطرہ علاج سے ملنے والے فائدے کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ پرولیا کا ٹیکہ ہر چھ ماہ میں ایک مرتبہ لگایا جاتا ہے۔ اس دوا کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ان افراد کو بھی دی جاسکتی ہے جن میں گردوں کی فعالیت میں کمی واقع ہوگئی ہو۔

ٹملوس یا ابیلو پیراٹائڈ (Tymlos/Abaloparatide)

ٹملوس کی دوا کا ٹیکہ انسولین کے ٹیکے کی طرح چھوٹی سی سوئی سے روزانہ ایک مرتبہ لگایا جاتا ہے۔ اس کو مریض خود ہی لگا لیتے ہیں۔ یہ ٹیکہ 18 مہینے تک لگایا جاتا ہے۔ ٹملوس کی دوا ہڈیوں کے نئے خلیے بنانے میں مدد کرتی ہے اور اس کو ہڈیوں کا معمار بھی کہتے ہیں۔

جو افراد یہ دوا لیتے ہوں ، ان میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہوسکتی ہے اس لیے ان کو ہر کچھ ماہ میں خون کے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہوگی۔ جن افراد میں گردوں ٹھیک سے کام نہ کرتے ہوں، ان کو یہ دوا دینا مناسب نہیں ہے۔

 ایوینیٹی (Evenity)

یہ دوا مہینے میں ایک مرتبہ انجیکشن کے زریئے دی جاتی ہے۔ اس دوا میں دو طرح کی دوائیں شامل ہیں جن میں سے ایک ہڈیوں کے نئے خلیے بناتی ہے اور دوسری پرانے خلیوں کو تباہ ہونے سے روکتی ہے۔ یہ دونوں مل کر ہڈیاں مضبوط بناتی ہیں اور ان کو دینے سے مریضوں میں فریکچر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ یہ دوا صرف بارہ مہینے دی جاتی ہے۔

تصویر نمبر 3: ڈیکسااسکین کی ایک رپورٹ

تصویر نمبر 3 میں یہ ڈیکسا اسکین کی نچلی کمر کی ہڈیوں کی کثافت کی رپورٹ کی ایک مثال ہے۔ ہڈیوں کی کثافت دس فیصد کم ہو تو وہ ایک ٹی اسکور کے برابر ہوتا ہے۔ ایک سے ڈھائی اعشاریہ منفی ٹی اسکور ہو تو ا س کو اوسٹیو پینیا (Osteopenia) کہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کے اس مریض کا ٹی اسکور ایک جگہ منفی دو اعشاریہ پانچ ہے جس کا مطلب ہے کہ اس مریض کو اوسٹیو پوروسس (Osteoporosis) کی بیماری ہے۔ تمام اسکین کی ہوئی جگہوں میں سے سب سے کم ٹی اسکور کو تشخیص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

تصویر نمبر 4: ڈیکسا اسکین کی ایک رپورٹ کی مثال

تصویر نمبر 4 میں ڈیکسا اسکین کے دوسرے حصے میں ران کی ہڈی کی کثافت کی رپورٹ دی گئی ہے۔ اگر ایک جگہ بھی اوسٹیو پوروسس موجود ہو تو چاہے اور دوسری ہڈیوں کی کثافت اتنی زیادہ کمزور نہ بھی ہو تو اس مریض کو اوسٹیو پوروسس کا مریض ہی کہا جائے گا اور علاج بھی ویسے ہی کیا جائے گا۔

امید ہے کہ اس مضمون سے اوسٹیوپوروسس کی بیماری کے بارے میں قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوا ہوگا۔ مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے رجوع کریں۔

https://www۔ medicinenet۔ com/osteoporosis/article۔ htm

https://www۔ osteoporosis۔ foundation/

https://www۔ nof۔ org/

https://www۔ mayoclinic۔ org/diseases-conditions/osteoporosis/diagnosis-treatment/drc-20351974

نوٹ: اس مضمون کو لکھنے میں مدد فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹر اوسامہ سلمان کا شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments