بھلکڑ


اس نے آفس سے باہر نکلتے ہوئے تیسری بار سوچا، وہ کہیں کچھ بھول تو نہیں آیا؟ اس کا آفس بیگ اس کے پاس تھا، موبائل و وائلٹ اس کی پاکٹ میں تھا۔ نہیں! وہ کچھ نہیں بھول رہا تھا۔ اس نے خود کو اطمینان دلایا۔

گاڑی پارکنگ سے نکال کر وہ روڈ پر لایا تو اسے یاد آیا۔ آج باس نے اسے ایک گھنٹہ لیٹ جانے کا کہا تھا۔ اوہ نو! اسے جب پتہ چلے گا کہ وہ اسے (باس کو) بتائے بغیر جلدی نکل آیا ہے تو وہ کتنا گلٹی فیل کرے گا۔ اس نے گاڑی ریورس کی اور جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر دوسرے فلور پر اپنے آفس میں واپس آیا۔ شکر اس بات کی بھنک ابھی تک باس کو نہیں پڑی تھی۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ جلدی میں گاڑی کو اصل جگہ پر پارک کرنا بھول گیا۔ جس کی سزا اسے جرمانے کی صورت میں بھگتی پڑی۔

ہاں ناں۔ بھول پر بھی سزا ہوتی ہے۔

بھول جانا اور بھلا دینا دو مختلف چیزیں ہیں۔ بھلا آدمی زیادہ تر بھول جاتا ہے۔ اب یوں بھی یہ کوئی نئی بیماری تو ہے نہیں۔ ہمارے آباء، بلکہ آباء کے بھی آباء، حضرت آدم سے چلی آتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان کا زمین پر ہونا خود اسی بھول کی سزا ہے۔

وہ ایک چھوٹی سی کمپنی میں مناسب سی تنخواہ پر ملازم تھا، ماں کا اکلوتا، ہونہار بیٹا تھا۔ جس کے گھر میں اس کی بیوی اور دو بچے رہا کرتے تھے۔ ماں اس لئے گھر میں ساتھ نہیں رہتی تھی۔ کہ بیوی اور ماں دونوں کے مزاج نہیں ملتے تھے۔ سو بھلے آدمی نے ”بیچ“ کی راہ نکالی۔ ماں کو گراؤنڈ فلور پر اور بیوی کو فرسٹ فلور پر گھر لے دیا۔ آدھی تنخواہ ماں کے ہاتھ اور آدھی بیوی کے۔ ایک بچہ ماں کے پاس ایک بیوی کے۔ دونوں خوش تھیں اور وہ انھیں دیکھ کر خوش تھا۔

اس کی زندگی ایک ریموٹ کنٹرول آدمی کی طرح تھی جو مخصوص دائرے میں مخصوص ڈگر پر چلتی تھی۔ نہ اس سے آگے نہ اس سے پیچھے۔ صبح اٹھنا، آفس جانا، آفس سے پارٹ ٹائم جاب پر جانا وہاں سے شام گئے، گھر لوٹنا۔ گراؤنڈ فلور پر ماں کے ساتھ کھانا کھا کر تھوڑی دیر گپ شپ لگا کر فرسٹ فلور پر جانا۔ بیوی کی چڑھی تیوریوں کو دیکھ کر مسکین سی شکل بنا کر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہنا۔

”آئی ایم سو سوری! میں فرسٹ فلور کی سیڑھیاں چڑھنا بھول گیا تھا۔“ وہ ایک دو دن خفا ہوئی، پھر اس کی ڈھٹائی دیکھ کر سوال کرنا چھوڑ گئی۔ رات کا کھانا ماں کے ساتھ، صبح کا کھانا بیوی بچوں کے ساتھ۔ زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔

اس کی زندگی میں اگر بے سکونی کے نام پر کچھ تھا تو وہ یہ بھولنے کی بیماری تھی۔ وہ بہت کچھ بھولتا تھا حتی کہ کھانا کھانا بھی۔

اس کی بیوی سودے سلف کی پرچی اسے لکھ کر دیا کرتی تو بازار جاکر جیب سے نکالنا بھول جاتا۔ ماں کھانا باندھ کر دیا کرتی، کبھی بیگ میں کسی فائل کے اوپر اس طرح رکھتی کہ کام کی غرض سے فائل نکالے گا تو کھانا یاد آ جائے گا۔ یہ فائل نکالتے ہوئے دیکھتا بھی تو یہ سوچ کر کہ تھوڑا سا کام کرلوں پھر کھالوں گا۔ کبھی کبھار شام کو در و دیوار گھومتے دکھائی دیتے تو یاد آتا کہ وہ دو تین پہروں سے کچھ کھانا بھول رہا تھا۔ لیکن پھر بھی یاد نہ کر پاتا کہ اس کا لنچ اس کی ماں نے اس کے بیگ میں رکھا تھا۔ شام کو جب تک گھر پہنچتا، بھوک لگ لگ کے مر چکی ہوتی۔

وہ آفس کی بلڈنگ کے بیچوں بیچ بے خیالی میں کھڑا تھا۔ یہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ وہاں کیوں آیا تھا؟ اسی پل اس کے سسرالی رشتے داروں میں سے ایک صاحب مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ علیک سلیک کے بعد کہنے لگے۔

”ضیام بیٹا! یہ تمہارے پیسے جو چھ ماہ پہلے تم سے لئے تھے۔ پورے بیس ہزار ہیں گن لو“ یہ بات اسے جانے کیسے یاد رہ گئی کہ اس نے بیس نہیں تیس ہزار ادھار دیے تھے۔ لیکن خیر! اس کی بھلکڑ طبیعت کا کس کو علم نہیں تھا؟ یہ دنیا ہے مرتے ہوئے انسان کا کفن اتار کر بیچ دیتی ہے۔

”کوئی بات نہیں انکل! اگر آپ نہ بھی لوٹاتے تو کوئی بات نہیں تھی۔ یوں بھی میں ان پیسوں کو بھلا چکا تھا“ مقابل چالاکی سے مسکرائے۔

لالچی اور منافق، دو ایسے لوگ ہیں جن کے من کا پیالہ، مخلصی کسی طور نہیں بھر سکتی۔ کیونکہ خلوص ان کی ضرورتوں میں شامل نہیں ہوتا۔ انہیں لگتا ہے دنیا کا ہر شخص (سوائے ان کے ) بغیر دماغ کے پیدا ہوا ہے۔ سب ناک سے کھاتے ہیں۔ مزید کسی کو بھی آسانی سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن۔ درحقیقت! یہی اصل بیوقوف ہوتے ہیں۔

وہ رشتوں کا پاس رکھنے والا بندہ تھا، محض دس ہزار کے لئے شور و غوغا بپا کر کے رشتے خراب کرنے کا روادار نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دروازے تک رخصت کیا۔

”ہے ناں! بھلکڑ“ مسٹر چالاک نے باہر آ کر اپنی کامیاب پالیسی پر خود کو شاباش دی۔ سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ آپ اپنی برائی کو باعث فخر سمجھیں۔

پارٹ ٹائم جاب ختم ہونے کے بعد ، وہ قریبی ایک فزیشن سے ملا۔

”مجھے کبھی کبھار بے تحاشا بھوک لگتی ہے، میں کھانا کھانے کا سوچتا ہوں۔ پھر کوئی کام یاد آ جاتا ہے تو بھول جاتا ہوں۔ میں اکثر چہرے یاد نہیں رکھ پاتا۔ سوائے ان لوگوں کے چہروں کے جنہوں نے مجھے دھوکا یا اذیت دی ہو۔ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ میں ایک اچھی زندگی گزار رہا ہوں لیکن میں خوش نہیں ہوں۔ اکثر اوقات بڑی بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا چیز ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہے۔ بعض اوقات مجھے گرمی یا سردی لگ رہی ہوتی ہے اور میں خود کو یہ بات باور کرانے سے قاصر ہوتا ہوں۔ میں جانتا ہوں جو بیماری آپ تشخیص کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سب کا علاج مجھے یہ یاد کرانے میں ہے کہ مجھے کھانا اور سونا ہے“ وہ کہ چکا تو ڈاکٹر نے سکون سے رائیٹنگ پیڈ گھسیٹا۔ اور پن رگڑنے لگا۔

”آپ شدید قسم کی خون کی کمی کا شکار ہیں۔ جب بھی آپ کے دماغ کو آکسیجن کی سپلائی کم ہوتی ہے تو آپ کو اس قسم کے خیالات آتے ہیں۔ یہ میڈیسن سٹور سے لے لیجیے گا“ وہ کلینک سے اٹھا اور سڑک پر پیدل چلنے لگا۔

ایک گھنٹے کے بعد وہ ماہر نفسیات کے سامنے بیٹھا اپنی وہی کہانی دہرا رہا تھا۔ اس نے پیشہ ورانہ انداز میں اس مریض کو سنا اور ایک کاغذ پر کچھ لکھ دیا۔

”اسے پڑھ لیجیے گا“ ضیام نے اس کاغذ کو پھر کسی وقت پڑھنے کے لئے تہی کر کے جیب میں ڈالا۔
”پھر کسی وقت“ پر ڈالے گئے کام شاذ ہی پورے ہو پاتے ہیں۔

وہ آج کی شام بے خیالی میں ہی سہی، محض اپنے لئے خرچ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے شام کی ڈیوٹی مس کی تھی۔ صرف یہ یاد کرنے کے لئے کہ وہ کیا بھول رہا تھا، جو اتنا بے چین تھا۔

اب وہ گاڑی ایک طرف پارک کر کے تارکول کی سڑک کنارے بنے فٹ پاتھ پر، چہل قدمی کرتے ایک مجمع کے پاس سے آ رکا۔ یہ کوئی مذہبی اجتماع تھا۔ جس چیز نے اسے رکنے پر مجبور کیا وہ لفظ ”سکون“ تھا۔ وہ اسی کے پیچھے تو خوار ہو رہا تھا۔ اب اس نے زمین پر بچھی چٹائی پر بیٹھ کر اسے سننا شروع کیا۔

”سکون صرف عبادت میں ہے۔ جسے لگتا ہے وہ پرسکون نہیں اسے چاہیے کہ وہ اپنی عبادات درست کرے“ وہ نماز پڑھتا تھا۔ اپنے سے متعلقہ لوگوں کے حقوق پورے کرتا تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود اس کے پاس سکون نہیں تھا۔ کیوں؟

سکون وہ لفظ ہے جس پر بہت سے لوگ دکانداری کرتے ہیں۔ تفریح پیش کرنے والے۔ دھیان بٹا کر، تماشے والے۔ توجہ کھینچ کر۔ مذہبی و موٹیویشن دینے والے اپنی اپنی دکان کا چورن بیچ کر، سکون نام کا بیوپار کرتے ہیں۔

وہ جلد ہی اکتا کر وہاں سے اٹھ آیا تھا۔
اور اس سب میں وہ گھر جانا بھول گیا تھا۔
اب شام اترنے والی تھی۔ وہ سنگی بینچ پر بیٹھ کر سڑک پر دوڑتی ٹریفک کو دیکھنے لگا۔

اچانک اس کی نظر سامنے کھلی ایک فارمیسی پر پڑی۔ اسے یکلخت ڈاکٹر کا نسخہ یاد آیا۔ وہ اٹھا اور تیز تیز قدم اٹھاتے، فارمیسی میں گھس گیا۔ اس کی مطلوبہ دوائیں کاؤنٹر پر رکھ کر، جب والٹ نکالنے کے لئے اس نے پاکٹ میں ہاتھ ڈالا۔ تو سامنے لگے شیشے میں، اس کی نظر کلائی کی گھڑی کے ساتھ ایک چھوٹی سی چمکدار سی چیز پر پڑی۔ اس نے دیکھا۔ یہ اس کی گھڑی کے ساتھ نتھی ہوئی ایک بہت ہی چھوٹی سی ڈائری تھی۔

اسے یاد آیا۔ صبح اس کی بیوی نے کچھ سودا سلف لانے کے لئے یہ اس کے ساتھ کی تھی۔ اس نے ڈائری کھولی۔ لکھا تھا۔

”آج چھوٹی کا برتھ ڈے ہے۔ یاد رکھیئے گا! یہ سالگرہ ہمیں بھرپور انداز میں منانی ہے۔ بھیا کی مانو کی پارٹی سے زیادہ پرتکلف انداز میں۔“ اس نے نوٹ پڑھ کر، دوائیں فارماسسٹ کو واپس کیں اور خود ساتھ والی بیکری میں گھس گیا۔ بیکری سے نکل کر شاپنگ مال سے بچوں کے کپڑے جوتے، برتھ ڈے اسیسریز غرض سب کچھ۔ اس نے دل کھول کر خریدا۔

اب وہ خوش تھا۔ اسی بچے کی طرح جس کی آج پہلی سالگرہ تھی

سامان ہاتھ میں اٹھائے وہ گاڑی تک پہنچنے کے لئے سڑک پار کرنے لگا۔ بیچ راستے کچھ یاد آنے پر، اس نے رسٹ واچ کے ساتھ منسلک ڈائری نکالی اور پنسل سے کچھ رب کرنے لگا۔

اس سب میں وہ یہ ”بھول“ گیا کہ وہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔ کہ اچانک ایک تیزرفتار گاڑی اس سے ٹکراتی ہوئی آگے نکل گئی۔

یہ بھول ہی تھی جو آدم کو زمین پر لائی تھی۔ اور ایک بھول جو اس آدم زاد کو واپس لے گئی تھی۔ اس کی آنکھیں یوں کھلی تھیں۔ جیسے کوئی عرصے کی بھولی شے، پل بھر میں یاد آئی ہو۔

اسپیشل آرڈر پر تیارکردہ کیک گاڑی کے پہیوں کے نیچے، وقت کے پہیوں تلے آئی خواہشات کی طرح کچلا گیا تھا۔ شاپنگ بیگز سڑک پر بکھرے پڑے تھے۔

شور مچا، لوگ آئے، اسے اٹھایا۔ ایمبولینس میں ڈال کر ہاسپٹل لے جایا گیا۔ بیوی بچے حیران پریشان۔ بچے اتنے چھوٹے کے صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھے، بیوی اتنی شاک تھی کہ اس سب صورتحال کو دیکھ کر اتاؤلی جاتی تھی۔

جذبات کو ایک طرف رکھ کر اگر حقیقت پسندی سے سوچا جائے۔ تو مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ بچے وہ بھی پل جاتے ہیں، جن کی ماں انہیں دنیا میں لاتے ہوئے دنیا چھوڑ جاتی ہے۔ یا جن کا باپ ان کی آمد سے پہلے رخصت ہوجاتا ہے۔ بیوی یا شوہر کے پاس بھی دوسرا آپشن موجود ہوتا ہے۔

لیکن دو ہستیوں کے پاس ہمارا متبادل نہیں۔

”ایک ماں اور خدا“ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آپ کے ضائع جانے کا افسوس ہوگا۔ وگرنہ دوسرے انسانوں کو مرنے والوں کی یاد میں تصاویر رکھنی پڑتی ہیں۔ ان کی شبیہ یاد رکھنے کے لئے۔

”جائے حادثہ“ پر، کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد ایک بوڑھی عورت، بیساکھی ٹیکتی ہوئی آئی۔ پلو سے آنکھیں رگڑتے ہوئے، وہ کچھ دیر کو سڑک پر جھکی،

سائیکالوجسٹ کے لکھے نوٹ کو اٹھایا۔ جسے کھول کر دیکھنے کا اسے وقت نہ مل سکا۔

”دنیا میں تم سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں، کائنات کو تمہارے سوا کچھ مطلوب نہیں۔ تم ہر شخص کی طرح، دنیا میں ایک مخصوص جین کے ساتھ بھیجے گئے۔ ، منفرد انسان ہو۔ تمہاری منفرد جین لے کر نہ کوئی پیدا ہوا، نہ ہوگا۔ تم خود کا خیال کرنا چھوڑ کر اس خوبی کا استحصال کر گے جو قدرت نے خاص تمہیں ودیعت کی۔ دنیا میں ہر شخص کا متبادل مل سکتا ہے۔ لیکن تمہیں تمہارا متبادل نہیں مل سکتا!

خود پر توجہ دیجیئے۔ آپ اپنی توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ”

وہ چھوٹی سی ڈائری جو حادثے کے وقت اس کی انگلیوں تلے دبی تھی اسے اٹھاتے ہوئے سڑک پر گر گئی تھی۔ بوڑھے ہاتھوں نے جھک کر اسے اٹھایا۔

”کہا بھی تھا کہ یہیں کہیں لکھ رکھ، شاید تجھے یاد رہ جائے۔ لیکن نہیں! تھا ناں آخر بھلکڑ! ضروریات زندگی کے پیچھے پڑ کر خود کو ہی بھول گیا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments