جیم عباسی کاناول ”رقص نامہ“


ناول نگار جیم عباسی
پبلشر۔ ”آج“ خصوصی شمارہ نمبر 114
تبصرہ۔ محمد وسیم شاہد
۔ ۔

جیم عباسی کا ناول ”رقص نامہ“ پڑھا جس میں سندھ کی رومانوی دھرتی سے کشید کی کہانی خوبصورت اسلوب میں بیان کی گئی ہے۔ ملک میں مذہبی شدت پسندی کے ہوتے ہوئے ناول نگار نے دلیری سے ان طاقتوں کے منفی رویوں کو بیان کیا ہے۔

یہ ایک ایسے گاؤں کہ کتھا ہے جہاں کا پیر گاؤں کے لوگوں کو اپنی رعایا سمجھ کر کھانے پینے سے لے کر شادی بیاہ اور تعلیم تک کے سب فیصلے خود ساختہ نظام کے تحت کرتا ہے۔ ایسے تمام فیصلوں میں پاکی اور ناپاکی کی اہمیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

سندھی زبان کی چاشنی، دیہاتی لب و لہجے اور لوگوں کی سادگی قاری کا دل لبھانے کا سامان ہے۔ پہلے باب میں کہانی سادہ اور دلچسپ ہے۔ وہی روایتی پیر، سید اور جاگیردار کا بیانیہ، گاؤں دیہات کی منظر کشی، کثرت ازواج کے مسائل، قوم قبیلوں پر فخر، پیروں کے چمچوں کی من مانیاں اور تعویز گنڈوں کے بیچ کہانی دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہے۔

ناول نگار چونکہ کہانی کے سحر میں گرفتار ہوتا ہے۔ ہر نکتہ ہر موڑ اسے معلوم ہوتا ہے۔ منظر نگاری میں بھی وہ گمان کر لیتا ہے کہ قاری اس کی کہانی یا جزئیات نگاری کو پا لے گا مگر ایسا ہوتا بہت کم ہے۔

ناول نگار بچے کی مور پر کے لیے طلب کو ابتدا میں ہی قاری کے دل و دماغ پر طاری کرنے میں کامیاب رہا۔ خوبصورتی سے اپنے سحر میں لینے کے بعد اچانک یہ بتایا جاتا ہے کہ مور پر تو بچے کو کئی روز قبل مل چکے۔ قاری جو ان جملوں سے جڑے کسی اہم واقعہ کے رونما ہونے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اسے مایوسی ہوتی ہے کیونکہ جس بچے کو کسی چیز کی اتنی للک ہو وہ اسے مل چکے مگر اس کی خوشی یا اتنی بڑی خواہش کے پورے ہونے پر ایک جملہ تک نہیں لکھا گیا۔

اس کے علاوہ قاری کو اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب ناول نگار نے کمر تک بلند دیواروں والی مسجد میں بنا تاریکی کے اسباب بنائے اشراق کی نماز کے بعد بچوں کا سبق سننے کو لالٹین استاد کے قریب رکھوائی۔ پھر آگے چل کر عصر کی نماز کے بعد بھی لالٹین اور چراغ جلوا دیے گو کہ سردیوں کا موسم دکھایا گیا ہے مگر ان اوقات یا اس موسم میں اتنی دھند نہیں ہوتی کہ لالٹین کی ضرورت پیش آئے۔ ہاں اگر ناول نگار مسجد کی منظر کشی میں اس کے درو دیوار میں کسی کھڑکی اور روشن دان کے نہ ہونے کا لکھتا تو لالٹین جلانا قاری باآسانی ہضم کر جاتا۔

گو کہ گرم علاقے کی تعمیرات میں ایسی مسجد کا ہونا بھی نا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ بیانیہ بھی سندھی انداز اور الفاظ لیے ہے جو مجھ کم فہم کو عجیب لگا کیونکہ اساتذہ سے یہی سنا ہے کہ مکالمہ ہر کردار اپنے انداز میں بول سکتا ہے مگر بیانیہ ہمیشہ ادبی پیرائے اور شد زبان میں ہی ہوگا۔ مکمن ہے میں غلطی پر ہوں دوست اس بارے میں مزید رہنمائی فرما سکتے ہیں۔

ناول کا آغاز ایک خواب سے ہوتا ہے۔ جس کا انداز بیاں قاری کو اپنے سحر میں جکڑنے اور ناول پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ ناول نگار نے کمال خوبصورتی سے اس خواب کو ناول کے اختتام کے ساتھ نتھی کیا ہے۔ جو اس تحریر کو چار چاند لگاتا ہے۔

پیر عبد الرحمن شاہ اس ناول کا مرکزی اور اہم ترین کردار ہے۔ جس کے بنائے نظام پر ایک گاؤں کئی برسوں تک اپنے شب و روز گزارتا رہا۔ جو تین بیویوں کے ہوتے ہوئے رات کے آخری پہر اپنے لنگری کی بیوی کو اپنے کمرے میں بلواتا ہے۔ نہایت خاموشی سے چند دن گردے کے مرض میں بیمار رہ کر مر جاتا ہے جس سے قاری کے اندر کا غصہ نہیں نکلتا۔

ناول میں مزید ایک تجربہ کیا گیا کہ پہلے باب کی کہانی دوسرے باب میں یکسر بھلا دی گئی ہے۔ مجھے شدت سے انتظار رہا کہ اس کے ظالم بھائی، مغرور سوتیلی ماں اور ظلم و جبر کے پسے دیہاتوں کا کیا بنا۔

ہیرو کب ظلم و ستم میں زندگی بسر کرنے والی اپنی ماں سے ملتا ہے؟ اس مسکیں کی زندگی کا کیا بنا؟ ہر صفحہ پلٹتے ہوئے امید ہوتی کہ اب ان کا ذکر ہوگا اب قاری کی تشفی ہوگی مگر ایسا ممکن نہ ہو پایا۔ بلکہ وہ سب یکسر بھلا دیے گئے جیسے وہ کردار کبھی موجود ہی نہ تھے۔

دوسرا باب مجھ جیسے کم فہم اور کند ذہین انسان کے لیے ذرا مشکل ثابت ہوا۔ ہمارے ہاں لکھے گئے اردو ناولوں کا انداز یہ ہے کہ ہم ہر کردار کو کہانی کے آخر تک ساتھ چلاتے ہیں یا کسی نہ کسی طرح اس سے پیچھا چھڑایا جاتا ہے۔ کسی کا پر اثر یا مضبوط کردار تخلیق دینے کے بعد اسے ویسے ہی نہیں چھوڑا جاتا۔ قاری اس کردار کا انجام دیکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ ہم تو کسی درخت، عمارت یا کچرا کنڈی تک کا ناول نگار کی جانب سے تعارف یا بار بار ہوا ذکر پڑھتے ہیں تو امید لگ جاتی ہے کہ آگے چل کر اس کا ناول کی کہانی سے کوئی نہ کوئی اہم تعلق بیان ہوگا۔

دوسرے باب میں کہانی سادہ بیانیے سے نکل کر مذہب، شاعری، فلسفہ اور دیگر دنیاوی مسائل پر مکالمے کی صورت میں بیان ہونے لگتی ہے۔ یہ انداز خوب رہا۔ مجھے اس لیے زیادہ اچھا لگا کیونکہ اس ناول کے ساتھ ”اور ڈان بہتا رہا“ بھی پڑھ رہا ہوں تو اس میں بھی ناول نگار کا زیادہ انحصار مکالمے پر رہا۔

اس باب میں ناول نگار اپنے کرداروں کی زبان سے کئی مسائل پر اپنا نظریہ یا سوچ بیان کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ یہاں شاہ لطیف سے لے کر مولانا رومی تک تمام صوفی شعراء کے کلام پر بات ہوتی ہے۔ ان کے اشعار کی تشریح بیان کی جاتی ہے۔ کلہوڑوں اور عباسی کا شجرہ کھنگالا جاتا ہے۔ ان کی جانب سے ہندوؤں پر لگائی پابندیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ بنو امیہ سے ہمایوں تک کے دور میں سندھ پر بیتے مظالم کا ذکر ہوتا ہے۔ سر ساز اور موسیقی کا گیان دیا جاتا ہے۔ راگ پاٹ، ان کی اقسام اور ماحول پران کے اثرات بیان کیے جاتے ہیں۔

انداز گفتگو انتہائی عمدہ اور دل موہ لینے والی ہے شاید اس کی وجہ سندھی انداز بیان ہے۔ جیسے یہ چند جملے دیکھیے۔

”اڑے ملا مرے تیرا ملا“

”ہلاتھی رام داس! آج تیری چونچ مڑی ہوئی ہے۔ ویسے تو آکڑ کرتا ہے۔“ یہ بے ساختہ کہے جملے قاری کو پیار و امن کی دھرتی سندھ کی جانب بہائے لے جاتے ہیں۔

سلمان شاہ، کہانی کا پیرو، پیر عبد الرحمن شاہ کا چھوٹا بیٹا، جو بڑے بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے کا خوف لیے گھر سے بھاگ کر یہاں پہنچا ہے، ان لوگوں کی صحبت میں سر سنگت اور ناچ کے شوق میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ پھر ناول نگار کے اندر کا سیاح عود کر آتا ہے وہ اپنے کرداروں کے ساتھ قاری کو سندھ کی سیر پر لے کر نکلتا ہے۔ جو خوب ہے۔

اختتام سے قبل ناول نگار نے کہانی کو بڑی خوبصورتی سے ہیرو سید سلمان شاہ کے بچپن میں دیکھے خواب سے لا جوڑا۔

”اس نے دیکھا اس کے بازو سانپ کی طرح لہرا رہے تھے۔ وہ اتنے لمبے ہو گئے تھے کہ اسے اپنے ہاتھ تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کہیں سے بین کی آواز آ رہی تھی جس پر شیدا ہو کر دونوں بازو سمندری موج کی مانند ہلکورے لیے جا رہے تھے۔ اس نے اپنے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ سانپ کی کینچلی میں ہونے کے باوجود اسے وہ اجنبی نہ لے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ہر طرف ایک ہی رنگ تھا، بین کی آواز تھی اور کچھ نہ تھا۔“

میری دعا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں اچھا اردو ادب پڑھنے والے بستے ہیں وہاں وہاں تک اس ناول کو رسائی ملے۔

جناب اجمل کمال صاحب نے اپنے مشہور زمانہ رسالے ”آج“ سے اسے شائع کر کے اس کے بہترین ہونے پر مہر ثبت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ناول نئے لکھے ناولوں میں بہت جلد اپنا مقام بنا لے گا۔ شاید سادہ اسلوب میں لکھی کہانیاں پڑھنے والے قاری اس ناول سے حظ نہ اٹھا پائیں مگر یہ ناول صوفی ازم، سچل سرمست، بابا مرید، شاہ لطیف سے رومی تک کی شاعری پڑھنے، تاریخ اور سندھی لوگ کہانیوں کے شیدا اور سندھ دھرتی کی محبت میں گرفتار لوگ ضرور پڑھیں۔ بس کوشش کی جائے کہ یہ ناول جھنگ باسیوں کی پہنچ سے دور رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments