ایک عورت چار سو مرد


وہ کئی کئی گھنٹے ایک بڑے سے کوڑے دان کی چھاؤں میں بیٹھی رہتی۔ جو من میں آتا کھا لیتی۔ پھر اچانک پاس سے گزرنے والوں کو گالیاں بھی دیتی۔ دکاندار اس کو مست یا کوئی پہنچی ہوئی مائی سمجھ کر عقیدت بھی کرتے۔ ایک دن ایک دکاندار مائی کو کھانا دینے کے لیے اس کے قریب ہوا تو مائی دور اشارہ کر کے خود کر ایک گندے سے کپڑے سے ڈھاپنے ہوئے کوڑے دان نیچے کی طرف چھپ گئی۔ دکاندار یہ ماجرا دیکھ رہا تھا اور حیران بھی ہوا کہ یہ بڑھیا ہر وقت تو ہمارے ارد گرد ننگی پھرتی رہتی۔

آج اس کو شرم آ رہی ہے۔ دکاندار نے بڑھیا سے پوچھا کہ ماں جی ہم نے کئی برسوں سے تمھیں ایسی حالت میں دیکھا ہے لیکن آج وہ بزرگ گزر رہا تھا تم نے کہا ہائے وہ انسان آ رہا ہے اور خود کو چھپا لیا ہے۔ کیا ہم سے کبھی شرم نہیں آئی کیا ہم انسان نہیں۔ بڑھیا نے کہا نہیں شرم تو انسانوں سے آتی ہے اور تم لوگ انسان نہیں ہو۔ دکاندار کی ضد پر بڑھیا نے کہا ادھر آؤ میں تجھے دکھاؤں انسان کیا ہوتے ہیں۔ بڑھیا نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی کمر پر رکھ کر بولا اب اس میں دیکھ کیا نظر آتا ہے۔ دکاندار نے جب دیکھ تو سب بندر ہی بندر نظر آرہے تھے سوائے اس ملنگ کے جو بڑھیا کے پاس سے گزرا۔ دکاندار ہکا بکا رہ گیا۔ بڑھیا نے کہا تم انسان نہیں تم بندر ہو بندر۔ انسان تو وہ ہے جو میرے پاس سے گزرا۔

آزادی پاکستان کے دن مینار پاکستان پر ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ ایک خاتون جو جشن آزادی کی خوشی میں اقبال پارک مینار پاکستان آئی۔ وہ کوئی وڈیو بنانا چاہ رہی ہوگی اور وڈیو بھی جشن آزادی کی سلسلہ میں۔ ایسے میں وہاں پر اوباش نوجوانوں نے اس کو چھڑنا شروع کر دیا آہستہ آہستہ طوفان بد تمیزی کا یہ طوفان بڑھتا چلا گیا۔ یعنی ایک اندازے کی مطابق چار سو جانور نما بے غیرت انسانوں نے اس بیچاری معصوم اکیلی لڑکی پر نے حملہ کر دیا۔

یہ وہ جانور تھے جو اپنے آپ کو انسان کہتے تھے کلمہ گوہ مسلمان اور غیرت مند پاکستانی۔ جو دن رات مغرب کی فحاشی پر گھروں، بیٹھکوں، دفتروں اور محفلوں میں لعن طعن کرتے ہوں گے۔ ایک بیچاری معصوم، بے گناہ اور محب وطن پاکستانی عورت کو بے لباس کر دیا۔ اس کی ساتھ ایسی ایسی حرکات کی گئیں مجھے تو لکھتے ہوئے خود پر ندامت اور دکھ ہو رہا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

ہمارا معاشرہ اس قدر گراوٹ کا شکار کیوں ہے؟ خود کو دنیا کی بہترین مخلوق سمجھنے والے دنیا کے بد ترین انسان کیسے بن گئے۔ قوموں کے مزاج ایک دن میں تو نہیں بنتے۔ پھر کیا ہوا ہم آہستہ آہستہ انسانوں سے درندوں کی شکل اختیار کرنے لگے۔ دن رات کافر کافر کی رٹ لگانے والے مومن کیوں نہیں بن سکے۔ پنجاب کی مٹی ایسی تو نہیں تھی۔ یہاں تو دلا بھٹی جیسے سپوتوں نے ہندووں کی بچیوں کو باپ بن کر گھر سے ودا کیا ہوا ہے۔ پھر یہاں ایسے کون سی سی آفت آ گئی۔

ہم سے کہاں پر غلطی ہو گئی۔ منافقت ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی۔ سگے باپ بیٹیوں کے ریپ کر رہے ہیں۔ بھائی بہنوں کو بے لباس کر رہے ہیں۔ مردہ عورتوں سے غلیظ کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ اور پھر بھی کافر برے۔ لوٹ کھسوٹ اپنے ملک میں پھر مغرب برا۔ پچھلے دنوں راجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑ دیا۔ اور مغرب ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے۔ عورت حقوق مانگے تو معاشرتی بدکاری۔ یہ ملک اب حیرت کدہ ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں۔ پھر عورت مختصر لباس پہنے تو جذبات مجروح ہوتے ہیں۔

کبھی کبھی تو دماغ کے سوتے بند ہو جاتے ہیں۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایمان کی حالت تو یہ ہے کہ ان کو ڈبل سواری کرتے ہوئے بھی کسی ہیجان سے بچنے کے لیے درمیان میں گدی رکھنی پڑتی ہے۔ خبریں سننے کو دل نہیں چاہتا۔ سوشل میڈیا ایسے المناک واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ اور الٹا اعتراض ہے کہ عورتیں ہجوم میں لینے کیا آتی ہیں۔ یا اللہ ہمارے معاشرے کو روبوٹ ہی بنا دے کم از کم ہمارے ملک کی عزتیں تو محفوظ رہ سکیں۔

کہتے ہیں جن کتوں کو پٹا ڈال دیا جائے وہ زیادہ باولے ہو جاتے ہیں۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے انسان زومبی بن جاتے ہیں۔ جس سلنڈر میں زیادہ گیس بھر دی جائے وہ پھٹ جاتا ہے۔ جس فلم پر بین لگ جائے اس کی ٹکٹیں زیادہ بکتی ہیں۔ کہیں ہمارے ساتھ بھی تو ایسا نہیں۔ جب سے ہم نے بنیادی انسانی جبلتوں پر پابندی لگائی۔ ہمارے معاشرے میں اس کی شدت نے اخلاقی دیواریں پھلانگ دی ہیں۔ جتنا نقصان ہمارے معاشرے کو اس نام نہاد فحاشی نے پہنچایا ہے شاید کسی اور چیز نے پہنچایا ہو۔

وہ پنجابی میں کہتے ہیں ”ات خدا دا ویر ہوندا“ ہم نے واقعی اخیر کردی ہے اس کا حل عدالتی نہیں نفسیاتی ہے۔ جس میں اس بے راہ روی کے طوفان کو راستہ دینا ہو گا۔ اس پر بھی کوئی ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ طوفان ہمارے معاشرے کی قدروں کو لے ڈوبے گا۔ انسان سازی کرنی ہے تو انسانی جبلتوں کو راستے دینے پڑیں گے۔ ورنہ جشن آزادی ماتم غلامی میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments