سانحہ لاہور اور روشن خیالی کی گرہیں


آج سے ٹھیک بیاسی برس پہلے 23 اگست 1939 کو سوویت یونین نے نازی جرمنی کے ساتھ امن معاہدہ کر کے دنیا بھر کے روشن خیال اور امن پسند انسانوں کو گنگ کر دیا تھا۔ دس روز بعد جرمن افواج مشرق میں پولینڈ اور مغرب میں بیلجئم کے راستے فرانس پر حملہ آور ہو رہی تھیں تو ہمارے اشتراکی احباب اسے سرمایہ داری کی جنگ قرار دیتے تھے۔ پورے یورپ پر قابض ہونے کے بعد 22 جون 1941 کو جرمنی نے سوویت یونین کا رخ کیا تو کمیونسٹ انقلابیوں کے لئے دوسری عالمی جنگ فاشزم کے خلاف جدوجہد قرار پائی۔ سوویت یونین میں تو اشتراکی ریاست قائم تھی۔ ریاستوں کی اپنی ایک منطق ہوتی ہے اور ایسے تان پلٹوں پر داد فصاحت دینے والے بھاڑے کے ڈوم ڈھاڑی بھی کوڑیوں کے بھاﺅ نخاس میں مل جاتے ہیں۔ روشن خیالی کا المیہ اس دانشور کے حصے میں آتا ہے جو اپنے ایقان کی روشنی میں اکثریت کے جبر اور ہجوم کی دیوانگی کے سامنے سینہ سپر ہوتا ہے۔

روشن خیالی سچائی، آزادی، انصاف، امن، علم، حسن اور محبت کے لئے ضمیر انسانی کی پکار ہے۔ اٹھارہویں صدی میں والٹیئر، دیدرو، روسو اور تھامس پین نے جھوٹ، تعصب، محرومی، جہالت اور استبداد کے خلاف آواز اٹھانے کی روایت قائم کی تو انہیں اپنے ضمیر کو پورے شرح صدر کے ساتھ بیان کرنے میں وہ رکاوٹیں پیش نہیں آئیں جو 20ویں اور 21ویں صدی میں روشن خیال دانشور کو درپیش ہوئیں ۔ درویش کی رائے میں اس کی وجہ دانشور کا یہ مغالطہ ہے کہ روشن خیال رائے کو کسی گروہ یا جماعت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ روشن خیالی بنیادی طور پر انفرادی ضمیر کا شواہد کی روشنی میں لمحہ بہ لمحہ فیصلہ ہے اور اسے کسی مبسوط بیانیے یا تنظیمی ڈھانچے کا پابند کرنے سے ناگزیر طور پر تناقضات پیدا ہوتے ہیں۔

آج ہنگری کا کچھ ذکر رہے۔ وسطی یورپ میں 93000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہنگری چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہے گویا سمندر تک رسائی نہیں۔ آبادی ان دنوں کوئی 97 لاکھ ہے اور دلچسپ بات یہ کہ 1956 میں آبادی 99 لاکھ تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہنگری سوویت یونین کے حلقہ اثر میں شامل کر دیا گیا۔ ماسکو کے براہ راست تسلط نے نحیف جمہوری خدوخال ملیامیٹ کر دیے۔ 23 اکتوبر 1956 کو یونیورسٹی طالب علموں کا ایک چھوٹا سا احتجاج قومی ابھار میں بدل گیا۔ کمیونسٹ سربراہ حکومت ایمری نیگے (Imre Nagy) نے رائے عامہ کا رخ دیکھتے ہوئے وارسا سمجھوتے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ 4 نومبر 1956 کو سوویت یونین نے 17 ڈویژن فوج سے ہنگری پر حملہ کر دیا۔ یہ ٹھیک وہی ہفتہ تھا جب اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے نہر سوئز بحران میں مصر پر حملہ کر رکھا تھا۔ یورپ کو دو تہائی تیل تک رسائی کی تشویش نے ہنگری کی گلیوں میں بہتے لہو سے بے خبر کر دیا۔ 2500 شہری مارے گئے۔ ایمری نیگے کو پھانسی دے دی گئی۔

میکسیکو کا نوبل انعام یافتہ شاعر اوکتاویو پاز ان دنوں پیرس میں تھا۔ اس نے ژاں پال سارتر سے ہنگری کے انسانی المیے پر سوال کیا تو سارتر نے جواب دیا کہ ’سٹالن کے بارے میں خروشچیف کے غیرذمہ دارانہ بیانات نے ہنگری کے عوام کو گمراہ کیا ہے‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوکتاویو پاز کی معروف ترین نظم ’تنہائی کی بھول بھلیاں‘  (The Labyrinth of Solitude) کا موضوع ہی اقتدار اور فرد کی کشمکش ہے۔ لاہور میں کسی مداح نے فیض صاحب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، ’اٹلی کے کچھ رفیقوں سے بات ہوئی ہے۔ ہنگری کے معروضی حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ کارروائی ناگزیر ہو گئی تھی‘۔ ہر دو عبقری دانشوروں کی رائے پر تبصرہ لاحاصل ہے۔ درویش سمجھتا ہے کہ فانی انسان اپنے زمانی اور مکانی تناظر میں اس درجہ محو ہوتے ہیں کہ تاریخ کی بڑی تصویر اور فرد انسانی پر گزرنے والی قیامت پر ہمہ وقت کھلی آنکھ سے غور کرنا قریب قریب ناممکن ہو جاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہمارے قرب و جوار میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ حسب توقع ہمارا انفرادی اور اجتماعی ردعمل ہماری ژولیدہ خیالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افغانستان میں طالبان نے بین الافغان مذاکرات کی ضمانت سے روگردانی کرتے ہوئے بزور بندوق کابل پر قبضہ کر کے امارت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ بے شک 1996 کے موسم خزاں پر ربع صدی گزر چکی ہے لیکن چیتا اپنی دھاریاں تبدیل نہیں کیا کرتا۔ افغانستان میں آمریت اور بدامنی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ ہوائی جہازوں سے لٹک کر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والے اپنے ملک کے حالات کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقے کی کلکاریاں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ کوئی نہیں پوچھ رہا کہ طالبان کے زیر نگیں افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے کیا ارادے ہیں؟ کیا امارت اسلامی ہمارے 70 ہزار شہریوں اور 6000 فوجی جوانوں کے قاتلوں کو پاکستان کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف داعش کے خوابیدہ کارندوں کا کیا ہو گا؟ ایک ہفتہ پہلے تک افغان معاملات میں غیرجانبداری کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے پر خوش ہیں لیکن یہ وضاحت نہیں کر رہے کہ 2001 سے 2021 تک ہم دنیا کے ساتھ مل کر کس دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار تھے؟

غلامی تو ایک ماؤف ذہنی کیفیت ہے جس میں تعصب کو انصاف پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس ذہنی افلاس ہی کا نتیجہ ہے کہ لاہور میں یوم آزادی پر مینار پاکستان کے سائے میں غنڈہ گردی کا نشانہ بننے والی خاتون کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ 50 کی دہائی میں گجرات کے لاری اڈے پر ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس پر مرحوم شورش کاشمیری نے چٹان میں نظم لکھی تھی۔ ’شورش ایسی قوم پر اژدر برسنے چاہییں‘۔ لاہور کے مجرم ہجوم ہی پر یہ اژدر برسنا کافی نہیں، پاکستانی عورتوں کے شرف انسانی سے انکار کرنے والوں کو بھی ان کا حصہ ملنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments