سیاست، صاحب اور سانپ


صاحب کا بڑے عرصے بعد فون آیا کہ پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ بلکہ دو ہفتے سے یہاں پر ہیں۔ میرے لیے یہ بڑے تعجب کی بات تھی کیونکہ وہ پاکستان دو تین دن سے زیادہ رکتے نہیں تھے۔

حد درجہ امیر آدمیوں میں سے اکثریت، پاکستان میں آنا اور قیام کرنا بہت مختصر سا رکھتی ہے۔ بہرحال صاحب نے کہا کہ دو تین دن کے لیے لاہور آؤں گا۔ ملاقات ضرور ہو گی۔ ٹھیک چار دن پہلے ان کے فارم ہاؤس میں طے شدہ وقت پر پہنچا۔ تو باہر کسی بھی ملاقاتی کی گاڑی موجود نہیں تھی۔ خاموشی ہی خاموشی تھی۔ صاحب کے تمام ملازم غیر ملکی ہیں۔

اور بڑی تیزی سے بدلتے بھی رہتے ہیں۔ منیجر مجھے سوئمنگ پول کی جانب لے گیا۔ وہاں صاحب، بڑے آرام سے ایک طویل سی کرسی پر بیٹھے سگار پی رہے تھے۔ میں ساتھ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ تو پوچھا کہ آپ اتنے طویل عرصے سے پاکستان کیونکر آئے ہوئے ہیں۔

بتائیے تو اصل معاملہ کیا ہے۔ کہیں کوئی اہم تبدیلی تو نہیں آ رہی؟ صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ گاؤن کی دائیں جیب میں ہاتھ ڈال کر پیلے رنگ کی دھاریوں والا چھوٹا سا سانپ نکالا جو حددرجہ خوبصورت تھا۔ زمین پر چھوڑ کر کہنے لگے آج کل میں پاکستان کے اہم ترین لوگوں کا ناجائز پیسہ باہر منتقل کر رہا ہوں۔ اس فہرست میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو نظام میں نئے نئے امیر ہوئے ہیں۔

صاحب نے اشارے اور مبہم طریقے سے دو تین نام بتائے تو دماغ گھومنے لگا۔ یہ تو بہت ایماندار لوگ ہیں۔ بھلا ان کے پاس دولت کہاں ہو گی۔ صاحب نے قہقہہ لگایا۔ نام تو نہیں بتا سکتا کیونکہ یہ کام ہی راز داروں کا ہے۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت ہمارے ملک سے محفوظ مقامات پر پیسہ بھجوانے کا رجحان حد درجہ زیادہ ہے۔

امیر اور طاقتور لوگ اپنا سرمایہ، پبلک کی نظر میں لانا نہیں چاہتے۔ اور ہاں، عوام کی آنکھوں میں دیانت دار بھی نظر آنا چاہتے ہیں۔ میرے لیے حد درجہ فائدے کا کاروبار ہے۔ انتہائی حفاظت اور راز داری سے میں یہ تمام پیسہ ان کے پسندیدہ ملک بھجوا دیتا ہوں۔ پوری دنیا میں میری کمپنیاں ہیں۔ بینکوں سے تعلقات ہیں۔

لہٰذا آرام سے ناجائز دولت پارک ہو جاتی ہے۔ ہنستے ہوئے کہا کہ کئی اہم لوگ تو آج کل اتنا ڈرے ہوئے ہیں، کہ اس کام میں دولت کا دس فیصد تک دینے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ میں نے نام نہیں پوچھے اور صاحب نے کچھ زیادہ بات بھی نہیں بتائی۔ پیلا سانپ رینگتا رینگتا، صاحب کی گود میں واپس آ گیا۔ غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اردگرد بڑے غور سے ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ شاید مجھے بھی!

آج کوئی ملاقاتی یا مہمان نظر نہیں آ رہا۔ کیا وجہ ہے۔ جواب بالکل عجیب سا تھا۔ اب رات گیارہ بجے سے ملنا شروع ہوتا ہوں اور صبح چھ سات بجے تک مصروف رہتا ہوں۔ کیونکہ دنیا کے تمام اہم دفاتر ہمارے ملک سے متضاد ٹائم زون میں کام کرتے ہیں۔ ہماری رات ہوتی ہے اور ان کا دن۔ میں یورپ اور امریکا کے حساب سے کام کرتا ہوں۔ لہٰذا پوری رات مصروف ہوتا ہوں۔ پھر دن میں کسی سے نہیں ملتا۔ ہاں ایک اور بات۔ میرے اکثر مہمان دن کی روشنی میں آتے ہوئے گھبراتے ہیں۔

یہ بڑی خاموشی سے آتے ہیں اور پیسے جمع کروا کر اسی خاموشی سے واپس چلے جاتے ہیں۔ یہاں تمام دھندا، اندھیرے میں ہوتا ہے۔ دن کی روشنی میں تو تمام لوگ حد درجہ ایماندار ہیں۔ یہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں تو اب طالبان کی حکومت آ گئی ہے۔ با کردار اور با عمل لوگوں کی۔ صاحب نے میرے اس سوال پر کہا کہ چلو اب اسٹڈی میں بیٹھتے ہیں۔ ہم دونوں ان کی انتہائی شاندار اسٹڈی میں آ گئے۔ شیر کی کھال کے چمڑے سے بنے ہوئے حد درجہ قیمتی صوفے پڑے ہوئے تھے۔ صاحب کہنے لگے کہ آپ کو کس نے کہا کہ امریکا، افغانستان سے چلا گیا ہے۔

میرے خیال میں تو امریکا کی فوج گئی ہے۔ سپر پاور سے منسلک طاقتور لوگ تو تمام وہیں کے وہیں ہیں۔ پھر افغانستان کو تو امریکا نے ایک غیر لفظی معاہدے کی بدولت طالبان کے حوالے کیا ہے۔ کسی ایک امریکی کو طالبان نے کانٹا تک نہیں چبھنے دیا۔ دراصل پاکستان میں آپ لوگ حد درجہ جذباتی ہو۔ آج کے طالبان اور ان کے لیڈر ڈالر کی اہمیت کو پہچانتے ہیں۔ اب ان کے لیڈر میٹنگز میں بوتل والا منرل واٹر پیتے ہیں۔ انھیں پنج ستارہ ہوٹلوں کا بھی چسکا لگ چکا ہے۔ اب یہ دوہا، لندن، واشنگٹن، بیجنگ اور ماسکو جیسے خوبصورت شہر بھی گھوم چکے ہیں۔

اب کون سی لڑائی اور کون سی اخلاقیات۔ ان کے سرکردہ لوگوں کو بھی اب پیسہ چاہیے۔ اور وہ انھیں ملنا شروع ہو چکا ہے۔ پھر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کیا واقعی بے وقوف ہیں کہ بڑے مزے سے کابل میں بیٹھے ہیں۔ صرف ایک نیا سیاسی دربار سامنے لایا گیا ہے۔ اور وہ بھی مغربی طاقتوں کی مرضی سے۔ میرے لیے یہ باتیں کافی تلخ تھیں۔ کیونکہ ہمیں تو بتایا جا رہا ہے کہ طالبان جیسے مومن لوگ پورے کرہ ارض پر نہیں ہیں۔ شاید صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ لیکن میرا افغانستان سے کیا لینا دینا۔

صاحب سے سوال کیا کہ پاکستان میں سیاسی معاملات آگے کیسے چلیں گے۔ صاحب نے حیرانی سے پوچھا کہ کون سے سیاسی معاملات۔ آپ کے ملک میں تو کوئی سیاست نہیں ہے۔ یہاں تو معاملہ بہت سیدھا سا ہے۔ ایک گروہ کو ہٹا کر دوسرا گروہ طاقت میں لایا جاتا ہے۔ یہ تو بالکل عام ذہن کا آدمی بھی سمجھتا ہے کہ الیکشن کیا ہے اور کیسے ہوتا ہے۔ مجھے، صاحب کی بات سے بالکل اتفاق نہیں تھا۔ اس وقت تو تحریک انصاف، نون لیگ اور پیپلز پارٹی بھرپور سیاست کر رہے ہیں۔ صاحب کا جواب حد درجہ ٹھنڈا تھا۔ برخوردار، جو میں دیکھ رہا ہوں، وہ تمہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ بلکہ جو کچھ نظر آتا ہے، وہ حقیقت میں صرف اور صرف سراب ہوتا ہے۔ سیاست میں سب کچھ نظر کا فریب ہے۔ ہمارے ملک میں بین الاقوامی طاقتیں فیصلہ کرتی ہیں۔ اور کٹھ پتلیاں صرف ناچتی ہیں۔

ہاں۔ انھیں سیاسی رقص کرنے کا معقول معاوضہ ملتا ہے۔ اور پھر تحفظ بھی۔ اب سیاست کے پیچھے بین الاقوامی کاروباری ادارے بھی ہوتے ہیں۔ یہ اب بہت سادہ سا کام ہے۔ مگر عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے اسے حد درجہ پیچیدہ دکھایا جاتا ہے۔ تاکہ لوگ جعلی نعروں کو اپنا مقدر سمجھ کر خوش ہوتے رہیں۔

میں نے سیاست پر دوبارہ سوال کر دیا کہ اب تو تحریک انصاف حد درجہ طاقتور ہے۔ سوائے سندھ کے۔ نظر تو یہی آ رہا ہے کہ آنے والی حکومت بھی انھی کی ہوگی۔ صاحب نے اپنے ساتھ لیٹے ہوئے ایک بڑے سانپ کو گود میں بٹھایا۔ سگار کا بھرپور کش لگا کر کہا۔ سیاست صرف اور صرف زرداری کو آتی ہے۔ بلاول بار بار امریکا کیوں جا رہا ہے۔ وہاں کن سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ کسی بھی دورہ کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آ رہی۔ آخر ان دوروں کا کوئی نا کوئی مقصد تو ہو گا۔

میرے پاس صاحب کی ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ پہلا ملاقاتی آ چکا تھا۔ اس نے بذات خود دو بیگ اٹھائے ہوئے تھے۔ صاحب کے کاروبار کا وقت ہو چکا تھا۔ اور ہاں، وہ ملاقاتی حد درجہ ایماندار اور دیانت دار مشہور ہے!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments