پیرس میں تین یادگار دن


دو ہزار چار کی بات ہے ہم چار بینکروں نے سپین کی سیر کا پروگرام بنایا۔ ان دنوں ویزہ میں ابھی اتنی سختی نہیں تھی پھر بھی ہمیں ویزہ کے لئے سپین کی ایمبیسی سے ایک ماہ بعد کی تاریخ ملی۔ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہم چاروں کنونشن سینٹر سے بس میں بیٹھ کر سپین کی ایمبیسی میں حاضر ہوئے۔ مختصر انٹرویو کے بعد انہوں نے ہمیں ایک ماہ کا ویزہ دے دیا۔ سپین کا ویزہ ملنے کے بعد میں نے انگلینڈ کے ویزہ کے لئے اپنا پاسپورٹ برٹش ایمبیسی میں جمع کروایا۔

انہوں نے پاسپورٹ واپس کرنے میں دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا دیا جس دوران میرے سپین کے ویزہ کی میعاد ختم ہو گئی۔ میں دوسرے دوستوں کے ساتھ سپین نہ جا سکا۔ چند سال بعد میرا انگلینڈ جانے کا پروگرام بنا تو میں نے سوچا کہ چلو اس دفعہ سپین کا بھی چکر لگا لیتے ہیں۔ سپین کی ایمبیسی سے پتہ کروایا تو پتہ چلا کہ وہ ویزہ لگانے میں تین سے چار ماہ کا عرصہ لگاتے ہیں۔ ایک ایجنٹ نے بتایا کہ فرانس والے تین ہفتہ کے اندر ویزہ لگا دیتے ہیں لیکن وہ ویزہ دینے میں بہت ہی سخت ہیں۔

میرا چونکہ برطانیہ کا دو سال کا ویزہ لگا ہوا تھا اس لئے میں نے یورپ کے ویزا کے لئے فرانس کی ایمبیسی کا ہی انتخاب کیا۔ انٹرنیٹ پر فرانس کی ایمبیسی سے ویزے کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ویزہ کے لئے درکار کاغذات کی فہرست مرتب کی۔ اپنے بینک سے این او سی اور چھٹی کا بندوبست کیا۔ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے ٹیکس سر ڈی فکیٹ حاصل کیا۔ ایئرلائن کی بکنگ کے لئے اپنے دوست عبدالرحیم جوشی سے رابط کیا، انہوں نے کمال مہربانی سے چوبیس اکتوبر کی بکنگ کروا کر کاغذات میرے حوالے کیے۔

دو اہم کاغذات پیرس میں رہائش کے لئے ہوٹل کی بکنگ اور تیس ہزار یورو کی ٹریول انشورنس تھے۔ ٹریول انشورنس اسلام آباد سے کروائی اور ہوٹل کی بکنگ کے لئے پھر گوگل کا سہارا لیا۔ پیرس کے وسط میں واقع آرمٹیج نامی ایک بجٹ ہوٹل کا انتخاب کیا جس کا روز کا کرایہ پچاس یورو تھا، اس کی دس دن کی بکنگ کروائی۔ یہ سارے کاغذات تیار کر کے فیڈیکس جیری اسلام آباد سے تین دن بعد کی اپوائنٹمنٹ کے لئے رابطہ کیا جو تیس اگست کو صبح دس بجے کی مل گئی۔

تیس اگست کو وقت مقررہ پر میں نے جیری کے دفتر واقع جناح سپر مارکیٹ ایف سیون مرکز میں حاضری دی۔ ویزہ کی درخواست بمعہ ضروری کاغذات کے انہوں نے جمع کر لی۔ ساٹھ یورو ویزہ فیس کے علاوہ انہوں نے اپنے چارجز بھی وصول کیے اور بتایا کہ اب آپ کو فرینچ ایمبیسی فون کر کے بائیو میٹرک اور انٹرویو کے لئے اپنی ایمبیسی بلوائے گی، جس کے بعد آپ کے ویزہ کیس کا فیصلہ ہو گا۔

تیسرے دن ہی فرانس کی ایمبیسی سے فون آیا کہ آپ تین ستمبر کو ایمبیسی حاضر ہوں اور اپنا پاسپورٹ بھی ساتھ لے کر آئیں۔ جیری فیڈیکس والوں نے درخواست کے ساتھ پاسپورٹ جمع نہیں کیا تھا۔ تین ستمبر کو میں تیار ہو کر اسلام آباد پہنچا۔ کنونشن سینٹر سے بس میں بیٹھ کر فرانس کی ایمبیسی میں پہنچ گیا۔ تین چار آدمی مجھ سے پہلے وہاں انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔ پندرہ منٹ بعد ایک گوری خاتون انتظار گاہ میں آئیں۔ چاروں کا باری باری نام پکارا پھر سب کو ساتھ لے کر ایمبیسی کے اندر چل دی۔

اندر پہنچ کر پہلے ہمیں ایک کمرے میں بٹھایا اور پھر باری باری لے جا کر امیگریشن کاؤنٹر پر بٹھانے لگی۔ میری باری سب سے آخر میں آئی۔ کاؤنٹر پر موٹی سی ایک انگریز خاتون بیٹھی تھی جس کے ساتھ ایک پاکستانی نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے پوچھا کو انگریزی میں انٹرویو دینا ہے یا اردو میں۔ میں نے اسے کہا کہ انگریزی مجھے آتی تو ہے لیکن میں اردو میں ہی جواب دوں گا۔ خاتون فرنچ زبان میں ا سے سوال بتاتیں اور وہ اردو میں مجھ سے سوال پوچھتا۔

مجھ سے پوچھا کہ فرانس کیوں جانا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ میں ٹورسٹ ہوں اور میں نے لوور میوزیم۔ نوترے ڈیم کا چرچ اور آئیفل ٹاور دیکھنا ہے۔ اس پر اس نے پوچھا کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات دیکھے ہیں۔ میں نے اپنی تین چار دفعہ کی ان علاقہ جات کی سیر کا پورا نقشہ بنا کر بتا دیا۔ پھر لوور میوزیم کے متعلق پوچھا تو میں نے کہا کہ وہاں مونا لیزا کی حقیقی تصویر دیکھنی ہے۔ میری بینک میں پوزیشن اور تنخواہ کا پوچھا۔ میں نے اپنی سیلری اور بینک سٹیٹمنٹ جمع کروائی ہوئی تھی۔

میرے کاغذات چیک کر کے اس نے مجھے اپنا پاسپورٹ جمع کروانے اور بائیو میٹرک کرانے کو کہا اور بتایا کہ دو ہفتوں تک آپ کو پاسپورٹ واپس مل جائے گا۔ جو خاتون ہمیں اندر لے کر آئی تھی وہ آئی اور مجھے دوسرے کمرے میں لے گئی جہاں میرا بائیو میٹرک کیا اور پاسپورٹ لے کر مجھے رخصت کر دیا۔

میں نے اپنے دفتر میں کسی کو نہیں بتایا تھا کہ میں نے فرانس کی ایمبیسی میں کیس جمع کرایا ہے۔ بینک میں اس سال میری کارکردگی بہت ہی اچھی تھی۔ میں نے ستمبر میں ہی سال کے سارے ٹارگٹ کر لئے ہوئے تھے بلکہ اس سال منگلا ڈیم کی اپریزنگ میں ملنے والے معاوضوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں میرے زون کی ڈیپازٹ گروتھ سب سے زیادہ تھی۔ اس لئے جب میں نے اپنے ریجنل چیف جناب مطیع الرحمن صاحب سے چھٹی کی بابت بات کی تو انہوں نے انکار نہیں کیا ورنہ اکتوبر، نومبر میں بینک میں اتنی اہم پوسٹ پرچھٹی کہاں ملتی ہے۔

رحیم صاحب نے پہلے ہی چوبیس اکتوبر کی لاہور سے پیرس اور واپسی کے لئے برمنگھم سے اسلام آباد کی پی آئی اے سے بکنگ کر وائی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاسپورٹ واپس ملنے پر وہ ٹکٹ بنا دیں گے۔ نو اکتوبر کو مجھے جیری والوں کا میسج ملا کہ آپ کا پاسپورٹ آ گیا ہے دو بجے کے بعد کسی دن بھی آ کر لے لیں۔ میں دوسرے ہی دن اسلام آباد چلا گیا۔ دفتر کے اندر ہی دھڑکتے دل کے ساتھ لفافہ کھولا تو ایک مہینے کا ویزہ لگا ہوا تھا چونکہ میں اپلائی ہی صرف ایک ماہ کے لئے تھا۔

میرے ساتھ ہی ایک اور لڑکے نے بھی اپنا لفافہ کھولا جس کا ویزہ نہیں لگا تھا۔ اس کا تعلق منڈی بہا الدین سے تھا۔ اس نے کسی ایجنٹ کے ذریعے سٹوڈنٹ ویزے کے لئے اپلائی کیا تھا اور ایجنٹ کو بھاری معاوضہ بھی دیا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کس ایجنٹ کے ذریعے ویزہ لگوایا ہے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نے تو اپنا کیس خود ہی تیار کیا تھا تو مجھ سے کہنے لگا کہ میرا کیس بھی تیار کردیں، میں آپ کو ایک لاکھ روپیہ دوں گا اور اپنے گاؤں کے دو تین کیس اور بھی دوں گا۔

میں نے اس سے معذرت کی اور اسے بتایا کہ میں ملازم ہوں، یہ کام نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہوں۔ لیکن تم کسی ایجنٹ کے چنگل میں نہ پھنسنا، وہ رقم بھی لے لیں گے اور ویزہ بھی نہیں ملے گا۔ اس نے میری معذرت کے باوجود پھر اصرار کیا۔ وہ فرانس جانے کے لئے بہت بیتاب نظر آتا تھا کیونکہ اس کے دو تین کزن وہاں گئے ہوئے تھے اور اچھا کما رہے تھے

میرا پروگرام یہ بنا کہ میں پاکستان سے پیرس جاؤں گا وہاں دو تین دن رک کر پھر وہاں سے بارسلونا سپین اپنے برادر نسبتی بھائی کے پاس جاؤں گا۔ بارسلونا میں دو ہفتے رہ کر وہاں سے بیٹے سے ملنے انگلینڈ جاؤں گا اور وہاں دو ہفتے رہ کر واپس پاکستان پہنچ جاؤں گا۔ چوبیس اکتوبر آ گیا۔ دن بارہ بجے دن کی فلائٹ تھی۔ اہل خانہ چچا ظفری کے ساتھ مجھے ائرپورٹ چھوڑ گئے۔ سامان میں بھائی کے بچوں کے لئے برفی اور مٹھائی تھی جو چیکنگ کے دوران کسٹم والوں نے نکالی۔ اسے اچھی طرح چیک کی پھر دوسرا سارا سامان چیک کیا۔ اور کچھ نہیں ملا تو پھر مٹھائی لے جانے کے لئے اپنے لئے مٹھائی مانگی جو میں نے نہیں دی تو ایک کسٹم والے نے کہا۔ یار باؤ جی کو لے جانے دو، شریف آدمی لگتے ہیں۔ سیکورٹی چیک سے فارغ ہو کر لاؤنج میں پہنچ گئے۔ فلائٹ میں ابھی کافی دیر تھی۔

مجھے ہر جگہ افراتفری سے ہمیشہ چڑ رہی ہے۔ اس لئے میں ہمیشہ ہر جگہ وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس میں کئی دفعہ کوفت بھی اٹھانی پڑتی ہے لیکن پھر بھی میں وقت سے پہلے پہنچنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ میں آرام سے لاؤنج میں بیٹھ گیا۔ رحیم صاحب نے کمال مہربانی سے مجھے سیٹ بزنس کلاس سے بالکل پیچھے لے کردی اور وہ بھی کھڑکی کے پاس۔ پی آئی اے کی یہ فلائٹ ان وقت لاہور سے میلان جاتی تھی اور پھر وہاں سے براستہ پیرس لاہور واپس آتی تھی۔

فلائٹ میں زیادہ تر مسافر ضلع گجرات اور منڈی بہا الدین سے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کی منزل اٹلی تھی۔ جہاز بروقت لاہور سے روانہ ہوا۔ میلان پہنچ کر آدھے سے زیادہ مسافر سے اتر گئے تو جہاز پر صفائی والا عملہ آ گیا اور جہاز کی صفائی کرنے لگا۔ اس پر جہاز میں رہ جانے والے ہم مسافروں نے احتجاج کیا کہ ہمیں بھی نیچے اتارو پھر جہاز کی صفائی کرو۔ اس پر ائرپورٹ کا عملہ جہاز کے اندر آ گیا اور ہمیں جہاز سے اتار کر ایک لاؤنج میں بٹھایا۔ ایک گھنٹہ بعد جب ہم جہاز پر واپس آئے تو میری سیٹ پرایک خاتون براجمان تھی۔ میں نے ان محترمہ سے کہا کہ یہ میری سیٹ ہے اور میں پیرس جا رہا ہوں۔ اس نے مجھے کہا بھائی آپ کہیں اور جا کر بیٹھو، میں تو لاہور جا رہی ہوں۔ میں نے ائر ہوسٹس کو بلایا جس نے ان محترمہ کو ان کی اپنی سیٹ پر بٹھایا۔ دو گھنٹے بعد جہاز پیرس کے چارلس ڈیگال ائرپورٹ پر اترا۔ جہاز ٹیکسی کرتے ہوئے ایک بڑے پل پر سے گزرا جس کے نیچے ٹریفک رواں دواں تھی میرے لئے یہ ایک نئی اور حیرت والی بات تھی۔ جہاز جیسے ہی ہینگر پر لگا تو سب نے روایتی پاکستانی طریقے سے ہڑبونگ مچا دی۔

میرے پاس کوئی ہینڈ بیگ نہیں تھا اور میں جہاز کے اگلے حصہ میں دروازے کے نزدیک تھا اس لئے جلدی باہر آ گیا۔ ایک لمبے کوریڈور سے گزر کر میں سائن بورڈ پڑھتا ہوا امیگریشن ہال میں پہنچ گیا۔ یہاں امیگریشن کے لئے قطاروں میں کھڑا کرانے والی پولیس کا رویہ مجھے کافی سخت محسوس ہوا۔ جس امیگریشن کاؤنٹر پر میں گیا وہاں ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی تھی۔ میں نے اپنا پاسپورٹ اور ہوٹل کی بکنگ اور ٹکٹ اسے دیا۔ اس نے سب چیزوں کو بڑے غور سے دیکھا اور مجھ سے کچھ کہا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔

میں نے اسے انگریزی میں بتایا کہ میں کیوں آیا ہوں اور کب واپس جاؤں گا، جو اس خاتون کے پلے نہیں پڑا۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے پوچھا کہ تم فرینچ جانتے ہو۔ میرے انکار پر اس نے میرے کاغذات مجھے واپس کیے اور کاؤنٹر سے تھوڑی دور پڑی ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا پھر میرے پیچھے آنے والے مسافر کو دیکھنے لگی۔ پندرہ بیس منٹ تک اس نے مجھے بٹھائے رکھا۔ میں اٹھ کر ایک پولیس والی کے پاس گیا۔ اس نے مجھے فرینچ میں کچھ کہا اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ساتھ ہی اشارہ کیا کہ صرف وہی خاتون میرا فیصلہ کرے گی۔

اس انتظار میں ہماری فلائٹ کے سب لوگ فارغ ہو گئے اس کے بعد چائنہ کی ایک فلائٹ آ گئی۔ میں نے دیکھا کہ امیگریشن افسر چینی مسافروں کا پاسپورٹ سکین کرتے اور اور تصویر دیکھ کر پاسپورٹ پر انٹری کی سٹیمپ لگا دیتے۔ تقریباً چالیس منٹ کے انتظار کے بعد میرے والی امیگریشن افسر میرے پاس آئی، مجھے ساتھ لے جاکر ایک کمرے میں مجھے بٹھایا۔ ایک انگریزی جاننے والا انٹرپریٹر بلایا۔ جس نے مجھے بتایا کہ خاتون کہتی ہے کہ تمہارا ٹکٹ اسلام آباد سے پیرس اور پھر برمنگھم سے اسلام آباد کا ہے۔

پیرس سے برمنگھم کا ٹکٹ تمہارے پاس نہیں ہے اس لئے تمہیں روکا گیا ہے۔ میں نے ووئلنگ ایرویز سے تین دن بعد کا ٹکٹ پیرس سے بارسلونا کا لیا ہوا تھا جبکہ جیٹ ایئرویز کا بارسلونا سے نوٹنگھم ویسٹ مڈلینڈ ائرپورٹ کا ٹکٹ بھی چار نومبر کا لیا ہوا تھا۔ یہ دونوں ٹکٹ میرے سامان میں بک ہونے والے بیگ میں تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک ٹورسٹ ہوں اور بینکر بھی ہوں۔ میرے پاس دس دن کی ہوٹل بکنگ ہے جس کے بعد میں یورو ٹرین سے برمنگھم جاؤں گا۔

اس کے لئے میرے پاس دو ہزار پاؤنڈ ہیں۔ میں نے رقم انہیں دکھائی اپنا کریڈٹ کارڈ اور بینک کا کارڈ دکھایا۔ اس پر خاتون نے میرا ہاتھا پکڑا اور اسی کاؤنٹر پر لے کر آئی۔ میرے پاسپورٹ پر اینٹری کی مہر لگائی اور میرے گال چومے اور مجھے باہر جانے والے گیٹ پر چھوڑ کر واپس گئی۔ میں امیگریشن ہال کے گیٹ سے باہر آیا تو سامنے ہی ہماری فلائٹ کا لگیج بیلٹ چل رہا تھا وہاں سے اپنا بیگ لیا اور گرین چینل سے نکلنے ہی والا تھا کہ ایک پولیس افسر آیا اور مجھے انگریزی میں کہنے لگا۔

جنٹلمین! فرانس کے قانون کے مطابق مسافر کو اپنے پاس موجود دس ہزار فرینچ فرانک سے زیادہ کیش رقم رپورٹ کرنی پڑتی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ میں ایک ٹورسٹ اور بینکر ہوں اور مجھے یہ قانون پتہ ہے۔ میرے پاس صرف دو ہزار پونڈ ہیں کیا آپ کو دکھاؤں۔ اس پر اس نے مجھے سوری بولا اور میں لاؤنج سے باہر آ گیا۔ باہر میرے برادر نسبتی علی عمران اپنے دو دوستوں کے ساتھ میرے انتظار میں پریشان کھڑے تھے چونکہ ہماری فلائٹ کے سارے لوگ جا چکے تھے۔ میرے برادر نسبتی ایک دن پہلے ہی بارسلونا سے میرے لئے پیرس پہنچے تھے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments