کوئٹے میں اردو مرثیے کا جداگانہ رنگ


بلوچستان میں اردو شاعری کی مختلف اصناف کے ساتھ ساتھ مرثیے کی بھی ایک مضبوط روایت قائم ہے۔ خانوادہ اہل بیت سے عقیدت کا اظہار بلوچستان میں اردو کے اولین شاعر محمد حسن براہوی کے کلام میں بھی موجود ہے جو ریاست قلات کا وزیراعظم بھی تھا۔ اس کا زمانہ 1848 ء کا ہے۔

بعد میں جب انگریزوں نے انیسویں صدی کے آخر میں کوئٹے شہر کو آباد کیا تو ہندوستان بھر سے اہل صنعت و حرفت کی ایک بڑی تعداد کو یہاں لا کر آباد کیا گیا۔ ایسے لوگوں میں ادب اور فن سے دلچسپی رکھنے والے بھی شامل تھے۔ جنھوں نے مقامی اہل فن کے اشتراک سے یہاں مختلف فنون کی بنیادیں رکھیں۔

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی ایک مختصر تعداد بھی بلوچستان آئی جن میں سے کچھ لوگ تو یہاں کے مختلف چھوٹے شہروں میں آباد ہوئے مگر ان میں سے بیشتر لوگوں نے کوئٹے کو اپنا گھر بنالیا۔ ہندوستان سے آنے والے ان لوگوں میں اہل سنت کے علاوہ شیعہ مسلک کے لوگ بھی تھے۔ ان کے علاوہ افغانستان سے ہزارہ قبیلے کے لوگ بھی ادھر آتے رہے جو سب اہل تشیع تھے۔ یوں قدرتی طور پر کوئٹے میں اردو مشاعروں کے ساتھ ساتھ مرثیے کی مجالس منعقد ہونے لگیں۔

کوئٹے میں اردو مرثیے کے اہم شاعروں میں نسیم امروہوی، زاہد نقوی، اثر جلیلی، آغا صادق، پروفیسر مجتبیٰ حسین، اور شرافت عباس وغیرہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ فہرست حتمی نہیں۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین بلوچستان یونیورسٹی میں اپنی وقیع علمی اور تدریسی خدمات کے باعث صوبے بھر میں اردو کے استاد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی وفات کو ایک عرصہ ہو چکا ہے مگر آج بھی لوگ انھیں محبت سے یاد کرتے ہیں۔ وہ اپنے ایک شعر میں میر انیس کی بجائے مرزا دبیر سے متاثر ہونے کو یوں بیان کرتے ہیں۔

عرصے سے ان کے شعر و سخن کا اسیر ہوں
میں بچپنے سے عاشق نظم دبیر ہوں

کوئٹے میں اردو مرثیے کو بالکل جدا رنگ جس شاعر نے دیا وہ اثر جلیلی ہیں۔ ان کا اصل نام سید عبدالاحد تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئے اور 1981 میں وفات پائی۔ ان کے مرثیوں کا ایک مجموعہ ”عکس کربلا“ کے نام سے شائع ہوا جو اب کم یاب ہے۔

مرثیے میں عام طور پر واقعات کربلا کے تناظر میں تیز دھوپ، تپتی ریت اور گرم موسم کی شدت کے مناظر ملتے ہیں۔ اثر جلیلی نے اپنے ایک مرثیے میں موسم کی شدت تو دکھائی ہے مگر اسے الٹ دیا اور گرم موسم کی بجائے شدید سرد موسم کا منظر نامہ دکھایا ہے۔ یہ ان کی کوئٹے کی سرزمین سے گہری جڑت کا اظہار ہے۔ اس طرح انھوں نے کوئٹے کے سرد موسم کے رنگ اپنے فن میں پیش کرتے ہوئے اردو مرثیے کو ایک نیا اور منفرد رنگ دیا جو صرف ان سے مخصوص ہے۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین نے بھی مرثیے پر اپنے ایک مضمون میں اثر جلیلی کی اس انفرادیت کو سراہا ہے۔ کوئٹے کے یخ بستہ ماحول پر مشتمل اس مرثیے کا عنوان ”برف نامہ“ ہے جس کے چند بند پیش ہیں۔ یہ بند عابد رضوی صاحب کے ایک مضمون سے ہم دست ہوئے ہیں۔

خیمہ زن فصل خزاں ہے چمنستانوں میں
کہساروں سے سوا برف ہے میدانوں میں
منجمد خون ہوا جاتا ہے شریانوں میں
سرد ہے آتش سیال بھی پیمانوں میں
خوں لب زخم تک آتے ہوئے گھبراتا ہے
فرش پر قطرہ جو گرتا ہے وہ جم جاتا ہے
نہ کہیں مہر منور نہ کہیں ماہ و نجوم
آتش شوق حرارت سے ہوئی ہے محروم
کھو گئیں نظریں ہوا برف کا اس درجہ ہجوم
جم کے رہ جائے جو آ نکلے ادھر باد سموم
آگ کا دائرہ بھی برف کا آغوش ہوا
ابھی بھڑکا بھی نہ شعلہ تھا کہ خاموش ہوا
مارے سردی کے ہے پہلو کا بدلنا دشوار
نفس گرم ہے برفانی ہوا سے دوچار
شعلۂ جاں میں حرارت کے نہیں ہیں آثار
آگ کے پاس سے اٹھتے ہیں تو چڑھتا ہے بخار
گر نظر بھی کہیں دوچار قدم جاتی ہے
اس قدر برف کی شدت ہے کہ جم جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments