14 اگست 1947 سے 2021


میرے والدین 14 اگست 1947 کو ہجرت کر کے کپورتھلہ جالندھر سے پاکستان لائلپور سے آگے ہمارے گاؤں پھرالہ اور گرالہ میں آباد ہوئے۔ والد صاحب پھرالہ اور والدہ صاحبہ ساتھ والے گاؤں گرالہ میں آباد ہو گئے۔ ہجرت کے 64 سال بعد والدہ وفات پا گئیں اور 68 سال بعد والد صاحب وفات پا گئے۔ میرا ان کا 41 سال والدہ صاحبہ کے ساتھ اور 45 سال والد صاحب کے ساتھ رہا۔

جب بھی ان کے پاس بیٹھتا وہ مجھے ہجرت کے مظالم کی کہانیاں سناتے اور شاید ہی کوئی کہانی بغیر آنسو کے سنائی ہو، ماں باپ کو روتے دیکھ میں بھی رو پڑتا، مجھے لگتا شاید میں بھی ان کے ساتھ ہی تھا، وہ بتاتے کیسے نوجوان لڑکیوں نے کنویں میں کود کر جان دے کر اپنی عزت بچائی، کس کی بیٹی اور بہن کو ہندو اور سکھ اٹھا کر لے گئے۔ کسی کی دوبارہ خیر خبر نہیں آئی۔ کیسے ٹرکوں پر حملے ہوتے تھے سب طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔

بچے رو رہے تھے۔ ہر طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہجرت کر آئے تھے اور دعا کرتے جا رہے تھے کہ اللہ ہم سب کی عزت محفوظ رکھے آمین، امی کہنے لگیں بیٹا میری عمر نو یا دس سال تھی۔ میرے میاں جی (ہمارے نانا جی) نے ہمیں دین دار اور پردے کا پابند بنایا تھا، پہلی دفعہ اتنا لمبا سفر تھا اور ہمارے دوپٹے، چادریں اور جوتے گم ہو گئے تھے۔ مجھے نہیں یاد اس کے علاوہ ہمارا کبھی سر ننگا ہوا ہو۔ اکثر بتاتیں جاتیں اور روتی جاتیں۔ بیٹا ہمارے گھروں کا شمار خوشحال گھرانوں میں ہوتا تھا۔ یہاں آ کر حالات الٹ گئے تھے ہر چیز کی تنگی تھی جب ہم اپنے گاؤں آئے تو ساتھ ہی بارشوں اور سیلاب نے کوئی کسر نہ اٹھا چھوڑی تھی، ہر طرف پانی سانپ بچھو ہی نظر آتے تھے، اور ہم ان کو مارتے مارتے تھک جاتے تھے۔

والد صاحب اپنی زمین، کنواں اور خوشحالی کا ذکر کرتے تھے اور پھر رونے لگ جاتے تھے۔ پھر مجھے جب لاہور سیر کے لئے لے کر گئے تو کہنے لگے یار صاحب یہاں 1940 میں قرارداد پاکستان پیش ہوئی تھی اور اسی لئے اس کو یادگار پاکستان کہا جاتا ہے۔ والدہ صاحبہ اور والد صاحب کی وفات کے بعد ہمیں یہ کہانیاں سنانے والا کوئی نہیں رہا۔ اس 14 اگست 2021 پر سارے پاکستان نے جشن آزادی بہت زور و شور سے منائی اور یادگار پاکستان تو 1947 میں واپس لے گیا پھر وہ منظر تھے وہی بلوے۔

اور کچھ لڑکیاں جن میں عائشہ اکرم نامی بچی کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو ہندو اور سکھ جتھوں نے کیا تھا، الحمدللہ ہمارے مسلمان بھائیوں نے اپنی ہی بہنوں کے ساتھ وہی سلوک کر کے 14 اگست 1947 کی یاد تازہ کی۔ سیر کے لئے آئی لڑکی کے سینکڑوں لوگوں نے کپڑے پھاڑے۔ اس حوا کی بیٹی کو ہوا میں برہنہ کر کے اچھالتے رہے اور جشن آزادی مناتے رہے، قریب ہی مدفون شاعر مشرق بھی شرمسار تو ہوئے ہونگے کہ میں نے یہ خواب تو نہیں دیکھا تھا، مجھے محسوس ہو رہا ہے۔ اب بھی ہم 1947 میں ہی رہتے ہیں اور انھی واقعات کی ہر سال ریہرسل کرتے ہیں، والدین کی وفات کے بعد میں ان کی یاد میں اکثر رونے لگ جاتا ہوں آج پہلی دفعہ اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ دنیا میں نہیں ہیں ورنہ ان پر کیا گزرتی۔

میں خود چار بیٹیوں کا باپ ہوں اور بطور باپ حکومت وقت سے اور ہر صاحب اختیار سے گزارش ہے کہ آپ انصاف تو مہیا نہیں کر سکتے۔ لیکن ایک کام کیجئے، جگہ جگہ کنویں کھدوا دیجئے تاکہ ہم سب اپنی بیٹیوں کو اس میں کود کر عزت بچانا سکھا سکیں۔ آتش بازیاں چلاو، پٹاخے چلاو، باجے بجاو کہ ہم شاید آزاد نہیں مادر پدر آزاد ہوئے ہیں۔

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments