کشمیر میں حریت پسند قیادت پر انڈین پابندی کے اشارے: یہ انڈیا کا پاکستان کے لیے سخت پیغام ہے یا کوئی سیاسی حربہ

شکیل اختر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، دلی


کشمیری رہنما
حریت کے اعلی رہنما سید علی شاہ گیلانی علیل ہیں جبکہ میر واعظ سخت پابندیوں میں رہ رہے ہیں
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) نے خبر دی ہے کہ انڈیا کی حکومت کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک کی قیادت کرنے والی تنظیم حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی عائد کرنے والی ہے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک باضابطہ طور پر کوئی اعلان نہیں ہوا ہے لیکن سرینگر میں حریت کے اعلی رہنما سید علی شاہ گیلانی کی رہائش گاہ پر واقع پرانے دفتر سے حریت کا بورڈ ہٹا دیا گیا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ حریت پر ممکنہ پابندی جیسے اقدامات سے مودی حکومت پاکستان کو سخت پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس سے ریاست میں سےسیاسی عمل کے راستے اور بھی محدود ہو جائیں گے۔

میڈیا میں شا‏ئع ہونے ونے والی خبروں کے مطابق حکومت سید علی شاہ گیلانی کی زیر قیادت سخت گیر دھڑے اور میر وا‏عظ عمر فاروق کے نرم گروپ پر انسداد دہشت گردی یا غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون کے تحت پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔

خبروں کے مطابق تفتیشی اداروں نے پاکستان کے میڈیکل اداروں میں کشمیری طلبا کے لیے سیٹیں مختص کیے جانے کے معاملے کی تفتیش کی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے حریت کی بعض جماعتیں طلبہ سے جو پیسے جمع کرتی تھیں اسے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گرد تنظیموں کی مالی اعانت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

خبروں کے مطابق حریت کے بعض رہنماؤں پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی اعانت کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ حریت کے رہنما میر واعظ نے سر ینگر میں ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ وہ حکام کے ذریعے میڈیا میں پھیلائے جا رہے اس پراپیگنڈے کو پورے طرح مسترد کرتے ہیں کہ حریت کی قیادت پاکستان کے اداروں میں کشمیری طلبہ کے لیے مختص میڈیکل اور انجینیئرنگ کی سیٹوں کو پیسے لے کر امیدواروں کو فروخت کر رہی تھی۔

انھوں نے کہا ’جبر، قانونی ہتھکنڈوں اور پراپیگنڈے سے جموں و کشمیر کے تناز‏عے کے پر امن حل کی کشمیری عوام کی تمناؤں کو بدلا نہیں جا سکتا۔‘

میر واعظ

حریت کے دونوں دھڑوں کے سینکڑوں رہنما اور ارکان 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو ہٹائے جانے کے بعد گرفتار کر لیے گئے تھے۔ ان میں سے بیشتر اب بھی جیل میں ہیں۔ حریت کی تمام سرگرمیاں عملی طور پر بند ہیں۔

حریت کے ایک رہنما نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’5 اگست 2019 کے بعد سے یہاں غیر سرکاری طور پر پابندی ہی لگی ہوئی ہے۔ حکومت یہاں کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہونے دے رہی۔ حریت کو چھوڑیے وہ ہند نواز سیاسی جماعتوں کو بھی کوئی سیاسی سرگرمی کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ حریت پر پابندی لگانے کا ارادہ اترپردیش کے انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے ہو سکتا ہے۔ وہ اس سے آنے والے دنوں کا ماحول بنا رہے ہیں۔ لیکن یہ ماحول کو اور بھی پیچیدہ کر دے گا۔ اس سے مزید گرفتاریاں ہوں گی اور عسکریت کے لیے ماحول بنے گا۔‘

یہ بھی پڑھیئے

کورونا سے وفات پانے والے کشمیر کی جیل میں قید رہنما اشرف صحرائی کون تھے

’اس دیار فانی سے رحلت تک بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہوں گا‘

کشمیر:حکومت علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرے گی؟

معروف تجزیہ کار پیرزادہ عاشق کا خیال ہے کہ اگر حکوت حریت پر پابندي عائد کرتی ہے ’تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جو بیک چینل مذاکرات ہو رہے تھے جس کے نتیجے میں موجودہ فائر بندی عمل میں آئی ، وہ اب ٹوٹ رہے ہیں۔

حریت کانفرنس عسکریت کے ابتدائی برسوں میں تحریک کی ایک سیاسی تنظیم کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ اس میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ ابتدا میں کشمیر کے بزنس مین اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔ پیرزادہ کہتے ہیں کہ حکوت اگر تحریک کے سیاسی چہرے کو منظر سے ہٹا دیتی ہے تو اسے کسی نہ کسی مرحلے پر عسکریت پسندوں سے براہ راست بات چیت کرنی پڑے گی۔ ’ملیٹینسی میں 2019 سے کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ گذشتہ دو برس میں پچھلے دس برس کے مقابلے میں مقامی عسکریت پسندوں کی بھرتی کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اگر حکومت تحریک کی سیاسی تنظیم کو ہٹا دیتی ہے تو آنے والے دنوں میں اسے عسکریت پسندوں سے ہی بات چیت کرنی پڑے گی۔‘

حریت کے رہنما کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’حریت پر پابندی سے کشمیر کے تنازعے کا سیاسی راستہ پوری طرح بند ہو جائے گا۔ اس کے اثرات پہلے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نو عمر لڑکے جن کے پاس صرف ایک پستول یا دستی بم ہوتا ہے وہ بھی عسکریت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی سیاسی راستہ نہیں ہے۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جو مقامی آوازیں تھیں وہ رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہیں۔ حریت ایک درجن سے زیا دہ جماعتوں کی تنظیم ہے۔ وہ وادی میں مختلف سوالوں پر ہڑتال کی کال دیتی تھی، احتجاج اور مظاہروں کا انعقاد کرتی تھی۔ اس طرح وہ لوگوں کے غم و غصے کو کم کرنے کا بھی ایک ذریعہ رہی ہے۔ اس پر پابندی عائد ہونے سے اظہار کے ایک اہم ذریعے پر پابندی لگ جائے گی۔

عملی طور پر حریت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ اس کے سربراہ اشرف صحرائی کچھ عرصہ قبل قید کے دوران وفات پا گئے تھے۔ تنظیم کے سب سے بڑے رہنما سید علی شاہ گیلانی علیل ہیں اور ان کی یاداشت بھی تقر یباً جا چکی ہے۔ میر واعظ سخت پابندیوں میں ہیں۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ حریت پر پابندی لگانے کی اہمیت شہ سرخیوں میں آنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اتر پردیش کے انتخاب میں انتخابی فائدہ اٹھانا ہے۔ مودی حکومت حریت پر پابندی لگا کر اور تنظیم کے مزید رہنماؤں کو منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی اعانت جیسے الزامات میں گرفتار کر کے ہندو رائےدہندگان کو یہ پیغام دے سکتی ہے کہ وہ بدستور ایک سخت حکومت ہے اور کشمیر میں علیحدگی پسندوں کے خلاف اس کی سخت پالیساں بدستور جاری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp