کیا طالبان واقعتاَ بدل چکے ہیں؟


طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی افغانستان کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں نے محض آواز ہی سن رکھی تھی۔ منگل کی شام موصوف کیمروں کے روبرو آگئے۔ ایک طولانی پریس کانفرنس سے نہایت سکون اور اعتماد کے ساتھ خطاب کیا۔ یہ خطاب دنیا کے کئی ٹی وی چینلوں پر براہِ راست دکھایا گیا۔ ٹویٹر پر چھائے مبصرین کی اکثریت نے اسے خوش گوار ٹھہرایا۔ اعلان کردیا کہ طالبان واقعتا بدل چکے ہیں۔ وہ 1996ء جیسے متشدد نہیں رہے۔ سلجھ چکے ہیں۔ اپنا شرعی نظام ڈنڈے کے زور کے بجائے نرم گو تبلیغ ودلائل سے نافذ کریں گے۔

گھر بیٹھے مستقبل کے نقشے طے کرنے کی مجھے عادت نہیں۔ ماضی کا اسیر بھی نہیں ہوں۔ سیاست ویسے بھی ہمہ وقت لچک کا تقاضہ کرتی ہے۔ 2021ء کا افغانستان 1996ء سے قطعاَ مختلف ہے۔ طالبان نے اگر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا ہے تو تبدیل ہوئے افغانستان سے کئی سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔

طالبان کی اولیں ترجیح فی الوقت یہ نظر آرہی ہے کہ نام نہاد عالمی برادری انہیں 1996ء کی طرح متشدد بنیاد پرست شمار نہ کرے۔ سعودی عرب میں کئی برسوں سے جو نظام چل رہا ہے وہ ہرگز ’’جمہوری‘‘ نہیں ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے ’’مہذب‘‘ کہلاتے بے شمار ممالک مگر وہاں کے نظام اور سماجی روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس ملک کو اپنا ’’دوست‘‘ سمجھتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے ایران کے ساتھ کئی مسائل ہیں۔ یورپی ممالک کی اکثریت مگر دل سے خواہاں ہے کہ وہاں قائم ہوئے ’’اسلامی جمہوری نظام‘‘ کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط برقرار رکھے جائیں۔ طالبان بھی غالباَ ایران جیسا نظام متعارف کروانا چاہیں گے۔ مسلک کی تفریق اگرچہ نمایاں رہے گی۔

ذبیح اللہ مجاہد کی پریس کانفرنس سنتے ہوئے مجھے 1979ء کا ایران یاد آتا رہا۔ طویل جلاوطنی کے بعد امام خمینی وطن واپس لوٹے تو براہِ راست اقتدار سنبھالنے کے بجائے قم کے مدرسے میں قائم اپنے حجرے میں چلے گئے۔ یورپ کا پڑھا ہوا بنی صدر وہاں کا صدر ہوا۔ ایران کا شہری متوسط طبقہ ایسے انتظام سے بہت خوش ہوا۔ بتدریج مگر نام نہاد ’’متعدل‘‘ اور ’’بنیاد پرست انتہا پسندوں‘‘ کے مابین شدید چپقلش شروع ہوگئی۔ اس کے انجام پر جو نظام قائم ہوا اس میں حتمی اختیار ’’رہبر‘‘ کہلاتے آیت اللہ کو منتقل ہوگیا۔ منتخب صدر اور پارلیمان مذہبی رہ نمائوں پر مبنی ’’نگہبان‘‘ شوریٰ کے ہر اعتبار سے تابع ہیں۔

طالبان نے ابھی حکومت نہیں بنائی ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ دوحہ میں مذاکرات کے ذریعے وہ فی الحال کوئی ایسی ’’عارضی‘‘ حکومت تشکیل دینے کو ترجیح دیں گے جس میں غیر طالبان کو بھی کچھ حصہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کی یہ کوشش بھی ہوگی کہ ان کی بنائی حکومت میں پشتو بولنے والوں کے ساتھ تاجک ،ازبک اور ہزارہ برادری کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ افغان امور کے ’’ماہر‘‘ ہونے کے کئی دعوے دار یہ تاثر دے رہے ہیں کہ عارضی حکومت کے قیام کے بعد افغان روایت کے مطابق کسی ’’لوئے جرگہ ‘‘ کا اہتمام ہوگا۔ اس کے ذریعے اقتداراختیارکا مستقل بندوبست ڈھونڈا جائے گا۔ شاید اسی خواہش کی وجہ سے ’’امارت اسلامی‘‘ کے امیر ہیبت اللہ اخوند ابھی منظر عام پر نہیں آئے۔ خود کو ’’امیر المومنین‘‘ کہلاتے ہوئے ’’بیعت‘‘ کا تقاضہ نہیں کیا۔ ایسا مگر میری دانست محض مناسب وقت کے انتظار کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

’’امارات اسلامی‘‘ کی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے طالبان بہت مہارت سے دنیا کو یہ سمجھنا چاہ رہے ہیں اگر اس کی بحالی کے امکانات نظر نہیں آئے تو افغانستان میں موجود ’’داعش‘‘ بالآخر اپنی ’’خلافت‘‘ کا اعلان بھی کر سکتی ہے۔ عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ ابوبکر بغدادی نے خود کو ’’امیر المومنین‘‘ ٹھہرایا۔ داعش اس کے بعد شام کی جانب بھی بڑھنا شروع ہوگئی۔ اس پر قابو پانے کے لئے امریکی افواج کے سریع الحرکت بریگیڈ کو عراق واپس لوٹنا پڑا۔ عراق میں فضائی حملے بھی شروع ہوگئے۔ اپنے حامیوں کے تحفظ کے لئے روس اور امریکہ نے شام پر بمباری بھی شروع کردی۔ لاکھوں کنبے داعش کی وجہ سے شام سے دربدر ہوچکے ہیں۔ حلب جیسا تاریخی شہر بھی مسلسل خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو چکا ہے۔ عراق اور شام کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان سفارت کارانہ مہارت سے عالمی برادری کو قائل کرسکتے ہیں کہ ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘کی بحالی ہی افغانستان میں دائمی امن کو یقینی بنا سکتی ہے۔

طالبان کے ’’عارضی‘‘ بندوبست کو تسلیم کرنے کے لئے امریکہ اور یورپ تقاضہ کریں گے کہ وہاں موجود ’’القاعدہ‘‘ پر مکمل کنٹرول یقینی بنایا جائے۔ میڈیا کی آزادی اور خواتین کے حقوق کی بابت دہائی محض فریب دیتی دھوکہ بازی ہے۔ امریکہ کی ’’جمہوریت‘‘ سے وابستگی کا کم از کم مجھ جیسے پاکستانیوں کو بخوبی علم ہے۔ میرا بچپن ایوب خان کی آمریت کی نذر ہوا۔ جوانی جنرل ضیاء کے دور میں خرچ ہو گئی۔ اس کے بعد نو برس جنرل مشرف کی چھتری تلے گزرے۔ یہ تینوں ’’دیدہ ور‘‘ امریکہ کے قریب ترین دوست رہے ہیں۔ افغانستان کے حالیہ واقعات کے بعد تو ہم سب کو امریکہ اور یورپ کی ’’جمہوریت‘‘ سے محبت کی حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے۔

افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد جو بھی عارضی با مستقل بندوبست ہونا ہے عام پاکستانیوں کا درد سر نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان جانیں اور ان کا کام۔ سیاست اور خارجہ امور کا طالب علم ہوتے ہوئے مگریہ حقیقت فراموش نہیں کرسکتا کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں کے دوران شدید دہشت گردی کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں نے اس کی وجہ سے اپنی جانیں گنوائیں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے پاکستان کو کئی فوجی آپریشن بھی کرنا پڑے۔ ان کی وجہ سے عام شہری اپنے گھروں کو چھوڑ کر مردان یا بنوں جیسے شہروں میں پناہ لینے کو مجبور ہوئے۔

دہشت گردی کی انتہا کے دنوں میں ہمیں مسلسل بتایا جارہا تھا کہ اس کے اصل ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔ بھارت افغان کی انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر ان کی سرپرستی کررہا ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے کئی واقعات کے منصوبہ ساز بتائے چند نمایاں پاکستانی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ طالبان کی بنائی نئی حکومت انہیں پاکستان کے سپرد کرنے کو تیار ہوگی یا نہیں۔ میں اس سوال کو آنے والے دنوں میں بہت شدت سے اٹھتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔

مستقبل کے اندازے لگاتے ہوئے یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا لازمی ہے کہ افغان معیشت گزشتہ 20 برسوں سے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل حصہ بن چکی ہے۔ افغان ریاست کو چلانے کے لئے 80 فی صد رقم امریکہ اور یورپ کے ممالک فراہم کرتے تھے۔ امریکی صدر بائیڈن نے افغانستان کی بابت اپنی حالیہ تقریر میں ’’معاشی‘‘ قوت کا ذکر کیا ہے۔ اس کی منشا کے مطابق افغانستان میں اگر سیاسی بندوبست قائم نہ ہوا تو وہ 1990ء کی دہائی کی طرح اس ملک سے کنارہ کشی اختیار کرلے گا۔ چین اور روس جیسے ممالک سے اس کے بعد طعنوں بھرے انداز میں درخواست ہو گی کہ وہ اپنے ’’ہمسائے‘‘ میں استحکام اور امن وامان یقینی بنانے کے لئے افغانستان پر رقم خرچ کریں۔ پاکستان اور ایران سے بھی ایسے ہی تقاضے ہوں گے۔ مذکورہ امکانات کو بھی افغانستان کا مستقبل طے کرتے ہوئے ذہن میں رکھنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments