جنرل صاحب، ہائبرڈ جنگ صحافی، ادیب اور استاد جیتا کرتے ہیں


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خطے کی صورت حال، کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی حفاظت کے حوالے سے روائیتی جوش و جذبے سے بھرپور تقریر کی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ ملکی فوج کے سربراہ کو بتایا جائے کہ ملکی آئین ان موضوعات پر گفتگو کے لئے سب سے بہترین فورم ملکی پارلیمنٹ کو قرار دیتا ہے۔ ملک کے اس مقتدر ایوان میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق کام کرنے والی مسلح افواج ہی ملکی حفاظت کی ضامن ہوسکتی ہیں۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 1971 میں اسی بنیادی اصول کو نظر انداز کرنے کی جو سزا اس ملک کو بھگتنا پڑی ہے، اسے دہرا کر کسی کو شرمندہ کرنا مقصود نہیں لیکن یہ باور کروانا اہم ہے کہ ’صرف فوج ہی ملک کی حفاظت کرسکتی ہے‘ کا نعرہ اب فرسودہ اور بے معنی ہوچکا ہے۔ افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات سے سب سے اہم سبق یہی سیکھا جاسکتا ہے کہ جب قوم کسی فوج کے ہم قدم نہ ہو ، جب عسکری اداروں کو مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا لیا جائے اور یہ گمراہ کن تاثر قوی کیا جائے کہ جب تک اسلحہ اور تعداد کی طاقت موجودہے ، کوئی بھی قوت ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتی تو مشکل وقت پر یہ سب سراب اور دھوکہ ثابت ہوتا ہے۔ کثیر سرمائے اور جدید ٹیکنالوجی سے تیار کی گئی افغان فوج کے بارے میں یہ گمراہ کن تاثر اس قدر پختہ تھا کہ امریکہ جیسی سپر پاور کا صدر بھی اس دھوکے میں غلط فیصلے کرتا رہا کہ افغان فوج طالبان کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو دبانے میں کامیاب رہے گی۔ وہ یہ بھول گیا کہ فوج کے فعال ہونے کے لئے قانون کے احترام پر استوار جس نظام کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ افغانستان میں موجود نہیں تھا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ خود اس بات کا بار بار اظہار کرتے رہے ہیں کہ فوج بھی اسی وقت دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے جب قوم اس کی پشت پر ہو۔ موجودہ حالات میں جب پاکستان کو عالمی سفارتی تنہائی ، علاقائی بے یقینی ، ہمہ وقت تخریب پر آمادہ ہمسائے اور شدید داخلی سیاسی، فکری اور ذہنی انتشار و بحران کا سامنا ہے تو ایک ایسے ملک کی فوج کیوں کر دفاع کے مقاصد پورے کرسکے گی یا ایسا ملک خود کیسے اپنے وجود کا جواز تلاش کرسکے گا۔ ملک میں یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن پر سچے دل سے غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ مذہبی تفاخر، اخلاقی اقدار، سماجی مساوات، تہذیب و مروت کے وہ سارے اصول تسلسل سے پامال ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم پاکستان کو ایک بہتر ، ممتاز اور قابل احترام ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کسی ملک میں رہنے والے لوگ قوم کی بجائے ہجوم کی شکل اختیار کرلیں اور یہ ہجوم یوم آزادی ہی کے دن یادگار پاکستان میں ایک تنہا خاتون کے ساتھ دست درازی اور بے حیائی کا ایساغیر انسانی سلوک روا رکھنا درست سمجھتا ہو، جس کی گونج اس وقت ملک کے کوچہ و بازار میں سنی جاسکتی ہے۔ کیا ایک یا دو سو لوگوں کو گرفتار کرنے یا سزا دینے سے اس اجتماعی اخلاقی دیوالیے پن کی تلافی ہوسکتی ہے ، جس کا مظاہرہ ان چار سو لوگوں نے مینار پاکستان پر کیا تھا؟

واضح ہونا چاہئے کہ جب بنیادی اخلاقی اقدار کو مذہب کا لبادہ پہنا کر اس کی نت نئی توجیہات عام کی جائیں گی تو ایسے ہجوم کو چند دن میڈیا میں شور مچانے، حکام کے بیان دینے اور شرمندگی کے اظہار سے لگام نہیں ڈالی جاسکتی۔ احترام اور اخلاقی برتری کا تعلق ان اقدار سے ہوتا ہے جو گھروں میں سکھائی جاتی ہیں اور درسگاہوں میں جن کی بنیاد استوار کی جاتی ہے۔ جس ملک میں مردوں کا گروہ ایک خاتون کو جنسی علامت سمجھ کر حملہ آور ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا اور کئی سو لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی پولیس کو مطلع کرنے کی توفیق نہیں ہوتی ۔ خاتون کی طرف سے فون کرنے پر پولیس جس ’مستعدی ‘ سے اس المیہ کو انجام تک پہنچانے کے لئے پہنچی ہے ، اس کی تفصیلات یہاں دہرانے کا محل نہیں ہے۔ لیکن محض یہ یاددہانی مقصود ہے کہ جنرل باجوہ آگاہ رہیں کہ اگر وہ واقعی اکیڈمی کے نو تربیت یافتہ کیڈٹس کو ملکی دفاع کی واحد امید سمجھتے ہیں تو انہیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ جس قوم کی حفاظت کے لئے فوج کو تیار کیا جارہا ہے، اس قوم کو تیار کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو کہ محافظ رہ جائیں اور قوم کا کہیں پتہ ہی نہ ہو۔

پاک فوج کے سربراہ نے اس تقریر میں بہت سی اچھی باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر برصغیر میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پا کر اہم ترین کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے بعد کم وسائل کے باوجود کورونا وبا اور ٹڈی دل جیسی آفتوں پر قابو پاکر اولالعزمی کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے افغانستا ن پر قابض ہونے والے طالبان سے توقع کی ہے کہ دنیا کے ساتھ کئے گئے وعدے کے مطابق افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ طالبان خواتین اور انسانی حقوق کی حفاظت کے وعدے پورے کریں گے اور یہ کہ ہم افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ان اچھی باتوں کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کچھ ایسی باتیں بھی کی ہیں جن کے بارے میں بدستور الجھاؤ موجود ہے اور فوج یا ملک کی سیاسی حکومت اس کی صراحت کا اہتمام کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا: ’برصغیر میں سامراجیت کے خلاف جد و جہد کا مقصد یہ تھا کہ اس علاقے کو خود مختار، ہم آہنگ اور خوشحال خطہ بنایا جائے جہاں قائم ہونے والے تمام ممالک امن و امان سے رہ سکیں۔ لیکن ہمسائے میں رونما ہونے والی گروہی سوچ اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے یہ مقاصد بھلائے جاچکے ہیں۔ دشمن قوتیں ہائیبرڈ جنگ کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں‘۔

ہمسایہ ملک میں ہندو انتہا پسندی پر بات کرنے سے پہلے کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ملک کے صاحبان اقتدار اپنے وطن میں اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی صورت حال پر غور کرلیں اور اسے درست کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ یا کہانی کے اس پہلو پر بھی غور کیا جائے کہ جو الزام اس وقت پاکستان کی سول و فوجی قیادت بھارت پر عائد کررہی ہے، وہی الزام بھارت کی طرف سے پاکستان پر گزشتہ دو تین دہائیوں سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان نے ہمیشہ اسے جھوٹا الزام ہی کہا ہے اور کبھی بھارت کے دعوؤں کو تسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی نام کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے اور کبھی ایسا کوئی شائبہ تھا تو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے؟

جنرل صاحب عام قاری سے زیادہ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ اس بیان میں کتنی سچائی ہے ۔ جس دہشت گردی کو ختم کرنے کا کریڈٹ جنرل باجوہ نے آج بھی لیا ہے ، یادش بخیر اس نے اسی مذہبی انتہا پسندی اور گروہی سوچ سے جنم لیا تھا۔ کا بل پر طالبان کے قبضے کے بعد وزیر اعظم کو ’غلامی کی زنجیریں ‘ ٹوٹتی دکھائی دیں اور دانشوروں کے ایک جم غفیر نے اسے حق کی فتح اور پاکستان کے لئے نیک شگون قرار دیا۔ بتایا جائے کہ کیا یہ نیک شگون کسی متعصبانہ مذہبی سوچ کا نتیجہ ہے یا اس سے اقوام عالم میں پاکستان کی سرفرازی کے راستے کشادہ ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے؟

دشمن کے پروپیگنڈا کو ہائیبرڈ وار کا نا م دیتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’مسلح افواج ان خطرات سے پوری طرح آگاہ ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم صلاحیت اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ملک کا دفاع کریں گے‘۔ انہوں نے کیڈٹس سے کہا کہ’ صرف مضبوط مسلح افواج ہی مادر وطن کی حفاظت کرسکتی ہیں‘۔ اس تقریر میں فوج کےسربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ جنگ کے طریقے بدل گئے ہیں اور روائیتی طور سے جنگ نہیں ہوگی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلح افواج ان بدلے ہوئے طریقوں کا بھی مقابلہ کریں گی اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دشمن کی ہائبرڈ یعنی پروپگنڈا جنگ کو ناکام بنائیں گی۔

عرف عام میں فوج میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیا رکی جاتی ہے۔ جب سیاسی پروپیگنڈا اور ملک کے خلاف بیانیے کی جنگ کا معاملہ آئے گا تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے عسکری صلاحیت سے لیس فوجی نہیں بلکہ عقل و دانش اور دلیل اور حجت کے ساتھ قومی مؤقف بیان کرنے والے صحافیوں، ادیبوں اور استادوں کی ضرورت ہوگی۔ جنرل باجوہ کو بندوق پکڑ کر سرحد کی حفاظت کرنے والے جوانوں سے نہ تو ایسی میڈیا وار کا مقابلہ کرنے کی توقع کرنی چاہئے، نہ یہ ان کا مینڈیٹ ہے اور نہ ہی وہ اس میں کامیاب ہوسکیں گے۔

پروپیگنڈا کی جنگ جیتنے کے لئے فکری آزادی اہم ہوتی ہے۔ قوم کی خود مختاری کے لئے بیانیے کی جنگ اسلحہ بارود کے زور پر نہیں لڑی جاسکتی۔ پاکستان میں اس کے برعکس ہائیبرڈ جنگ کے نام پر بنیادی آزادیوں کو مصلوب کیا گیا ہے۔ میڈیا پر پابندی ہے اور سوچ پر پہرے بٹھائے گئے ہیں۔ ملک کی حفاظت کے بیان میں ریاست اور اس کا انتظام چلانے والے مٹھی بھر لوگوں پر مشتمل گروہ کے مفادات میں شدید مغالطہ پیدا کیا جارہاہے۔ واضح ہو ہائیبرڈ جنگ جیتنے کے لئے اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنے کی روایت ترک کرنا ہوگی۔ جان لیا جائے حبس کا ماحول دشمن کے پروپگنڈے کو کامیاب بنانے میں سب سے زیادہ سازگار ہوتا ہے۔

جنرل باجوہ یقینی بنائیں کہ اس ملک سے مذہبی، سیاسی، فکری اور سماجی حبس کا خاتمہ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا افواج کی اعلیٰ تربیت اور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments