افغانستان میں طالبان: کابل میں سرکاری عمارتوں کے باہر محافظوں کے یونیفارم سے افغانستان کا جھنڈا غائب، طالبان کی شیعہ برادری کی مجلس میں شرکت

ملک مدثر - بی بی سی، کابل


کابل
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کو چار دن ہو چکے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بظاہر یہاں حالات معمول کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ناشتے سے فارغ ہو کر جب میں ہوٹل سے باہر نکلا تو وہاں ایک لمبی لائن میں لوگ کھڑے تھے اور قطر کا سفارتخانہ ان کی رجسٹریشن کر رہا تھا تاکہ انھیں یہاں سے ائیرپورٹ لے جائیں اور قطر پہنچایا جائے اور اس کے بعد آگے وہ جہاں بھی جانا چاہیں، جا سکیں۔

یہ افغان شہری تھے اور انھیں پانچ کوسٹرز میں یہاں لایا گیا تھا اور یہ وہ خاندان ہیں جن کے افراد میڈیا، غیر ملکی کمپنیوں اور این جی اوز میں کام کر رہے تھے۔

آج سڑکوں پر گذشتہ روز کی نسبت تھوڑی زیادہ ٹریفک ہے لیکن دکانیں اب بھی بند ہیں۔ آج کی اہم بات یہ تھی کہ طالبان نے سڑکوں پر لگے چیک پوائنٹس کھول دیے ہیں اور اب کہیں جانے کے لیے لمبا گھوم کر نہیں جانا پڑتا۔ سرکاری عمارتوں کے باہر محافظ دوبارہ ڈیوٹی پر آ چکے ہیں لیکن ان کے یونیفارم سے افغانستان کا جھنڈا غائب ہے۔

کہیں خواتین مردوں کے ہمراہ اور کہیں اکیلی جا رہی ہیں جبکہ ہر جگہ شہر میں طالبان بھی پٹرولنگ کر رہے ہیں۔

شہر کا مرکز جو ’شہر نو‘ کہلاتا ہے، وہاں سب کچھ بند پڑا ہے۔ بیوٹی پارلرز بھی بند ہیں لیکن ان کی دیواروں پر خواتین کی اکثر تصاویر پر پینٹ کر دیا گیا ہے۔ مالکان نے اس خوف سے ایسا کیا تاکہ وہ نظروں میں نہ آئیں اور نقصان نہ ہو۔

کابل

اسی مرکز میں یہاں کا مشہور ’کروکے کیفے‘ ہے، جہاں موسیقی، شیشہ اور ریستوران سب چلتا تھا لیکن اب وہ سب بھی بند پڑا ہے۔

محرم ہے تو دنیا کے دیگر حصوں کی طرح یہاں بھی عاشورہ کی تیاریاں دکھائی دے رہی ہیں۔ کابل شہر کی نصف آبادی شیعہ ہزارہ برادری پر مشتمل ہے۔

پہلے تو یہاں شیعہ برادری کو اذان دینے کی اجازت نہیں تھی لیکن کل رات سوشل میڈیا پر گردش کرتی تصاویر میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ طالبان نے شہر کی ایک مجلس میں شرکت کی اور نیاز بھی کھائی۔

کیا یہ طالبان کا سافٹ امیج ہے، یہ تو معلوم نہیں لیکن اس شہر کی شیعہ ہزارہ برادری کے لیے بلاشبہ یہ تسلی بخش بات ضرور ہو گی کیونکہ گزرے برسوں میں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے ان لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا ویسے ہی سامنا رہا جیسے پاکستان میں بسنے والے شیعہ ہزارہ کو ہوتا ہے۔

کابل، عاشور

کابل کو آپ ایک بے ہنگم شہر کہہ سکتے ہیں، جامع منصوبہ بندی کے بغیر بنا شہر جہاں نہ سیوریج سسٹم ہے اور نہ ہی ہاؤسنگ سے متعلق کوئی جامع منصوبہ بندی۔

شہر کے مختلف پارکس سے گزرتے ہوئے آج بھی مجھے بہت سے لوگ دکھائی دیے جو طالبان کے ڈر سے ملک کے دارالحکومت میں پناہ لینے آئے تھے لیکن یہاں ان کے اردگرد وہی لوگ ایک بار پھر موجود ہیں۔

میں سنہ 2008 میں پہلی بار اس شہر میں آیا۔ دبئی کے گرم موسم سے جہاز کی سڑھیوں سے اترتے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے میرا استقبال کیا تو پہلے تو میں نے سوچا کہ یہ میں کہاں آ گیا ہوں۔

اس وقت کابل میں نہ بجلی تھی نہ گیس اور لوگ جنریٹر پر گزرارہ کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے بنا استری بے ترتیب انداز کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس لوگوں کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ لوگ کپڑے استری کیوں نہیں کرتے تو جواب ملا بجلی ہو گی تو استری کریں گے ناں۔

بینر

کیا طالبان افغانستان کو واپس تاریک ماضی میں دھکیل دیں گے؟

صحافیوں کی دعوت، بغیر داڑھی اور ویزا اینٹری: طالبان کا افغانستان کیسا تھا؟

داڑھی، برقعہ، موسیقی۔۔۔ کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟


خیر گزرے برسوں میں، میں نے اس شہر کی تعمیر اور ترقی کو بھی قریب سے دیکھا۔ آج جب شہر کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے وزیر اکبر خان نامی علاقے سے گزرا جو کہ غیر ملکی سفارتخانوں کا علاقہ ہے تو وہاں مجھے سینکڑوں لوگ قطاروں میں دکھائی دیے۔ یہ لوگ جن میں خواتین اور بچے بڑی تعداد میں شامل تھے، مختلف ملکوں کے ویزے اور متعلقہ کاغدات کے لیے وہاں موجود تھے۔

ائیر پورٹ کے باہر آج مجھے کوئی چار پانچ ہزار لوگ دکھائی دیے لیکن انھیں منتشر کرنے کے لیے فائرنگ اب بھی ہو رہی تھی۔

شہر کے اندر تو طالبان کچھ نہیں کہتے، آپ جتنی مرضی تصاویر بنائیں لیکن آج انھوں نے ہمیں ائیرپورٹ کے باہر کے مناظر کو فلمبند کرنے سے روک دیا۔

ہاں ایک بات اچھی رہی کہ جن لوگوں کے پاس سفری دستاویزات ہیں، چاہے وہ ملکی ہیں یا غیر ملکی، طالبان انھیں قافلے کی صورت میں ائیر پورٹ میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے تھے۔

سرحد

فضائی راستوں پر تو دستاویزات کی بندش ہے لیکن زمینی راستوں پر افغان شہریوں کو افغانستان کی پاکستان سے منسلک سرحد طورخم اور چمن سے آنے جانے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔

افغانستان کی سرحد سے متصل چمن میں میرا رابطہ اپنے ایک صحافی دوست سے ہوا تو انھوں نے بتایا کہ سپین بولدک اور پھر چمن تک معمول کی تجارت تو ہو رہی ہے۔

اگرچہ ابتدا میں پاکستان کی جانب سے کچھ بندش ہوئی تھی لیکن اب اس راستے کو بند کرنا کبھی بھی اتنا آسان نہیں رہا۔ یہاں ایسا بھی ہے کہ کچھ گھروں کا ایک دروازہ افغانستان اور دوسرا پاکستان کی حدود میں کھلتا ہے۔ تو سفری دستاویزات ہوں ناں ہوں آنے جانے والے اپنے لیے راستے نکال ہی لیتے ہیں۔

چمن کی سرحد پر اس جانب گھومتے طالبان کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر مجھے نوے کی دہائی یاد آتی ہے۔ سنہ 1996 میں جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہوا تو ان دنوں میں سکول میں تھا۔ جب کبھی سکول جانے کا موڈ نہ ہوتا تو دن بارہ سے ایک بجے کے درمیان میں 20 روپے دے کر اسی یونیفارم میں سرحد پار کر جاتا تھا۔

اردگرد پہرہ دیتے طالبان نے کبھی ہمیں نہیں پکڑا اور نہ ہی پوچھ گچھ کی۔ ہم آرام سے ویش منڈی جاتے اور گاڑیاں اور الیکٹرانک کے آلات دیکھتے، جہاں ہیڈ فون، کمپیوٹر اور دوسری چیزیں میری دلچسپی کا مرکز تھیں۔

سرحد

آج ایک بارہ پھر طالبان یہاں قابض ہو چکے ہیں اور سرحد کے دونوں جانب آنے جانے والے خاندانوں کو بلا روک ٹوک نقل و حرکت کی اجازت بھی ہے لیکن ہاں صورتحال اتنی گھمبھیر نہیں ہوئی کہ پاکستان کو کوئی خیمہ بستی بنانی پڑے۔

معمول کی 20 ہزار تاجروں کی آمدورفت تو دو کلومیٹر دور سپین بولدک کی ویش منڈی تک ہوتی ہے لیکن تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ دو روز پہلے 50 خاندان اور آج بھی کوئی بارہ سے پندرہ خاندان چمن سرحد سے واپس قندھار لوٹ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp