طالبان کا افغانستان پر قبضہ: افغانستان میں تبدیلی پاکستانی معیشت پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


اخبارات
کابل پر طالبان کے قبضے کے اگلے روز پاکستانی اخبارات کی شہ سرخیاں
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا ہے۔ ہمسایہ ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان میں آنے والی تبدیلی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے اس لیے اکثر ذہنوں یہ سوال موجود ہے کہ مستحکم ہونے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی معیشت پر یہ صورت حال کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔

پاکستانی معیشت نے مالی سال 2020 میں ستر سالوں کی بد ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا تاہم یہ 30 جون 2021 کو اختتام پذیر ہونے والے گذشتہ مالی سال میں کچھ مستحکم ہوتی نظر آئی۔ ایک طرف یہ معیشت آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت مالی ڈسپلن اور شرائط میں بندھی ہوئی ہے تو دوسری جانب اس میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا رجحان بہت کم نظر آیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری جو سٹاک مارکیٹ اور گورنمنٹ سکیورٹیز میں آتی ہے اس میں پچھلے کئی ہفتوں سے کافی کمی دکھائی دے رہی ہے۔ صرف جولائی کے مہینے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز میں کوئی بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئی جس کی وجہ افغانستان میں جون کے مہینے سے شروع ہونے والی طالبان کی پیش قدمی اور اس کے پورے خطے پر اثرات تھے۔

پاکستان کے کاروباری و تجارتی حلقوں کے ساتھ معاشی اور مالیاتی امور کے ماہرین افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال پر ابھی ‘دیکھو اور انتظار کرو’ کی تجویز دیتے ہیں۔

اگرچہ کابل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد پاکستان کے مالیاتی شعبے اور کیپیٹل مارکیٹ نے بہت منفی رد عمل دکھایا تاہم ایک دو دن میں ان شعبوں میں بحالی دیکھی گئی جس کی وجہ ماہرین کے نزدیک کابل پر کسی خون ریزی کے بغیر طالبان کا قبضہ تھا۔

ماہرین معیشت کے مطابق ابھی تک افغانستان میں بڑے پیمانے پر خون ریزی اورخانہ جنگی نہ ہونا پاکستان اور اس کی معیشت کے لیے اچھا ہے تاہم پاکستان کے معاشی اور مالیاتی شعبے صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں کہ مستقبل میں حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔

پاکستانی معیشت اس وقت کس حال میں ہے؟

پاکستانی معیشت جس نے مالی سال 2020 میں منفی صفر اعشاریہ چار فیصد معاشی شرح نمو ریکارڈ کیا تھا وہ مالی سال 2021 میں چار فیصد تک بڑھ گئی اور موجودہ مالی سال کے لیے تقریباً پانچ فیصد کا گروتھ ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

تاہم پاکستان اس وقت چھ ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط میں بندھا ہوا۔ دوسری جانب ملک میں مہنگائی کی شرح عروج پر ہے۔ اگرچہ پاکستان کو برآمدات اور ترسیلات زر کی صورت میں آنے والے ڈالروں کی وجہ سے کافی سہارا ملا ہے تاہم ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ درآمدات کی وجہ سے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔

روپے کے مقابلےمیں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آریا ہے جس کی وجہ سے درآمدات جن میں پٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کی چیزیں مہنگے داموں پاکستان میں آ رہی ہیں۔ پاکستان کے شرح تبادلہ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

معیشت

دوسری جانب ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے اور موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں تقریباً 39 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

افغانستان میں تبدیلی پر پاکستانی معیشت نے کس طرح رد عمل دیا؟

کابل پر طالبان کے قبضےکی اطلاعات آتے ہی پاکستانی معیشت کے ایک اہم اعشاریے سٹاک مارکیٹ نے منفی ردِعمل کا مظاہرہ کیا اور سٹاک مارکیٹ میں چار سو پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی۔

کے اے ایس بی سکیورٹیز کے مینجنگ ڈائریکٹر آصف ارسلان سومرو نے نے بتایا کہ اسٹاک مارکیٹ کا سرمایہ کار افغانستان کی صورت حال پر کافی پریشان تھا۔ اس لیے جیسے ہی کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا سٹاک مارکیٹ نے رد عمل دکھایا اور مارکیٹ چار سو پوائنٹس گر گئی تاہم جیسے جیسے کابل پر بغیر کسی خون خرابے کے قبضے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا اور مارکیٹ نے ریکور کرنا شروع کر دیا۔

بینر

’لیتھیم کا سعودی عرب‘ کہلائے جانے والے افغانستان کی معیشت کا مستقبل کیا ہو گا؟

دو دہائیوں تک امریکہ کا مقابلہ کرنے والے طالبان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟

افغانستان میں طالبان کے قبضے سے انڈیا کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟

افغانستان کی بساط پر چین، ایران اور روس کہاں کھڑے ہیں؟


دوسری جانب بین الاقوامی مارکیٹ میں افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے پاکستانی بانڈز کی دھڑا دھڑ فروخت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ان کی پانچ، دس اور تیس سالہ بانڈز کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں سرمائے کے حصول کے لیے جاری کیے گئے ان بانڈز کی سیکنڈری مارکیٹ میں خرید و فروخت ہوتی ہے تاہم کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے ان بانڈز میں عدم دلچسپی دکھائی جس کی وجہ سے ان کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

آصف سومرو نے بتایا کہ ‘افغانستان میں تبدیلی ک بعد سرمایہ کاروں نے ان بانڈز میں کم دلچسپی دکھائی جس کی وجہ سے یہ فروخت کے دباو کا شکار ہوئے۔’

پناہ گزین

تاہم انھوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ 'جیسے جیسے افغانستان میں حالات بدل رہے ہیں اور اگر وہاں پر امن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے معاملات طے ہو جاتے ہیں تو ان بانڈز کی دوبارہ خریداری شروع ہو سکتی ہے۔'

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ‘بانڈزکی قیمتیں گرنے کی وجہ مارکیٹ کا مجموعی ردِعمل تھا کہ سرمایہ کار کس طرح سوچ رہا ہے۔ ایک تو سوچ یہ تھی کہ حالات خراب ہیں اور افغانستان میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے جو مہاجرین کو پاکستان کی طرف دھکیل سکتی ہے تاہم ابھی تک جو حالات دکھائی دیے ہیں اس میں کوئی خون خرابہ ہوئے بغیر کابل میں طالبان داخل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کے لیے بہت زیادہ منفی اثر نہیں ہوا۔

پاکستان میں تجارت اور سٹاک مارکیٹ کا بڑا نام عارف حبیب نے کہا کہ ‘خدشات بہت زیادہ تھے لیکن پرامن طریقے سے کابل پر طالبان کے قبضے نے پاکستانی معیشت کو کسی بڑے دھچکے سے بچا لیا۔ اگرچہ سٹاک مارکیٹ نے ابتدائی طور پر منفی ردِعمل دکھایا تاہم پھر اس نے آہستہ آہستہ ریکور کرنا شروع کر دیا۔’

افغانستان میں تبدیلی پاکستانی معیشت پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہے؟

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ‘پاکستان کو سب سے زیادہ مسئلہ پناہ گزینوں کی آمد سے ہے۔ اگرچہ ابھی تک مہاجرین کی آمد دکھائی نہیں دی تاہم اگر مستبقل میں پرامن طریقے سے اقتدار کے معاملات طے نہیں پاتے اور کسی خانہ جنگی کا خطرہ ہو تو پناہ گزینوں کی آمد پاکستان اور اس کی معیشت کے لیے بہت بڑا مسئلہ بن جائے گی۔

انھوں نے کہا ایک مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے جس کی بنیاد وہ قیاس آرائیاں ہیں کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کی اور اس کی وجہ سے وہ افغانستان پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہوئے۔ اگر یہ تاثر بڑھا کہ پاکستان نے طالبان کی مدد کی تو رسمی اور غیر رسمی طور پر پاکستان پر دباو آ سکتا ہے جو کچھ معاشی پابندیوں کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

خطے کی صورت حال کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے سوال پر ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ ‘پاکستان میں پہلے بھی کوئی خاص سرمایہ کاری نہیں آ رہی تھی اور جو تھوڑی بہت تھی وہ بھی چند ایک شعبوں تک محدود تھی۔’

دوسری جانب آصف ارسلان سومرو نے کہا کہ ‘اگرچہ ابھی تک حالات نارمل دکھائی دیتے ہیں تاہم پاکستان کے لیے ایک چیز پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے کہ افغانستان کی وجہ سے امریکہ کی پاکستان میں بھی دلچپسی تھی اور اس کی وجہ سے ڈالر آ رہے تھے تاہم اگر اب امریکہ کی دلچپسی ختم ہوتی ہے تو امریکہ اور اس کی اشارے پر چلنے والے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے آنے والےڈالر کا بہاؤ رک سکتا ہے۔’

‘پاکستان سے سمگلنگ بڑھ سکتی ہے’

افغانستان سے پاکستان کی باہمی تجارت کے بارے میں فرخ سلیم نے کہا کہ ‘اس کا حجم اتنا زیادہ نہیں ہے کہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کو بہت زیادہ اثر پڑے کیونکہ افغانستان جانے والی مصنوعات میں زیادہ تر چیزیں سمگل ہو کر وہاں پہنچتی ہیں۔’

ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ‘افغانستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے پاکستان سے سمگلنگ بڑھ سکتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہو سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔’

بنگالی نے کہا کہ ‘بیرونی سرمایہ کار محتاط ہو جائے گا اور خطے خاص کر پاکستان میں سرمایہ کاری کے بارے میں کچھ عرصہ سوچے گا۔

انھوں نے کہا کہ ‘ابھی تک خانہ جنگی نہ ہوئی لیکن اگر اقتدار کے معاملات طے نہیں پاتے اور خدانخواستہ افغانستان پھر کسی خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے اور مہاجرین پاکستان آتے ہیں تو یہ ہماری معیشت کے لیے بے پناہ نقصان دہ ہو گا۔’

عارف حبیب نے اس سلسلے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگرچہ ابھی تک امریکہ، چین اور روس کے بیانات حوصلہ افزا ہیں جس کی وجہ سے امید ہے کہ افغانستان کے اندرونی حالات کسی مثبت سمت میں بڑھیں گے۔

‘لیکن ایک کاروباری فرد ہونے کی حیثیت سے ان کی یہ رائے ہے کہ ‘انتظار کرو اور دیکھو’ کی پالیسی ہی اپنانی چاہیے کیونکہ ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp