افغانستان میں طالبان: روس طالبان کے لیے اتنا نرم گوشہ کیوں رکھتا ہے؟

پیتر کوزلو اور اننا رنڈا - بی بی سی ماسکو


روسی فوجی
گذشتہ ہفتے جب امریکہ اور یورپی ممالک اپنے شہریوں اور افغان اتحادیوں کو کابل سے نکالنے کی کوشش میں مصروف تھے تو اُس وقت روس اُن چند ممالک میں سے ایک تھا جو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے حوالے سے بالکل بھی فکر مند نہیں تھا۔

روسی سفارت کاروں نے کابل میں طالبان کو ’عام لوگ‘ قرار دیا اور کہا کہ افغان دارالحکومت اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہو گیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جمعہ کو کہا کہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ ایک حقیقت ہے اور روس کو اس کے ساتھ ہی چلنا ہے۔

یہ صورتحال سنہ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں تباہ کن نو سالہ جنگ سے بہت مختلف ہے، جب روس کابل کی کمیونسٹ حکومت کو قائم رکھنے اور سہارا دینے کی کوششوں میں مصروف تھا۔

طالبان کے لیے روس کی گرمجوشی!

روس نے بتایا ہے کہ کابل میں اُن کا سفارت خانہ کھلا ہے۔ یہ صورتحال بہت سے دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔ طالبان کے بارے میں روس کی سوچ بھی مختلف معلوم ہوتی ہے۔ روس نے اپنے بیانات کے ذریعے طالبان کے لیے گرمجوشی دکھائی ہے۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے 48 گھنٹوں کے اندر ہی روسی سفیر دمتری زیرنوف نے طالبان کے ایک نمائندے سے ملاقات کی جس کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں جوابی کارروائی یا تشدد کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ وہ افغانستان میں مفاہمت کی ’نئی امید‘ دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی واپس آ رہی ہے اور یہ کہ ’برسوں کی خونریزی کا خاتمہ‘ ہو گیا ہے۔

افغانستان کے لیے صدر پوتن کے خصوصی ایلچی ضمیر قابلوف نے یہاں تک کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا خود ساختہ جلاوطن صدر اشرف غنی کی ’کٹھ پتلی حکومت‘ کے مقابلے میں آسان ہے۔

اس سے قبل روسی سفارت کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ اشرف غنی نے طالبان کے کابل پر قبضے سے کچھ دیر قبل قبل چار گاڑیوں اور ایک ہیلی کاپٹر میں نقدی لے کر ملک چھوڑ دیا ہے۔ تاہم اشرف غنی نے ان الزامات کو ’جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔

طالبان اور روس

گذشتہ تین برسوں سے روس اور طالبان میں مذاکرات ہو رہے ہیں

بہتر ہوتے تعلقات

ان سب کے باوجود روس طالبان کو افغانستان کا نیا حکمران تسلیم کرنے کے لیے بے قرار نظر نہیں آتا۔ لیکن روس کے رہنماؤں کے بیانات میں طالبان کے لیے ایک نرمی کا پہلو ضرور نظر آ رہا ہے۔ روسی نیوز ایجنسی ’تاس‘ نے رواں ہفتے اپنی رپورٹوں میں طالبان کے لیے ’دہشت گرد‘ کے بجائے ’بنیاد پرست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

روس کچھ عرصے سے طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ طالبان سنہ 2003 سے روس کی ’دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں‘ کی فہرست میں شامل ہے لیکن سنہ 2018 سے اس کے نمائندے مذاکرات کے لیے ماسکو پہنچے تھے۔

افغانستان کی سابق حکومت نے روسی صدارتی ایلچی پر طالبان کے حامی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ افغان حکومت کو روس اور طالبان کے درمیان تین سالہ طویل مذاکرات سے دور رکھا گیا۔

تاہم صدر پوتن کے خصوصی ایلچی ضمیر قابلوف نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ افغان حکومت ’احسان فراموش‘ ہے۔ سنہ 2015 تک وہ یہ کہہ رہے تھے کہ دولت اسلامیہ کے جہادیوں سے لڑنے میں روس کے مفادات طالبان کے مفادات سے مماثلت رکھتے ہیں۔

امریکہ نے بھی ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ اگست 2017 میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے روس پر الزام لگایا تھا کہ وہ طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے، تاہم روس نے ان کے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔

اس وقت روس کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ’ہم نے اپنے امریکی اتحادیوں سے اس کے شواہد فراہم کرنے کے لیے کہا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم طالبان کو کوئی مدد فراہم نہیں کرتے ہیں۔‘

ضمیر قابلوف نے رواں سال فروری میں طالبان کی تعریف کی تھی جس پر افغان حکومت ناراض ہو گئی تھی۔ روس کا موقف تھا کہ طالبان نے اپنی طرف سے دوحہ معاہدوں پر صحیح طریقے سے عمل کیا ہے جبکہ افغان حکومت نے اسے توڑنے کا کام کیا ہے۔

طالبان جنگجو

علاقائی سلامتی پر نظریں

طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود روس کسی بھی طرح کی جلدبازی نہیں دکھا رہا۔ وہ اب بھی رسمی طور پر پیش آ رہا ہے اور رونما ہونے والے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے ابھی تک طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکالا ہے۔ صدر پوتن نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ طالبان امن بحال کرنے کے اپنے وعدے پورے کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ دہشت گردوں کو پڑوسی ممالک میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔‘

یہ بھی پڑھیے

داڑھی سے ’استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ‘ اور طالبان کی کاسمیٹکس کی دکان سے بیویوں کے لیے خریداری

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ‘سلطنتوں کا قبرستان’ بناتا ہے

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اب افغان پناہ گزین کہاں جائیں گے؟

روس کی پالیسی کا جن باتوں سے بظاہر تعین ہوتا نظر آتا ہے وہ خطے میں استحکام قائم کرنا اور افغانستان میں اس کی دردناک تاریخ ہے۔ روس چاہتا ہے کہ وسط ایشیا میں اس کے اتحادی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں اور دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کو روکیں۔

جب امریکہ نے نائن الیون کے حملوں کے بعد طالبان کو نشانہ بنایا اور ان ممالک میں اڈے قائم کیے جو سوویت یونین کا حصہ تھے تو روس نے ابتدا میں اس کا خیر مقدم کیا۔ تاہم، جلد ہی تعلقات میں کشیدگی نظر آنے لگی۔

رواں ماہ کے آغاز میں روس نے ازبکستان اور تاجکستان میں فوجی مشقیں کیں۔ اس کا مقصد وسط ایشیا میں اتحادی ممالک کو بھروسہ دلانا تھا۔

طالبان نے گذشتہ ماہ یقین دلایا تھا کہ افغانستان میں اس کی مضبوطی روس کے علاقائی اتحادیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ دولت اسلامیہ سے لڑتے رہیں گے۔

مجاہدین

تلخ تجربہ

روس نے کہا ہے کہ افغانستان میں فوج بھیجنے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس بات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ روس نے سنہ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں جنگ لڑی۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک بیکار لڑائی تھی۔

درحقیقت روس سنہ 1979 میں افغانستان حکومت کی حمایت میں وہاں پہنچا۔ اس کی مہم نو سال تک جاری رہی اور اس میں 15 ہزار روسیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اس معاملے نے یو ایس ایس آر کو بین الاقوامی سطح پر اچھوت بنا دیا۔ اس کی وجہ سے کئی ممالک نے سنہ 1980 کے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ بھی کیا۔ یہ جنگ سوویت یونین کی معیشت پر ایک بڑا بوجھ بن گئی۔

سوویت یونین نے بابرک کارمل کی قیادت میں کابل میں ایک حکومت قائم کی تھی۔ امریکہ، پاکستان، چین، ایران اور سعودی عرب نے مجاہدین کو پیسے اور اسلحہ فراہم کیا۔ یہ لوگ سوویت فوجیوں اور ان کے افغان اتحادیوں کے ساتھ لڑے۔

ہلاک ہونے والوں میں سوویت فوج کے کئی نوجوان سپاہی بھی شامل تھے۔ اس جنگ نے روسی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ثبت کر دی کہ سوویت کے عہدیداروں نے اپنے لوگوں کی کم پرواہ کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنگ نے بھی سوویت یونین کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا۔ کم از کم وہاں کے لوگ اپنے حکمرانوں سے مایوس ہو چلے تھے۔

اور پھر فروری 1989 میں سوویت روس کے فوجی انخلا سے یہ جنگ ختم ہو گئی۔

روسی فوجی

مستقبل کے لیے خوف

روس شاید پہلے سے یہ اشارہ دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آ رہے ہیں۔ تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کی واپسی سے روس بھی اتنا ہی حیران ہے جتنا کوئی دوسرا ملک۔

روسی سینٹر برائے ہم عصر افغانستان سٹڈیز کے آندرے سیرینکو کہتے ہیں کہ ’ہم روس کی کسی بھی حکمت عملی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے۔ ماسکو خطے کو نئی شکل دینے میں تاخیر کے بارے میں فکر مند ہے۔‘

مزید پڑھیے

افغانستان کی بساط پر چین، ایران اور روس کہاں کھڑے ہیں؟

سات ملک جنھیں افغانستان میں طالبان کی ‘واپسی’ سے پریشانی لاحق ہے

امریکہ جانے کی امید میں کابل جانے والا پناہ گزین جس کا پشاور لوٹنا بھی مشکل ہو گیا

جبکہ روس میں بہت سے لوگوں کو اس بات پر خدشہ ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

رشین انٹرنیشنل افیئرز کونسل تھنک ٹینک کے سربراہ آندرے کورتونوف کا خیال ہے کہ وہ پورے ملک بالخصوص شمالی حصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی رائے میں یہ امر روس اور اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp