آج آکھاں وارث شاہ نوں


ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوتی ہے اور پھر وہ ہر پاکستانی کی نظر سے گزرتی ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہے۔ ہر صاحب درد شخص اس واقعہ کے بعد اس ویڈیو میں موجود خاتون کی پریشانی اور دکھ کو محسوس کرتا ہے۔ میری حالت بھی کچھ ایسی ہے کہ مسلسل سوچ میں مبتلا ہوں اور ایک اذیت میں ہوں کہ بس یہ ہی خیال ستائے جا رہا ہے کہ کون محفوظ ہے؟ اس سانحہ سے مماثلت رکھتا واقعہ چند سال پہلے جرمنی کے شہر کولون میں سال نو کے آغاز کی تقریب میں رونما ہوا تھا۔ اس واقعے میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مردوں  نے خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو ہراساں کیا تھا۔ ہزاروں کیس رجسٹر ہوئے تھے جس میں ریپ کیسز بھی تھے۔

ہجوم جہاں بھی ہو خطرناک ہوتا ہے اور خاص طور ایسا ہجوم جو سمجھ بوجھ عقل و خرد سے نابلد ہو۔ وہ شتر بے مہار کی طرح ہوتا ہے۔ جرمنی میں اس واقعہ سے پہلے جنسی ہراسانی کوئی بہت بڑا جرم نہیں تھا۔ لیکن بعد میں اس پر ایک قانون بنایا گیا اور اس کو سیریس جرم تصور کیا گیا۔ اس واقعے کے بعد بہت سے سخت اقدامات کیے گے جس پر حکومت کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا جیسے کہ بہت سے غیر ملکیوں کی جرم کی صورت میں جرمنی سے بے دخلی۔

لیکن اس قانون سازی کے بعد کبھی جنسی ہراسانی کے واقعات دوبارہ سننے کو نہیں ملے جرمنی میں اس واقعے کے بعد جب تحقیقات سٹارٹ ہوئی تو ان لوگوں نے فائنڈنگ اپنی قوم کے سامنے رکھی تو اس میں زیادہ تر جو ملزم تھے ان کا تعلق یورپ سے نہیں تھا بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے سربراہ کا بیان جو آیا تھا وہ یہ تھا کہ نامزد ملزموں کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جہاں خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ انہوں نے تو ان ممالک کے نام بھی ساتھ دیے تھے۔ لیکن میں وہ نہیں لکھ رہا۔

ہمارے معاشرے کی اور ان ممالک (جن کی جرمن اداروں نے نشان دہی کی ) کے معاشرے کی بات کی جائے تو ایک چیز قدرے مشترک دکھائی دیتی ہے وہ کہ مردوں نے عورت کو انسان نہیں سمجھا بلکہ ایک مافوق فطرت شے جانا۔ یعنی صرف ایک جسم ہے جو لذت فراہم کرتا ہے اس کے آگے کچھ نہیں۔ شاید اس لیے ان معاشروں کی خواتین پبلک مقامات پر خود کو محفوظ نہیں سمجھتی اور ان کو ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔ افسوس ہے کہ کوئی ہاتھ سے ان کو سہلاتا ہے تو کوئی آنکھ سے۔

لیکن ہم جب ان معاشروں کا تقابل کرتے ہیں جو ہمارے ہاں مادر پدر آزاد تصور کیے جاتے ہیں تو ہماری خواتین کی نسبت وہاں کی عورت خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ وہ کیا اقدام ہیں جو عورت کو زیادہ محفوظ بناتے ہیں۔ اس میں ایک قانون کی بالا دستی اور دوسری اہم چیز عزت۔ اگر عورت کو انسان سمجھ کر اس کو عزت دی جائے گئی تو وہ مرد کی ہی طرح پبلک مقامات پر پبلک ٹرانسپورٹ میں آ جا سکے گئی اور عورت خود کو مضبوط بنا سکے گی۔

ان ترقی یافتہ ممالک میں جب عورت کو بطور انسان ٹریٹ کیا جاتا ہے تو دن ہو یا رات وہ آسانی سے اور ڈرے بنا اپنی جاب اور اپنے دیگر امور سر انجام دے سکتی ہے۔ حتی کہ لوگ اس کے لباس کو بھی اہمیت نہیں دے رہے ہوتے۔ ہمیں بھی ان بحث و مباحثہ سے نکل کر خواتین کو ایک محفوظ اور پر امن معاشرہ دینا ہے تاکہ ہماری مائیں، ہماری بہنیں، ہماری بیٹیاں پروقار اور با اعتماد ہو کر معاشرے میں اپنا رول ادا کر سکے۔ ورنہ پھر اس جیسے بھیانک واقعات رو پذیر ہوتے رہے گے

آج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن

حسن رضا، جرمنی
Latest posts by حسن رضا، جرمنی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments