بائیڈن رواں ماہ کابل سے انخلا مکمل کرنے کے لیے پُرامید، نجی پروازوں کی بھی خدمات لیں گے


فائل فوٹو
ویب ڈیسک — امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ کابل سے لوگوں کے انخلا کے آپریشن میں روزانہ کی بنیاد پر اتار چڑھاؤ آ رہا ہے۔ ہر وہ امریکی جو افغانستان سے وطن واپس آنا چاہتا ہے اسے واپس لایا جائے گا۔

بائیڈن نے اتوار کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ کابل ایئرپورٹ سے لوگوں کے انخلا کے لیے اپنے افغان اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور خطرات سے دوچار افغان شہریوں کو بھی کابل سے نکال رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے حکام نے بتایا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران 30 ہزار 300 افراد کو افغانستان سے نکالا جا چکا ہے۔ جولائی کے اختتام سے اب تک مجموعی طور پر لگ بھگ 35 ہزار 500 افراد کا کابل سے انخلا کیا گیا ہے۔

صدر بائیڈن نے واضح کیا کہ کابل سے براہِ راست امریکہ کوئی پرواز نہیں آ رہی۔ ان کے بقول انخلا کے آپریشن کے دوران تمام پروازیں مختلف ملکوں میں موجود ہوائی اڈوں پر اتر رہی ہیں جہاں غیر امریکی شہریوں کی سیکیورٹی اسکریننگ کی جاتی ہے۔

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے اگلے ہی روز سے امریکی شہریوں، افغان جنگ میں معاونت کرنے والے افراد اور ملک چھوڑنے کے خواہش مند افغان شہریوں کا افغانستان سے انخلا کا عمل شروع ہو گیا تھا۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ پُرامید ہیں کہ کابل سے انخلا کا یہ عمل 31 اگست تک مکمل کر لیا جائے گا اور وہ امید کرتے ہیں کہ اس تاریخ میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔

جب صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ اگر عالمی رہنما انخلا کے آپریشن کے لیے مزید وقت کا مطالبہ کریں گے تو وہ کیا کریں گے؟ اس پر صدر بائیڈن نے کہا کہ “ہم دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔”

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ دہشت گرد کابل ایئرپورٹ پر کشیدہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس صورتِ حال میں وہاں جاری انخلا کا آپریشن بدستور خطرناک ہے۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق انخلا کے عمل کو مزید تیز کرنے کے لیے امریکہ کی حکومت نے چھ فضائی کمپنیوں کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔

امریکن ایئرلائن، اٹلاس، ڈیلٹا، اومنی، ہوائی اور یونائیٹڈ ایئر لائن کے 18 طیارے انخلا کے عمل میں حصہ لیں گی تاہم سویلین ایئرلائن کابل نہیں جائیں گی۔

واضح رہے کہ امریکہ کے فوجی طیاروں کے ذریعے کابل سے نکالے جانے والے افراد کو پہلے قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات میں موجود امریکہ کے ہوائی اڈوں پر اتارا جا رہا ہے۔

امریکہ کے ہزاروں فوجی کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی پر مامور ہیں جب کہ ہزاروں افراد جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں وہ ایئرپورٹ کے اندر اور باہر موجود ہیں۔

صدر بائیڈن کو افغانستان سے انخلا کے عمل پر شدید تنقید کا بھی سامنا ہے۔ تنقید کرنے والوں میں نہ صرف ری پبلکن ارکان شامل ہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کے بعض ارکان بھی اس تنقید میں پیش پیش ہیں۔

البتہ بائیڈن نے ایک مرتبہ پھر انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ایک نہ ایک دن ہمیں افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔ اگر ہم آج افغانستان سے نہیں نکلیں گے تو کب نکلیں گے۔؟”

امریکی نشریاتی ادارے ‘سی بی ایس’ کے اتوار ایک سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اکثر امریکی سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے فوجی انخلا انتہائی برے طریقے سے کیا جا رہا ہے۔

سروے کے مطابق 63 فی صد امریکی کہتے ہیں کہ وہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے حق میں ہیں جب کہ 47 فی صد کا کہنا ہے کہ جس انداز میں صدر بائیڈن فوجیوں کی واپسی کر رہے ہیں وہ اس سے متفق ہیں۔

صدر بائیڈن سے جب مذکورہ سروے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے انخلا ایک تکلیف دہ عمل ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کب شروع ہوا۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments