افغانستان میں طالبان: کابل میں مسلسل فائرنگ کی گونج اور قندھار کے سوئمنگ پول میں ڈبکیاں لگاتے طالبان

ملک مدثر - بی بی سی، کابل


کابل
کابل میں جمعرات کے روز مسلسل فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ یہ فائرنگ غیر ملکی سفارتخانوں کی جانب جاتی سڑک پر موجود سینکڑوں افراد کو منتشر کرنے اور ائیرپورٹ کے اندر جانے کی کوشش کرنے والوں کو روکنے کے لیے کی جا رہی تھی۔

مجھے لگتا ہے کہ عاشورہ کی چھٹی گزر جانے کے بعد آنے والے دنوں میں جب دفاتر اور کاروبار کھلیں گے تو ہی پتہ چل سکے گا کہ نئے نظام میں کون کس حد تک آزاد ہو گا۔

19 اگست افغانستان کا یوم آزادی بھی ہے۔ یہاں اس کا جشن تو ظاہری سی بات ہے کہ دیکھنے کو نہیں ملا لیکن قومی پرچم کو ہر جگہ سے غائب کیے جانے اور امارات اسلامی کے جھنڈے کو لائے جانے کو یہاں بہت سے لوگ تسلیم کرنے کو تیار دکھائی نہیں دے رہے۔ اس حوالے سے بھی مظاہرہ ہو رہا تھا اور فائرنگ وہاں بھی کی گئی۔

مظاہرین کل جلال آباد میں باہر نکلے تھے تو ان پر بھی فائرنگ ہوئی تھی اور آج لوگ کابل اور دیگر کچھ علاقوں میں نکلے ہیں۔ ان میں خواتین، مرد اور نوجوان سب شامل تھے اور انھوں نے چھوٹے بڑے سائز کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے۔

اگرچہ دو روز قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہم صحافیوں سے کہا تھا کہ آپ غیر جانبداری سے اپنا کام کر سکتے ہیں لیکن آج دوسرا روز ہے کہ کیمرہ نکالتا ہوں تو طالبان جن کی تعداد پچھلے دو دن سے زیادہ دکھائی دیتی ہے، لپک کر ہم تک پہنچتے ہیں اور ہمیں کبھی تصویر لینے اور کبھی ویڈیو بنانے سے روک رہے ہیں۔

تو ایسا ہے کہ چھپ چھپا کہ کچھ بن گیا تو بن گیا ورنہ نہیں۔

کابل ہو یا قندھار یا پھر کوئی بھی اور شہر، یہاں میں نے اپنے کیمرے سے لاتعداد بار ڈاکیومینٹریز اور رپوٹس کو عکس بند کیا۔ اس لیے فلمنگ کیے بغیر اپنے موبائل کا کیمرہ بند کرتے، کیمرہ اور ٹرائپوڈ اٹھاتے کبھی ایک جگہ تو کبھی دوسری جگہ جا کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اور آخر میں اپنی قیام گاہ کی جانب لوٹتے میں کافی کوفت کا شکار ہو رہا تھا۔

طالبان

ابھی تک تو طالبان کی سیلفیاں اور نرم انداز یہ ظاہر کر رہا تھا کہ شاید وہ تصاویر کے حوالے سے نرمی برتیں لیکن یہاں کابل سے قندھار تک شاہراؤں اور عمارتوں پر لگی تصاویر اور مجسموں کا کیا ہو گا اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔

قندھار سے آنے والے ایک شخص نے ہمیں قندھار کی تباہی، وہاں ہونے والی تبدیلیوں اور اپنے سفر کے بارے میں آگاہ کیا۔

میں خود قندھار چند ماہ پہلے ہی گیا تھا۔ اب تو مجھے ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ میں کتنی بار وہاں جا چکا ہوں شاید یہ تعداد 25 یا اس سے زیادہ ہے۔ میں پہلی بار قندھار سنہ 2004 میں ایک نجی ادارے کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بنانے گیا تھا۔

اسی سال میں نے قندھار کے شہیدانوں چوک میں افغان باکس کیمروں کی قطار دیکھی تھی۔ قندھار میں بجلی تو بہت دیر سے آئی تو لوگ ان دنوں تصویر بنانے کے لیے سنہ 1825 میں ایجاد ہونے والا یہ کیمرہ استعمال کرتے تھے۔

گذشتہ برس جب میں اس چوک سے گزر رہا تھا تو ایک فوٹوگرافر کی دکان کے باہر مجھے وہی افغان باکس کیمرہ دکھائی دیا تو میں فوراً گاڑی سے اترا اور ڈیڑھ سو ڈالر میں وہ کیمرہ خرید لیا۔ غالباً یہ اس چوک میں موجود آخری کیمرہ تھا۔ دکاندار حیرت سے مجھے پوچھنے لگا آپ یہ کیوں خرید رہے ہیں، اس کا کیا کریں گے تو میں نے بتایا میں اسے اپنے ڈرائینگ روم میں رکھوں گا تو وہ مزید حیران ہو گیا۔

خیر آج نجانے اس چوک پر کسی فوٹوگرافر کی دکان کھلی ہے یا آگے کھل سکے گی، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اتنا سنا ہے کہ قندھار میں آج جب قومی پرچم کے حوالے سے مظاہرہ ہو رہا تھا تو تشدد کا نشانہ بننے والے افراد میں کچھ صحافی بھی شامل تھے۔

کیمرہ

قندھار کے مقامی شخص گل محمد (فرضی نام) نے ہمیں بتایا کہ پہلے کی نسبت تو کچھ بہتری آئی ہے لیکن ایک روز پہلے تو شہر میں لوگ فائرنگ کی شکایت کر رہے تھے، کچھ لوگ بگرام جیل سے وہاں آئے تھے اور فائرنگ کر رہے تھے۔

گل محمد کہتے ہیں ’پہلے بہت رش تھا، بہت طالبان تھے جو موٹر سائیکلوں پر شہر میں گھومتے تھے۔ کچھ لوگ تو کئی شہریوں کے گھروں کو لوٹ رہے تھے لیکن اب بہتری آئی ہے۔ گورنر کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم نے کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ہم ان کو سزا دیں گے۔‘

تاہم گل محمد کہتے ہیں کہ ابھی بھی زیادہ تر دکانیں بند ہیں۔ قندھار میں سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں، البتہ ٹریفک پولیس سڑکوں پر آ گئی ہے اور حکومتی دفتروں مثلاً ہسپتالوں اور واٹر سپلائی نے کام شروع کر دیا ہے لیکن ابھی بھی گورنر ہاؤس اور کسٹم آفس بند ہیں۔ لوگ پریشان ہیں شاید اس لیے بھی کوئی کام پر نہیں آ رہا۔

وہ کہنے لگے کہ بہت سے حکومتی اہلکاروں نے شہر چھوڑ دیا تھا ہاں البتہ اب دو روز سے کچھ لوگ واپس لوٹ آئے ہیں۔

ہم نے گل محمد سے پوچھا کہ کیا آپ ہمیشہ کے لیے قندھار چھوڑ کر آئے ہیں تو انھوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ ابھی تو میں کام سے کابل آیا ہوں لیکن سچ پوچھیں تو میں یہاں اب مستقل رہنے سے خوفزدہ ہوں، معلوم نہیں کہ نیا نظام کیسا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے زیر اثر علاقوں میں سفر: ’خواتین کی تصویریں لینے سے فحاشی پھیلتی ہے‘

’لیتھیم کا سعودی عرب‘ کہلائے جانے والے افغانستان کی معیشت کا مستقبل کیا ہو گا؟

طالبان افغانستان تنازعے میں سعودی عرب سمیت کون سا اسلامی ملک کس کے ساتھ ہے؟

وہ کہنے لگے کہ ’ابھی خواتین بنا برقعے کے بازار میں گھوم رہی ہیں، ماسک پہنتی ہیں لیکن ہم مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ سب لوگ اسی بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ افغانستان سے نکل رہے ہیں۔ میں خود یہاں نہیں رہنا چاہتا۔‘

گل محمد کہتے ہیں کہ مہینے بھر کی جنگ میں انھوں نے ہر روز عام شہریوں کی لاشیں دیکھی ہیں۔

’طالبان نے مشرق اور جنوب میں عمارتیں تباہ کیں، گھروں کو شیلٹر کے طور پر بھی استعمال کیا۔ شہر میں مجھے ایک خاتون نے بتایا کہ طالبان نے کہا کہ اگر پانچ منٹ میں گھر نہ چھوڑا تو میں تم کو مار دوں گا۔ انھوں نے گھر تباہ کیے، حکومت ان کے خلاف ائیر فورس استعمال کر رہی تھی اس سے بھی گھر تباہ ہوئے۔‘

گل محمد کہتے ہیں کہ سنہ 2001 سے اب تک عام شہریوں نے ہی قیمت چکائی ہے۔

گل محمد کہتے ہیں کہ ان کے کابل تک سفر کی ایک اچھی بات یہ رہی کہ رات دس بجے وہ قندھار سے نکلے اور صبح سات بجے پہنچے لیکن راستے میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ ان کا سامنا ڈاکووؤں سے ہوا ہو جو پہلے یہاں عام تھا۔ ہاں دو چیک پوائنٹ تھے جہاں طالبان نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے اور بھر جانے دیا۔

گل محمد کی عمر 41 برس ہے اور طالبان کا پچھلا دور بھی ان کو اچھی طرح سے یاد ہے۔

وہ کہتے ہیں ’اب تو قندھار میں جدید عمارتیں اور ترقی دکھائی دیتی ہے۔ جب طالبان کا پہلا دور تھا تب خشک سالی اور قحط تھا۔ لوگ غربت میں تھے، اس وقت ہمیں ایک نوالے کے لیے بھی بہت مشکل ہوتی تھی۔ اس وقت طالبان نے پاپی (پوست) کاشت کی اور ہم بچوں کو یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ پھول ہیں۔ ہم اس میں سے نکلنے والی خشخاش کو چینی سے ملا کر کھاتے تھے، ہم سمجھتے تھے کہ یہ کوئی میوہ ہے۔‘

قندھار

گل محمد کہتے ہیں کہ پوست طالبان کے لیے مالی آمدن کا ذریعہ تھی اور وہ اس کی یہ توجیہیہ دیتے تھے کہ یہ مغرب کے خلاف ہتھیار ہے۔

میں نے گل محمد سے پوچھا کہ اب بھی کیا طالبان نماز، داڑھی اور ٹوپی کی چیکنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں، تو انھوں نے کہا ابھی تو طالبان کچھ نہیں کہہ رہے اور شاید وجہ یہ کہ وہ ابھی چاہ رہے ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی ان کو تسلیم کر لے۔

گل محمد کہتے ہیں کہ وہ 16 برس کے تھے جب ایک روز قندھار میں طالبان کے ایک گروہ نے انھیں پکڑ لیا۔

’انھوں نے مجھے کہا کہ داڑھی کیوں نہیں رکھی، سر پر ٹوپی کیوں نہیں، بال کیوں نہیں کاٹے۔ میں نے کہا بال کاٹنے کا ٹائم نہیں ملا، تو انھوں نے کہا چلو آپ کے پاس ٹائم نہیں ہمارے پاس تو ہے۔ انھوں نے مشین لے کر میرے سر کے بیچ میں جیسے سڑک بنا کر مجھے چھوڑ دیا اور کہا اب تمھارے پاس ٹائم ہو جائے گا۔‘

’اس وقت مجھے لگا یہ شہر نہیں بلکہ جنگل ہے۔ میں نے اس وقت اپنے خاندان سے کہا کہ اب میں یہاں نہیں رہوں گا اور پھر آٹھ سال تک میں پاکستان رہا۔ پھر جب طالبان چلے گئے اور کچھ وقت گزرا تو میں پڑھنے کے بعد یہاں لوٹ آیا۔ معلوم نہیں اب کب تک یہاں رہ پاؤں۔‘

گل محمد کہتے ہیں آج یہاں ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن ابھی نہیں معلوم کہ ہم یہ سب ہمیشہ استعمال کر سکیں گے یا نہیں۔

’اب قندھار ایک ماڈرن سٹی ہے۔ یہاں کی بچیاں سکول جانے لگیں تھی، خواتین اکیلے نکل سکتی تھیں اور گاڑی چلانے لگی تھیں۔ یہاں آپ کو پختہ عمارتیں اور جدید طرز کی رہائش گاہ ملیں گی۔ شہر کی جدید ہاؤسنگ سوسائٹی ’عینو مینہ‘ ہر آنے والے شخص کی توجہ حاصل کرتی ہے۔‘

قندھار

گل محمد کہتے ہیں کہ چند روز پہلے ان کے بیٹے نے کہا کہ بابا یہ طالبان فاؤنٹین کے گندے پانی میں منھ ہاتھ کیوں دھو رہے ہیں؟

’میں نے مڑ کر دیکھا تو شہر کے وسط میں بنے فوارے کے گرد بیٹھے کچھ طالبان آئس کریم کھا رہے تھے اور جوس پی رہے تھے اور کچھ اذان ہوتے ہی اس فوارے کے پانی سے وضو کرتے دکھائی دیے، جو مہینوں سے تبدیل نہیں ہوا۔‘

’اسی طرح تین دن پہلے میں سوئمنگ پول گیا تو وہ بند تھا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ طالبان آ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس میں جائیں گے اور وہ جوتوں سمیت اس میں جاتے تھے اور پول کو گندا کر رہے تھے اس لیے اب وہ بند پڑا ہے۔‘

گل محمد کہتے ہیں کہ سابقہ دور میں طالبان خود کو اسلامی لحاظ سے پڑھے لکھے طالبان کہتے تھے۔

’ہمیں نماز پڑھنے کا کہتے تھے لیکن اب میں نے قندھار میں کچھ طلبان سے بات کی تو مجھے لگا وہ خود بھی بہت سے اسلامی اصولوں سے واقفیت نہیں رکھتے۔‘

’یوں لگتا ہے ان میں ایسے بھی ہیں جو مدرسے اور اسلامی تعلیمات سے نابلد ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاید طالبان انھیں استعمال کر رہے ہیں۔ میں نے ایک طالب سے پوچھا کہ اگر تصویر حرام ہے تو تمھارے لیڈر تصویریں کیوں بنا رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا شاید انھیں کوئی مجبوری ہو۔‘

’ایک اور طالب سے میں نے کہا کہ اگر پانی نہ ملے تو کیا کرو گے۔ کہنے لگا تیمم۔۔۔ میں نے کہا مجھے تیمم کا طریقہ بتاؤ تو کہنے لگا کہ میں بعد میں بتاؤں گا لیکن پھر وہ وہاں سے چلا ہی گیا اور لوٹا نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp